پہلگام میں دہشت گردحملہ علاقائی امن اور خطے کی صورتحال کے لئے نہایت سنگین اورتباہ کن ہوسکتا ہے
………………………………………………
انڈین کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردحملہ اوراس میں نیوی کے افسران سمیت دودرجن سے زائد سیاحوں کی ہلاکت اورزخمی ہونے کاواقعہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔میں اس دہشت گرد حملے کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتا ہوں اورحملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کااظہارکرتاہوں۔
میں سمجھتاہوں کہ دہشت گردی کایہ واقعہ نہ صرف حملہ کرنے والے دہشت گردوں اوراس حملے کی منصوبہ بند ی کرنے والوں کے لئے تباہ کن ہوسکتاہے بلکہ علاقائی امن اور خطے کی صورتحال کے لئے بھی نہایت سنگین اورتباہ کن ہوسکتاہے۔
میڈیاکی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے پہلگام کے اس سیاحتی مقام کونشانہ بنایاجہاں ہندوؤں کے مقدس ٹیمپل بھی واقع ہیں۔ دہشت گردو ں نے سیروتفریح اور عبادت کے لئے وہاں آنے والوں کونشانہ بنایاجن میں سیاحوں کے ساتھ ساتھ فوج کے افسران بھی شامل ہیں۔ بعض میڈیا اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے نہتے لوگوں سے باقاعدہ ان کے نام اورمذہب پوچھ کر انہیں گولیاں ماریں جس نے اس واقعہ کواوربھی سنگین بنادیاہے۔
اس دہشت گرد حملے کے بعدانڈیامیں حکمرانوں،سیاسی رہنماؤں، سیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں اورعوام میں شدیدغم وغصہ دیکھنے میں آرہاہے اوروہ اس دہشت گرد حملے کے حوالے سے پاکستان پرالزام لگارہے ہیں اوریہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حملہ پاکستان سے آنے والے افرادنے کیاہے، وہ اس حملے کا بدلہ لینے کامطالبہ کررہے ہیں جس سے صورتحال مزید کشیدہ اورانتہائی سنگین ہوگئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے یہ دہشت گرد حملہ کرایاہے اورجن دہشت گردوں نے یہ حملہ کیاہے اورمعصوم انسانوں کونشانہ بنایاہے انہو ں نے ا پنے لئے بہت مشکل پیداکرلی ہے۔
یہ انتہائی سنگین اورمذموم واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ امریکہ ، برطانیہ ،روس اور چین سمیت پوری دنیا اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کررہی ہے اورامریکہ کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے انڈیا کوہرقسم کے تعاون کایقین دلایاہے۔
آج سے چھ روز قبل 16 اپریل 2025ء کوحکومت پاکستان نے اسلا آبادمیں اوورسیزپاکستانیوں کا ایک کنونشن منعقد کیا تھا جس سے وزیراعظم شہبازشریف کے علاوہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل حافظ عاصم منیرصاحب نے بھی خطاب کیاتھا۔ اس پر میں آرمی چیف اوردیگرجرنیلوں کی خدمت میں کچھ گزارشات کرناچاہوں گا۔
محترم چیف آف آرمی اسٹاف جنرل حافظ عاصم منیر صاحب!
ڈائریکٹرجنرل آئی ایس آئی
تمام محترم کورکمانڈراورآپریشنل کمانڈرصاحبان
السلام علیکم آداب ،
میں آپ کا پاکستان کاایک جلاوطن بیٹا جو33برسوں سے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاررہاہے، آج کے واقعہ نے مجھے مجبورکردیاہے کہ میں آپ کے سامنے اپنی التجارکھوں۔
جنرل عاصم منیرصاحب!
16 اپریل 2025ء کوآپ نے اسلا آبادمیں اوورسیزپاکستانیوں کےکنونشن سے اپنے خطاب میں دوقومی نظریہ کے حوالے سے ہندوؤں اورمسلمانوں کوالگ قوم قراردیا۔ دوقومی نظریہ کی بحث توبرسوں سے چل رہی ہے اورچلتی رہے گی لیکن آپ کوتقریرمیں ہندو اور مسلمان کالفظ استعمال نہیں کرناچاہیے تھاکیونکہ ہندو اورمسلمان توآج بھی انڈیامیں ایک ساتھ رہتے ہیں اورایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے ہیں۔
جنرل عاصم منیرصاحب اوردیگرجرنیل صاحبان کوسوچناچاہیے کہ 1947ء سے قبل آپ کے دادا، پردادا، نانا، پرنانا کہاں رہتے تھے؟ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ ہی رہتے تھے ،اس وقت پاکستان یابنگلہ دیش کاوجود نہیں تھابلکہ ایک متحدہ ہندوستان تھا۔ تقسیم توانگریزوں کی سازش کے تحت ہوئی جس پر بحث کی جاسکتی ہے۔
جنرل عاصم منیرصاحب!
آپ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ کشمیرپاکستان کی شہ رگ ہے ۔تازہ واقعہ کے حوالے سے انڈیا میں آپ کی تقریرکاحوالہ دیاجارہا ہے۔ اس حوالے سے تواب حقائق منظر عام پرآچکے ہیں کہ 2019ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے انڈین کشمیر پر بھارت کا حق تسلیم کرتے ہوئے انڈیاسے دس سال کاغیراعلانیہ خفیہ معاہدہ کرلیاتھا کہ ہم دس سال تک انڈیاسے کوئی جنگ نہیں کریں گے ۔ پاکستان کی شہ رگ تواسی دن کٹ گئی تھی جب انڈیانے 2019ء میں آرٹیکل 370کوختم کرکے جموں کشمیر کو بھارت کے جغرافیہ کاحصہ بنالیاتھا۔ جب انڈیانے جموں کشمیر کوانڈیا کے جغرافیہ میں شامل کیااور پاکستان کی شہ رگ کاٹ لی تواس وقت آپ نے انڈیاکے خلاف کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھایا؟
جنرل عاصم منیرصاحب!
تمام محترم کورکمانڈراورآپریشنل کمانڈرصاحبان!
میں آپ سب سے پاکستان کی بقاء وسلامتی کاواسطہ دیکرکہتاہوں کہ اگرگھرکے اندر اتحاد اور یکجہتی نہ ہو، آپس میں لڑائی جھگڑا ہوتو باہرکادشمن باآسانی گھرپر حملہ آورہوسکتا ہے۔ اس وقت ملک کسی بھی طرح داخلی لڑائی جھگڑے کامتحمل نہیں ہوسکتا لہٰذا خداکے لئے فوج اورعوام کے درمیان فاصلوں کوکم کیجئے۔ عوام سے جوغلطیاں ہوئی ہیں ان کی طرف سے میں معافی مانگتاہوں اسی طرح فوج سے جوغلطیاں ہوئی ہیں ،فوج کی طرف سے کسی کوان پر بھی معافی مانگنی چاہیے تاکہ فوج اور عوام کے درمیان دوریاں ختم ہوں،صورتحال نہایت سنگین ہے لہٰذا تمام سیاسی قیادت کوایک ٹیبل پر بٹھائیں اوراس بات پر سرجوڑکر مشترکہ لائحہ عمل تیارکیاجائے کہ اگرموجودہ صورتحال میں بھارت کی جانب سے کوئی دخل اندازی کی جاتی ہے توپاکستان کواس پر کیاکرنا چاہیے۔ اس کے لئے عمران خان اورجوسیاسی رہنماجیل میں ہیں انہیں بھی رہاکریں۔
میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اورتمام سیاسی ومذہبی جماعتوں سے کہتاہوں کہ پاکستان پر جو وقت آن پڑاہے اس میں سب اپنے اختلافات کوایک طرف رکھیں اورمل بیٹھ کرغورکریں کہ اس صورتحال سے کیسے نمٹیں۔
میں فوج کی قیادت سے یہ بھی درخواست کروں گاکہ وہ کشمیرمیں ہونے والے واقعہ کی بھی کھوج لگائیں ۔ اگر پاکستان کی طرف سے ایسی کوئی حرکت ہوئی ہے توذمہ داروں کوپکڑ کرسرعام سزادیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ اگرپاکستان سے تعلق رکھنے والے کسی فرد نے بھی ایساکیاہے تویہ اس کی انفرادی کارروائی ہے۔
میں انڈیااورپاکستان میں کسی بھی قسم کی جنگ کامخالف ہوں۔ کیونکہ جنگ یاکسی بھی قسم کی کشیدگی نہ تو انڈیا اورپاکستان، دونوں ممالک کے عوام کے لئے بہتر ہے اورنہ ہی علاقائی امن واستحکام کے لئے صحیح ہے۔ میری خواہش ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کااحترام کرتے ہوئے آپس میں اچھے ہمسائے کی طرح رہیں تاکہ ریجن میں امن واستحکام ہو اوردونوں ملک کے عوام خوشحال ہوں۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 244ویں ہنگامی فکری نشست سے خطاب
22اپریل 2025ئ