سندھ میں صرف دیہی سندھ کے مقامی سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے۔ الطاف حسین
جو مہاجر گزشتہ 65 برس سے سندھ میں آباد ہیں وہ حکومت سے باہر ہیں
اگر قیام پاکستان کے بعد ملک میں لسانی و ثقافتی تقسیم ختم ہوچکی ہوتی تو آج سندھ کی آدھی آبادی حکومت سے باہر نہ ہوتی
ہجرت کے بعد پاکستان میں ہمیں مختلف تحقیر آمیز ناموں سے پکارا گیا، ہم نے ان میں سے لفظ ’’مہاجر‘‘ کو اپنی شناخت بنا لیا
کیا پاکستان بننے کے بعد یہاں پہلے سے موجود لسانی و ثقافتی شناختیں ختم ہوگئیں؟
کیا سو سال پہلے سندھ میں آباد ہونے والے بلوچوں اور پختونوں نے اپنی لسانی شناخت اور ثقافت چھوڑ دی؟
پاکستان کے غیر متعصب دانشور اور قلمکار رائے دیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی لندن اور پاکستان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب
کراچی ۔۔۔۔7 جون 2013ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے کہاہے کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی ہوتاہے لیکن آج صوبہ سندھ میں صرف دیہی سندھ کے مقامی سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے اورجومہاجرگزشتہ 65برس سے سندھ میں آبادہیں وہ حکومت سے باہر ہیں۔انہوں نے کہاکہ اگرقیام پاکستان کے بعد ملک میں لسانی وثقافتی تقسیم ختم ہوچکی ہوتی توآج سندھ میں محض سندھی بولنے والوں کی حکومت نہ ہوتی اور سندھ کی آدھی آبادی اس حکومت سے باہر نہ ہوتی۔ انہوں نے ان خیالات کااظہارآج ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی لندن اورپاکستان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے کہاکہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے 20 لاکھ جانوں کا نذرانہ پیش کیا، اس جدوجہد میں دشمنان پاکستان نے ماں ، بہن اوربیٹیوں کی عصمتیں تارتار کیں اورکچھ آگ اور خون کی ہولی میں چلتے چلتے جل کے مرگئے اور کچھ لوگوں کا سفر جاری رہا جو بالآخرپاکستان کی تقسیم پر منتج ہوا۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ برصغیرکے مسلمان، پاکستان آئے تو یہاں قیام پاکستان سے پہلے سے علاقے موجود تھے ، یہاں کی اپنی اپنی قومیتی، لسانی ، ثقافتی اور علاقائی شناختیں موجودتھیں ۔ 65 سال قبل بھی کوئی پٹھان تھا، کوئی سندھی تھا، کوئی بلوچ تھا ،کوئی سرائیکی تھا ،کوئی ہزاروال اور کوئی کشمیری تھا۔ انہوں نے مزید کہاکہ میں آج پاکستان کے عوام سے سوال کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کوحاضر وناظر جان کر اپنے ضمیر کے سامنے اس سوال کا جواب دیں کہ جب پاکستان بن گیا اور65 سال قبل سب پاکستانی بن گئے تو کیا پاکستانی شہری ہونے کے ناطے ،پاکستان میں پہلے سے موجود لسانی ، ثقافتی اور علاقائی شنا ختیں ختم ہوگئیں؟
جناب الطاف حسین نے کہاکہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان ہجرت کرتے وقت یہ سوچا بھی نہ تھا کہ انہیں پاکستانی شناخت کے علاوہ کسی اور شناخت کی ضرورت بھی پڑے گی لیکن 65 برس کے دوران انہیں کسی نے بھیا ، کسی نے مٹروا، کسی نے تلیر ، کسی نے غیرملکی اور کسی نے ہندوستان کے بھگوڑے کہا اور آج تک یہ طعنے دینے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔جوہم سے کہتے ہیں کہ تم لوگوں کا یہاں کیا کام ہے ، تم ہندوستان سے آئے تھے ، جاؤ واپس ہندوستان چلے جاؤ۔ پاکستان میں پہلے سے موجود قومیتوں نے دیگر تحقیری القابات کے ساتھ ساتھ ہمیں مہاجر بھی کہا جسے ہم نے اپنی شناخت بناکر متحد ہونا شروع کردیااورکہاکہ ہم بھی پاکستانی ہیں ، اگر سندھی ، بلوچ، پختون ، پنجابی اوردیگر قومیتوں کے لوگ اپنی اپنی علیحدہ لسانی وثقافتی شناختیں رکھنے کے باوجود پاکستانی ہوسکتے ہیں تو ہماری بھی اپنی پہچان اور زبان ہے اسی لئے ہم نے اپنی شناخت کیلئے لفظ ’’مہاجر ‘‘چنا ۔ہم نے اپنی شناخت کو اس لئے نہیں چنا کہ خدانخواستہ ہم اس کی بنیاد پر کسی سے برتری یافوقیت حاصل کریں گے یا اس بنیاد پر ہم کسی علیحدہ وطن یا صوبے کا مطالبہ کریں گے ۔جناب الطاف حسین نے پاکستان بھر کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیاکہ آج 65 سال گزرجانے کے بعد جب 2013ء کے انتخابات ہوئے تو اگر یہ ساری ثقافتی ، لسانی اور علاقائی تقسیم ختم ہوچکی ہوتی تو پھر آج صوبہ سندھ میں صرف سندھی بولنے والوں کی اکثریت حکمراں کیوں بنتی اور صوبہ سندھ کی آدھی آبادی صوبے کی حکومت سے باہرکیوں ہوتی؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ اگر کسی دانشوریا کالم نگار نے اس بارے میں لکھا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں لیکن ایسی کوئی تحریر میری نظر سے نہیں گزری اور میں نے آج کے دن تک اخبارات میں کسی دانشوریا کالم نگارکاکا لم نہیں دیکھا یا کسی نے اس جانب اشارہ نہیں کیا کہ جمہوریت کے معنی عوام کی حکومت کے ہیں، ملک کے ایک صوبے کی آدھی آبادی جنہیں مقامی سندھی کہاجاتا ہے ،ان کی تو حکومت ہے مگر جنہیں سندھی بولنے والانہیں کہا جاتا وہ حکومت سے علیحدہ کیوں ہیں اور اس کاقصور وار کون ہے ؟ انہوں نے مزید کہاکہ لوگ کہیں گے کہ اردوبولنے والے قصوروار ہیں ، انہیں مقامی آبادیوں میں ضم ہوجانا چاہئے تھا ۔اگر یہ بات ہے تو پھر ہمیں جواب دیا جائے کہ بلوچستان اور سندھ میں سوسال پہلے سے موجود پختونوں ،بلوچوں اور پنجابیوں نے کیا اپنی زبان اور شناخت یکسر تبدیل کرلی ہے ؟ کیا انہوں نے اپنی زبان چھوڑ کر سندھی یا بلوچی زبان بولنا شروع کردی ہے اور کیا انہوں نے اپنی ثقافت سے رشتہ ناطہ توڑلیا ہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ جو بھی میرے ان نکات کا جواب دیناچاہے ضرور دے لیکن اگر وہ سچ ، حقائق اور دلائل کی بنیاد پر جواب دیں توان کی مہربانی ہوگی ۔جناب الطاف حسین نے پاکستان کے غیرمتعصب دانشوروں ، رہنماؤں اور قلمکاروں سے اپیل کی کہ وہ مجھے اورمیری جماعت کے لوگوں کو رائے دیں کہ ان حالات میں ہمیں کیاکرنا چاہئے ؟ ہم ان کے مشوروں کے طالب رہیں گے۔