بینظیربھٹوکے قتل کے بعد تین روز تک قتل وغارتگری اوردہشت گردی کاجو بازار گرم کیا گیا ، اس سانحے کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
الطاف حسین
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیوگٹرس ایک خصوصی تحقیقاتی وفد بھیج کران واقعات کی انکوائری کرائیں
………………………………………………
بینظیربھٹو ایک بڑی لیڈرتھیں،ان کا قتل یقینانہایت افسوسناک تھااورہے، اس پر ہمیں بھی بہت دکھ اورافسوس ہے لیکن 27دسمبر 2007ء کوراولپنڈی میں بینظیربھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی کے مسلح دہشت گردوں نے 27، 28 اور29دسمبر کو کراچی، حیدرآباد اورسندھ کے دیگرشہری علاقوں میں تین روز تک قتل وغارتگری اوردہشت گردی کاجو بازار گرم کیا، ان شہروں کو جس طرح آگ اورخون میں نہلایاگیاوہ ناقابل فراموش ہے۔ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیوگٹرس سے اپیل کرتاہوں کہ ایک خصوصی تحقیقاتی وفد بھیج کران واقعات کی انکوائری کرائی جائے۔
بینظیربھٹو کے قتل اوراس کے بعد کے واقعات کی گھناؤنی سازش کی منصوبہ بندی کئی مہینوں سے کی جارہی تھی ، اس منصوبے کے تحت بینظیربھٹوکے قتل کے بعد اتنے بڑے سانحے کارخ موڑنے اورعوام کے غم وغصے کودبانے کے لئے بربریت اوردہشت گردی کا منصوبہ تیار کیا گیا ۔ لہٰذا جیسے ہی راولپنڈی میں بینظیر بھٹوکاقتل ہوا،اس کے بعدپہلے سے تیارکردہ منصوبے کے تحت پیپلزپارٹی کے تربیت یافتہ جیالوں کوکراچی ، حیدرآباد اورسندھ کے دیگرشہری علاقوں میں سرگرم کردیاگیاجواسلحہ،گولہ بارود ، آتش گیر کیمیکل اوردیگر ہتھیاروں سے مسلح ہوکرنکل آئے اورانہوں نے آناًفاناًمیں لوٹ مار، گھیراؤجلاؤ اوردہشت گردی کا سلسلہ شروع کردیا۔ بہت بڑے پیمانے پر گاڑیوں، دکانوں، بینکوں، فیکٹریوں اوردیگراملاک کو جلایا گیا ۔ سرکاری ونجی املاک کولوٹاگیا، ایم کیوایم کے دفاتراور کارکنوں کے گھروں پر حملے کئے گئے ،انہیں نذرآتش کیا گیا ، مہلک بارود یا آتش گیر کیمیکل کے ذریعے فیکٹریوں کو مزدوروں سمیت جلایاگیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں 1200سے زائد گاڑیوں کو نذرآتش کیا گیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ 27دسمبر کو فیکٹریوں اوردفاترسے گھروں کوواپس جانے والی متعدد خواتین کواغواکرکے ان کی عصمت دری کی گئی ۔ اندرون سندھ ایم کیوایم کے دفاتراور مہاجرکارکنوں سمیت سندھی ،بلوچ کارکنوں کے گھروں اور املاک پر بھی حملے کئے گئے۔اس طرح لسانی فسادات کی بھی کوششیں کی گئیں ۔
تین روز تک دہشت گردی اورآگ اورخون کایہ کھیل جاری رہا،اس دوران انتظامیہ، پولیس اوررینجرز مکمل طورپر غائب رہی اورکراچی اورسندھ کے دیگرشہرمکمل طورپرپیپلزپارٹی کے دہشت گردوں کے رحم وکرم پرچھوڑدیے گئے۔27، 28، 29دسمبرہمارے لئے سیاہ دن تھے ۔ہم اس سانحے کو کبھی نہیں بھول سکتے۔
مجھے اس بات کاجواب چاہیے کہ بینظیربھٹوکاقتل صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں ہواتھالیکن راولپنڈی یا پنجاب کے کسی شہرمیں اس طرح کاکوئی احتجاج نہیں ہوا،پھر تین دنوں تک کراچی میں قتل وغارتگری کیوں کی گئی؟ میں اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کرتاہوں اوردعا کرتاہوںکہ اللہ تعالیٰ ان شہداکواپنی جواررحمت میں جگہ عطافرمائے ۔ میں پیپلز پارٹی کے دہشت گردوں کے ہاتھوں متاثرہونے والے کارکنوں اوردیگر افراد سے بھی دلی ہمدردی کااظہار کرتاہوں۔
میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیوگٹرس سے اپیل کرتاہوں کہ وہ بینظیر بھٹوکے قتل کے بعد تین روز تک کراچی اورسندھ کے دیگرشہروں میں ہونے والی قتل وغارتگری اوربربریت کے واقعات کی انکوائری کرائیں۔میں خود اس تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیارہوں اوراس کمیشن کے سامنے ان کارکنوں اوردیگرمتاثرین کو بھی پیش کرسکتاہوں جن کے گھروں پر حملے ہوئے۔
9مئی 2023ء اور26نومبر2024ء کے واقعات:
…………………………………
اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر میں یہ سمجھتاہوں کہ9مئی 2023ء اور26نومبر2024ء کے واقعات میں فوج اور آئی ایس آئی پوری طرح ملوث تھی۔ عوام نے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو فوجی گاڑیوں سے اترکراحتجاج کرنے والے عوام میں شامل ہوتے دیکھاہے جن کی وڈیوز تک موجودہیں ، جن کا جسمانی ڈیل ڈول اورحلیہ بھی انہی جیسا تھا جو ویگوڈالوں میں آکرگھروں پرچھاپے مارتے ہیں۔ جنہوں نے مظاہرین میں شامل ہوکرعوام کواشتعال دلایااورخود املاک کوآگ لگائی۔ پی ٹی آئی کے لوگوں کوسمجھ لیناچاہیے کہ جس طرح فوج نے9مئی کا ڈرامہ کیاتھااسی طرح یہ ایم کیوایم کی ہڑتالوں کوبھی پرتشددثابت کرنے کے لئے خودگاڑیوں کوآگ لگاتے تھے۔
میراسوال ہے کہ 9مئی 2023ء کوجی ایچ کیو، لاہور میں کورکمانڈرہاؤس اورفوج کی دیگر چھاؤنیوں اورآئی ایس آئی کے مراکز پر احتجاج اورتوڑپھوڑ کے وقت وہاں مستقل موجود فوج کی سیکوریٹی کیوں غائب تھی؟ فوج کی سیکوریٹی کس کے حکم پر ہٹائی گئی تھی؟
اسی طرح 26نومبر 2024ء کوجب پی ٹی آئی نے اپنے مطالبات کے حق میں اسلام آباد میں جو پرامن احتجاجی جلوس نکالاتھااس پرامن احتجاجی جلوس کے نہتے شرکاء پر فوج، رینجرزاورپولیس نے علاقے کی لائٹ بندکرکے اس قدرشدیدوحشیانہ فائرنگ کی کہ اس کے نتیجے میں جلوس کے سینکڑوں شرکا شہیدوزخمی ہوئے جبکہ کئی درجن افراد ابھی تک لاپتہ ہیں۔ پرامن اورنہتے شہریوں پر گولیاں برسانے اوران کے قتل عام کے اس واقعے نے جلیانوالہ باغ کے قتل عام کی یاد تازہ کردی۔ افسوس تویہ ہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے ابھی تک اتنے بڑے واقعے کی کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں بلکہ موجودہ حکومت نہایت بے شرمی کے ساتھ اس قتلِ عام کی ذمہ داری بھی پرامن جلوس کے نہتے شرکا ء پرہی لگارہی ہے ۔
میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے اپیل کرتاہوں کہ9مئی 2023ء اور 26 نومبر 2024ء کے واقعات کی تحقیقات کے لئے اپناایک وفد پاکستان بھیجے ۔ میں امریکہ کے نومنتخب صدرڈونلڈ ٹرمپ سے بھی اپیل کرتاہوں کہ وہ صدارت کامنصب سنبھالنے کے بعد 27 دسمبر 2007ء کے واقعات کی تحقیقات کرائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد9مئی 2023ء اور26نومبر2024ء کے واقعات کی بھی تحقیقات کرائیں۔
الطاف حسین
(ٹک ٹاک پر 193 ویں فکری نشست سے خطاب)
29دسمبر 2024ئ