ضرورت پڑی تو ایم کیوایم کے ایک لاکھ کارکنان پاک افواج کے شانہ بشانہ اس جدوجہد ، جہاد اور جنگ میں شریک ہوں گے، ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی
طالبان کے حمائیتوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے کیسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ، فیصل سبزواری
ایم کیوایم کے زیراہتمام مسلح افواج سے اظہار یکجہتی اور دہشت گردی کے خلاف شاہراہ قائدین پر نکالی گئی عظیم الشان ریلی کے لاکھوں شرکاء سے خطاب
کراچی :۔23؍ فروری 2014ء
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ وقت عمل کا ہے ، سوچنے کا وقت جاچکا اور اب فیصلہ کن وقت آچکا ہے ، ہم محبت ، امن ، پیار ،محبت، درود ؐوالے لوگ ہیں اور ہم بارود والوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں ۔ضرورت پڑی تو ایم کیوایم کے ایک لاکھ کارکنان پاک افواج کے شانہ بشانہ اس جدوجہد ، جہاد اور جنگ میں شریک ہوں گے ۔ ایک جانب پاکستان کے اور دوسری جانب طالبان کے حمایتی ہیں جنہوں نے نام بھی بدل بدل کر رکھے ہیں جو جہالت اور جبر کے اندھیرے پھیلا رہے ہیں انہوں نے اپنا نام منور رکھا ہوا ہے ۔ان خیالات کااظہا رانہوں نے اتوار کے روز شاہراہ قائدین پر مسلح افواج ،ایف سی ، رینجرز اور پولیس سے اظہار یکجہتی کیلئے اور دہشت گردی کے خلاف نکالی گئی عظیم الشان ریلی کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اظہار یکجہتی ریلی سے ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین کے علاوہ علمائے کرام ، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، اے پی ایم ایل اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا ۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سلام ہے ان تمام لوگوں پر جو دہشت گردی کے خلاف میدان عمل میں اترے ہیں ، ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی جب پاکستان کی بقاء اورحق پر کھڑے ہونے کا معاملہ آیا ہے تو قائد تحریک جناب الطاف حسین نے ہی پہلا قدم اٹھایا ہے اور انشاء اللہ ہم انکے قدم کے ساتھ قدم ملاتے رہیں گے اور انشاء اللہ منزل پرپہنچے گے ۔ انہوں نے کہاکہ قائد تحریک جناب الطاف حسین کی آواز سے آواز ملتی جائے گی اور اس شہر اور ملک کا فیصلہ دنیا تک پہنچ جانا چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان اور پاکستانی قوم تاریخ کے اہم اور نازک دوراہے پر ہیں ،یہاں سے ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ چوز کرنا ہے یا لوز کرنا ہے ، ایک طرف امن ہے ، دوسری طرف وحشت ہے ، ایک طرف قائد اعظم کا پاکستان ہے دوسری جانب طالبان ہیں ۔ ایک طرف اسکول کالج ، یونیورسٹیاں ہیں ، ملالہ یوسف زئی ہے تو دوسری جانب ملال ہے اور تباہ حال اسکول ہیں ، ایک جانب امن ہے تو دوسری طرف وحشت ، درندگی ہے اور سر کٹی لاشیں ہیں اور افواج پاکستان جن کی ذمہ داری پاکستان کی حفاظت کرنا ہے ان کے کٹے سر ہیں آج پاکستانیوں کو فیصلہ کرنا ہے ، اس سڑک پر لاکھوں کا مجمع ہے جو پاکستان کے حامی ہیں اور جو اس ریلی کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں وہ طالبان کے حامی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردوں نے اسلام کے نام پر درندگی کا کھیل کھیلا ہے اور اسلام کو دنیا بھر میں بدنام کردیا ہے ، قائد تحریک الطاف حسین نے اسلام کی بقاء کیلئے پہلا قدم اور بنیاد رکھ دی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ایک جانب پاکستان کے حمایتی ہیں اور دوسری جانب طالبان کے حمایتی ہیں جنہوں نے نام بھی بدل بدل کر رکھے ہیں جو جہالت اور جبر کے اندھیرے پھیلا رہے ہیں انہوں نے اپنا نام منور رکھا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ فیصلے کی گھڑی آچکی ہے ، ایک طرف محبت کا زم زمہ ہے اور دوسر ی جانب نفرت کا راستہ ہے پاکستانی نفرت کو مسترد کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج فیصلہ کرنا ہے کہ بم اچھا ہے یا بچوں کی ہنسی اچھی ہے ، 80ء کی دہائی میں نفرت اور انتہاء پسندی کا بیج بویا گیا تھا اور اس کی آبیاری کی گئی اور جب خطرہ خطرے کے نشان سے اوپر ہوا تو آج سے دس سال قبل سے قائد تحریک جناب الطاف حسین نے اس خطرے کے بارے میں پاکستان کی عوام اور ارباب اختیار کو بار بار باآور کرار ہے ہیں ۔
سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم کے قائد حزب اختلاف فیصل سبزواری نے کہا کہ اظہار یکجہتی کی فقید المثال اور شاندار ریلی دیکھ کر سمجھ لیاجائے کہ یہ چند سر پھیروں کی ریلی نہیں ہے بلکہ یہ ریلی پاکستان کی سوئی ہوئی دانش اور ضمیرکو جگانے کی ہے جسے قائد جناب الطاف حسین نے ہمیشہ جگایا ہے۔انہوں نے کہاکہ 2001ء میں انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے خلاف بات کرنی ہو تو کون کرتا ہے ؟ ریلی کہاں نکلتی ہے ؟پاکستان بھر میں ریلی نکلتی ہے تو کراچی شہر میں نکلتی ہے اور ایم کیوایم نکالتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ آج پھر تاریخ گواہ رہے گی کہ جب دہشت کے سامنے کھڑے ہونے کی بات بلا خوف و خطرہوئی تو صرف ایک جماعت ایم کیوایم اور لیڈر جناب الطاف حسین جن پر ملک کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ طعنے لگائے گئے لیکن ہمیں اس کی پروا نہیں ہے ہم پاسبان ہیں اور اپنے پاسبانوں کے ساتھ آج بھی کھڑے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ طالبان کے حمائیتوں کو
سوچنا چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے کیسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ۔