Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

تحریکی یادوں کے دریچے: ( سول ہسپتال، کراچی)


 تحریکی یادوں کے دریچے:  ( سول ہسپتال، کراچی)
 Posted on: 6/11/2024

تحریکی یادوں کے دریچے:

( سول ہسپتال، کراچی)

11 جون، 2024ء

تحریر : ڈاکٹر ندیم احسان

۔

معزز قارئین،

السلام علیکم و آداب،

آج APMSO کا 46 واں یومِ تاسیس ہے۔ اس تاریخ ساز دن کے پرمسرت موقع پر میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور انشاء اللّہ یہ سلسلہ آئندہ جاری رہے گا۔ سب سے پہلے میری جانب سے بانی و قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی اور تمام وفاپرستوں کو APMSO کا 46 واں یومِ تاسیس مبارک ہو۔

قارئینِ کرام،

آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہو، مہاجر قومی موومنٹ ہو، متحدہ قومی موومنٹ یا آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، ان چاروں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے بانی و قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی کی کرشماتی شخصیت۔ تحریک میں ذمہ داران ہوں یا کارکنان، ان سب کی اپنے قائد اور تحریک سے دلی اور ذہنی وابستگی ہے۔ قائدِ محترم کی بےمثال شخصیت اور ان کی پوری تحریکی زندگی، جدوجہد اور قربانیاں ہم سب کیلئے فخر کا باعث بھی ہیں اور مشعلِ راہ بھی۔ قائدِ محترم نے جس طرح اپنی تقاریر، تحریروں اور فکری نشستوں میں ہماری ذہنی و تحریکی تربیت کی ہے، وہ اس حقیقت پر مہرِ تصدیق ہے کہ الطاف بھائی بلاشبہ اس صدی کے ایک عظیم رہنما ہیں۔ الطاف بھائی کی شخصیت پر ہم میں سے ہر کارکن کم ازکم ایک کتاب تحریر کرسکتا ہے۔ الطاف بھائی نے تو تاریخ میں اپنا نام امر کرلیا ہے۔ مگر وہ اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ ایک بات کہتے ہیں کہ

“ جتنی تم ساتھیوں کی تربیت میں نے کی ہے، وہ تاریخ میں کسی بھی سیاسی رہنما نے نہیں کی ہوگی۔ میں تو چھیالیس برس سے دن رات کام کررہا ہوں اور جتنا میں نے کہا اور لکھا ہے، اتنا شاید ہی کسی نے کہا اور لکھا ہوگا، مگر مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ وہ سارا ریکارڈ محفوظ نہیں کیاجاسکا۔ کیونکہ ریاستِ پاکستان اور اس کی فوج، تحریک کے خلاف آپریشن اور چھاپوں میں لاکھوں کی تعداد میں میری وڈیوز، آڈیوز، تحریریں، تصویریں، کتابیں، ہینڈبلز، پوسٹرز، اخبارات کے تراشے، خطوط یا تو اٹھاکر اپنے ساتھ لے گئی یا اس نے انہیں ضائع کردیا۔ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کررہا ہوں کہ وہ تاریخی تحریکی مواد اپنی تقریروں، فکری نشستوں میں اور تربیت کرتے ہوئے بتاؤں، مگر بہت سا مواد ہم پھر بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ کارکنان اور عوام اس ضمن میں مدد تو کررہے ہیں، لیکن تمام تحریکی ساتھیوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی یادداشتیں تحریر کریں تاکہ وہ ریکارڈ پر آجائیں اور تاریخ کا حصہ بن سکیں۔”

بحیثیت الطاف بھائی کے ایک کارکن کے میں نے اپنی تحریکی یادداشتوں کو لکھنے کا ارادہ کیا ہے۔ میری کوشش ہوگی کہ میں انہیں بہت آسان الفاظ میں قلمبند کرنے کی کوشش کروں۔

آج میں بانی و قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی کی تحریکی زندگی سے متعلق سول ہسپتال، کراچی میں ان کے ساتھ گزارے ہوئے ان لمحات اور ان یادداشتوں کو قلمبند کرنے کی کوشش کروں گا جو میرے تحریکی ذہن میں محفوظ ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ تاریخوں میں انیس بیس کا فرق آجائے کیونکہ وہ کسی جلسے، کسی عوامی اجتماع یا کسی واقعہ کی تاریخیں نہیں ہیں جو ہم لائیبریریوں، اخبارات، جرائد یا انٹرنیٹ سے حاصل کرسکیں بلکہ یہ ایک ہسپتال کے ایک کمرے میں گزارے جانے والے ان ایام کی یادداشتیں ہیں جو بوجوہ کسی ریکارڈ کا حصہ بن نہ سکیں۔

اب آتے ہیں قائدِ محترم کی اس بیماری، اس کے علاج اور سول ہسپتال میں داخل ہونے کی اُن یادداشتوں کی جانب جو میں اپنی اس تحریر میں قلمبند کرنے کی سعی کروں گا۔ اس سے قبل میں اس شخصیت کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو اس بیماری میں قائدِ محترم کے معالج رہے۔ وہ شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، دنیا انہیں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے نام سے جانتی، پہچانتی اور ان کا ادب کرتی ہے۔ میں نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی اور سول ہسپتال، ڈاؤ میڈیکل کالج کا تدریسی ہسپتال ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی میرے استاد رہے ہیں۔ ایک استاد سے ان کے  ہزاروں شاگردوں کا جو تدریسی تعلق ہوسکتا ہے، میرا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سے اتنا ہی تعلق رہا اور اس میں احترام کا رشتہ ہمیشہ غالب رہا۔ اس رشتہ میں مزید پختگی کب آئی میں اس کا مختصر تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ بات 2008 کی ہے کہ جب قائدِ محترم نے مجھے قومی اسمبلی کا رکن بنوایا۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں مجھے صحت کی قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بنوایا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی Sindh Institute of Urology & Transplantation کے بانی اور سربراہ ہیں۔ انہوں نے اور SIUT کے ڈائیریکٹرز نے صحت کی قائمہ کمیٹی کے چئیرمین کی حیثیت سے مجھے SIUT مدعو کیا اور کہا کہ جنرل مشرف کے دور کا ایک آرڈیننس منظور کروانا ہے جو آپ اپنی کمیٹی میں لیجئے جس کا نام Organ & Tissue Transplantation Ordinance ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی کے 16 برس اس پر لگائے ہیں، مگر اب اسے نامنظور کرانے کیلئے طاقتور قوتیں مصروفِ عمل ہوگئی ہیں اور یہ آرڈیننس Lapse ہوجائے گا۔ میں نے قائمہ کمیٹی کی میٹنگ بلائی اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ان کی ٹیم کو اس میں مدعو کیا۔مختصراً یہ کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے مشرف کے دور کے 34 آرڈیننس پارلیمنٹ کو بھیجے کہ وہ انہیں منظور کرلے ورنہ یہ تمام آرڈیننس منسوخ سمجھے جائیں گے۔ ان تمام آرڈیننس میں سے صرف Organ & Tissue Transplantation Ordinance قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت اور قومی اسمبلی کے ایوان سے سپریم کورٹ کی دی جانے والی ڈیڈلائن سے ایک دن قبل 12 نومبر 2009 کو بغیر کسی ترمیم کے منظور ہوکر ملک کا قانون بن گیا۔ اور یہ اس وجہ سے ممکن ہوپایا کہ قائدِ محترم کی تربیت اور وژن ہے کہ انسانیت کی خدمت کرو اور اسی جذبے سے قائد کے ایک کارکن نے اس ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ یہ الگ طویل موضوع ہے اور اس پر کسی اور گفتگو میں کبھی تفصیل سے بات ہوگی۔ 

قارئینِ کرام،

اب میں وہ واقعہ تحریر کروں گا کہ جس کی بنیاد پر میں نے اس آرڈیننس کو منظور کرانے کیلئے دن رات ایک کردیئے۔ ہوا یوں کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو میں نے قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں مدعو کیا اور وہ اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کیلئے اسلام آباد تشریف لائے۔ میں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ گاڑی میں سے جب وہ اپنا سامان اٹھانے لگے تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں روک دیا اور انہیں کہا کہ سر آپ کا سامان میں اٹھاؤں گا۔ کہنے لگے کیوں میاں تم میرا سامان کیوں اٹھاؤگے ؟ میں نے کہا سر بحیثیت آپ کے شاگرد کے میرا فرض ہے کہ میں آپ کا احترام کروں مگر میں نے اپنا قرض بھی ادا کرنا ہے۔ انہوں نے پوچھا تم پر کونسا قرض ہے ندیم میاں؟ میں نے جواب دیا “ سر، آپ نے میرے قائد کا اس وقت علاج کیا جب وہ انتہائی جسمانی تکلیف میں تھے اور میں آپ کی خدمت کرکے وہ قرض ادا کرنا چاہتا ہوں”۔ انہوں نے مسکرا کر مجھ سے پوچھا، ندیم میاں تمہیں یقین ہے کہ تم اس آرڈیننس کو منظور کروالوگے؟ کیونکہ اس کو رکوانے میں ملک کی بہت طاقتور اور منظم مافیا ملوث ہے۔ میں نے کہا سر آپ اپنا کام کیجئے اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔ انہوں نے پھر پوچھا تم یہ بتاؤ یہ کام ہوجائے گا؟ میں نے کہا سر مجھے یقین ہے کہ میرے قائد کی دی ہوئی تربیت سے میں اس کام میں سرخروئی حاصل کرلوں گا۔ کہنے لگے تمہاری کمیٹی میں کوئی بھی تمہاری پارٹی کا نہیں ہے۔ میں نے انہیں مسکرا کر کہا ارے سر وہ آپ مجھ پر چھوڑدیں، ان میں سے کوئی بھی میری مخالفت نہیں کرے گا۔ آپ بس دعا کیجئے۔ یہ میرا تحریکی فرض بھی ہے اور مجھ پہ یہ قرض بھی ہے۔

۔

معزز قارئین،

اب آتے ہیں الطاف بھائی کی اس بیماری، علاج اور سول ہسپتال میں بیتی ان یادوں کی طرف۔ مگر اس سے قبل ایک ضروری تمہید۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ریاستِ پاکستان نے الطاف بھائی کو تین بار گرفتار کیا اور تینوں بار جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں۔ پہلی گرفتاری 14 اگست 1979 کو جس میں سمری ملٹری کورٹ سے 9 ماہ قید اور 5 کوڑوں کی سزا اور رہائی 28 اپریل 1980 کو عمل میں آئی۔ دوسری گرفتاری 31 اکتوبر/ یکم نومبر 1986 کو حیدرآباد پکا قلعہ کے تاریخی جلسہ سے واپسی پر گھگھر پھاٹک کے مقام پر اور رہائی 24 جنوری 1987 کو ہوئی۔ تیسری گرفتاری جو رضاکارانہ تھی، ڈپٹی کمشنر سینٹرل، کراچی کے آفس سے 30 اگست 1987 کو اور رہائی 7 جنوری 1988 کے دن ہوئی۔ یہاں ان گرفتاریوں کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ الطاف بھائی نے اپنی تحریکی زندگی کے تمام دن رات قوم کے بہتر مستقبل کیلئے صرف کردیئے۔ جیل میں ان پر ہونے والے جسمانی تشدد اور ان کی تحریکی زندگی میں دن رات کا جاگنا، کھانا وقت پر نہیں کھانا یا کئی کئی وقت نہیں کھانا، بہت کم سونا اور مسلسل قوم کیلئے غور و فکر نے ان کے جسم پر گہرے اثرات چھوڑے۔ اس وجہ سے اس وقت انہیں ایک بیماری لاحق ہوئی جسے Vesico Ureteric Reflux کہتے ہیں۔ مختصراً یہ بتادوں کہ طبی لحاظ سے اس کی دو وجوہات ہوتی ہیں پہلی وجہ پیدائشی اور دوسری وجہ جسمانی۔ الطاف بھائی کو نہ تو پیدائشی اور نہ ہی جسمانی طور پر یہ مرض لاحق تھا۔ طب میں اس بیماری کی ایک بہت rare وجہ ہوتی ہے جو جسمانی تشدد یا ذہنی تناؤ کا تسلسل یعنی بے آرامی یعنی دن رات کا جگار۔ اور الطاف بھائی ایامِ اسیری میں خود پر ہونے والے جسمانی تشدد اور دن رات تحریکی کاموں میں مصروف ہونے کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا ہوئے۔

قارئینِ کرام،

اس بیماری کے سلسلے میں الطاف بھائی دو بار سول ہسپتال کے urology ward میں داخل ہوئے۔ پہلی بار اپنی دوسری گرفتاری کے بعد ہونے والی رہائی کے فوری بعد اور دوسری بار اپنی تیسری گرفتاری کے بعد ہونے والی رہائی کے فوری بعد۔ دونوں بار الطاف بھائی سول ہسپتال کے پرائیویٹ کمرے میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کے زیرِ علاج رہے۔ الطاف بھائی کو مین وارڈ کے بجائے پرائیویٹ کمرے میں اسلئے رکھا گیا کہ یہ ہم کارکنان کی ضد تھی کیونکہ ایجنسیاں اور ان کے مسلح جتھے، الطاف بھائی کی جان کے درپے تھے۔

قارئینِ کرام،

اب آتے ہیں الطاف بھائی کے پہلی بار جنوری 1987 میں سول ہسپتال داخلے پر۔ یہ ذہن نشین رہے کہ 8 اگست 1986 نشتر پارک، کراچی اور 31 اکتوبر 1986 پکا قلعہ، حیدرآباد کے کامیاب جلسے ہوچکے ہیں۔ الطاف بھائی کو گرفتار کیا گیا۔ اور ان کی اسیری کے دوران 14 دسمبر 1986 کو قصبہ علیگڑھ کا سانحہ فوج/ ISI نے کروایا۔ انہوں نے الطاف بھائی کو گرفتار کرکے جیل میں اسلئے رکھا کہ الطاف بھائی کی امن اور بھائی چارے کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے۔

قارئینِ کرام،

اب میں ان چند واقعات کا ذکر کروں گا جن کا میں نے سول ہسپتال میں مشاہدہ کیا اور جن سے میں نے تنظیمی و تحریکی تربیت حاصل کی۔

۔

سیکورٹی کا مسئلہ اور الماری کو ہٹانا:

سول ہسپتال میں بحیثیت APMSO ڈاؤ میڈیکل کالج یونٹ کے کارکن کی حیثیت سے میں ڈیوٹی دیتا تھا اور میں کالج کے اس ہاسٹل میں مقیم تھا جو ہسپتال کے اندر ہی واقع تھا۔ الطاف بھائی کو جو کمرہ دیا گیا وہ فرسٹ فلور پر بالکل ہاسٹل کے بالمقابل تھا یعنی اس کی کھڑکی کھولیں تو سامنے ہاسٹل تھا اور الطاف بھائی کا بستر کھڑکی کے ساتھ تھا۔ یہ صورتحال سیکورٹی کے لحاظ سے پریشان کن تھی۔ مگر ہم بھی تو APMSO کے ایک کارکن ٹہرے۔ ہم نے ہمت کرکے قائدِ محترم سے کہا کہ پیرصاحب آپ کا بستر یہاں سے ہٹانا ہوگا۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ اب مجھ میں اتنی ہمت تو تھی نہیں کہ میں قائدِ محترم کو جواب دیتا۔ میں نے گارڈ ساتھیوں سے کہا، وہ سامنے ہاسٹل ہے۔ وہاں مسلح جماعتی، سرخے اور دیگر رہتے ہیں اور ان کے علم میں آجائے گا کہ الطاف بھائی اس کمرے میں ایڈمٹ ہیں تو یہ الطاف بھائی کی سیکورٹی کیلئے قطعی درست نہیں۔ گارڈ ساتھیوں نے پوچھا پھر کیا کریں کمرہ تبدیل کریں؟ میں نے کہا نہیں بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ یہ لوہے کی الماری کھڑکی کے سامنے لگاتے ہیں اور پیر صاحب کا بیڈ دوسری دیوار کے ساتھ لگالیتے ہیں۔ الطاف بھائی نے کہا، ساتھیوں،  جیسا یہ کہہ رہا ہے وہ کرلو۔ میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور پھر گارڈ ساتھیوں کے ساتھ مل کر الماری کو کھڑکی کے ساتھ لگایا اور قائدِ محترم کے بیڈ کو دوسری دیوار کے ساتھ۔ 

۔

قائدِ محترم نے اپنی پلیٹ میں کھانا کھانے کو کہا:

سول ہسپتال میں الطاف بھائی سے ملنے ایم کیوایم کی مرکزی کابینہ آتی تھی یا صرف وہ لوگ آتے تھے جن کو یا تو الطاف بھائی بلاتے تھے یا مرکزی کابینہ جنہیں ملاقات یا عیادت کیلئے بھیجتی تھی۔

الطاف بھائی اور ڈیوٹی دینے والے تمام ذمہ داران اور ساتھیوں کا کھانا نائن زیرو سے آتا تھا۔ ایک دن قائدِ محترم سے عیادت کرنے کیلئے اختر رضوی صاحب آئے۔ ان کا الطاف بھائی سے گہرا تحریکی تعلق تھا۔ الطاف بھائی اور اختر رضوی صاحب کھانا تناول فرمارہے تھے تو مجھے کسی کام سے طلب کیا گیا۔ میں وہاں گیا تو الطاف بھائی نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں جب بیٹھ گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا آؤ میاں کھانا کھالو۔ میں نے سر جھکا کر آہستہ سے نفی میں ہلادیا۔ کہنے لگے کیوں نہیں کھاؤگے؟ میں نے کہا پیر صاحب کھایا نہیں جائے گا۔ فرمانے لگے چلو اچھا میری پلیٹ میں کھالو۔ میرے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ میں نے کہا پیر صاحب اب تو بالکل کھایا نہیں جائے گا۔ انہوں نے پیار سے ڈانٹا اور کہا چلو میاں کچھ تو چکھ لو۔ میں نے کانپتے ہاتھ سے چھوٹا سا لقمہ بناکر سالن میں ڈبویا اور منہ میں رکھ کر اجازت لے کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ ایسا ہے ہمارا قائد، کارکنان سے اتنی محبت کرنے والا۔ نمک حلالی صرف کھانے میں نہیں ہوتی، نمک حلالی خون میں شامل ہوتی ہے۔ اور الطاف بھائی کے ہزاروں وفاپرستوں نے تمامتر ریاستی مظالم اور جبر کے اس حقیقت کو اپنی وفاداری سے ثابت کیا ہے اور کررہے ہیں۔

۔

ہم کس سے مدد مانگیں:

8اگست 1986نشتر پارک کے جلسے اور بالخصوص 31 اکتوبر 1986، پکا قلعہ کے جلسے کے بعد چھاپوں اور گرفتاریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری تھا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا دور تھا۔ اپنے ہی شہر میں رہنے کیلئے زمین تنگ کردی گئی تھی۔ الطاف بھائی علاج کے سلسلے میں سول ہسپتال میں ایڈمٹ تھے، اجازت کے بغیر ان سے ملاقات پر مکمل ممانعت تھی۔ اور ڈاؤ میڈیکل کالج یونٹ کے کارکنان کو خصوصی طور پر منع تھا کہ آپ میں سے کوئی ملاقات کیلئے نہ آئے نہ کسی سے درخواست کرے گا۔ ایک دن ڈاؤ کے ساتھیوں کی لاٹری نکل آئی کہ الطاف بھائی نے کہا کہ یونٹ کے ساتھیوں کو بلالو۔ سب ساتھی آگئے۔ الطاف بھائی بستر پہ تھے، ڈرپ لگی ہوئی تھی اور پھر فکری فرشی نشست شروع ہوگئی۔ الطاف بھائی نے فوج کے ظالمانہ کردار اور مہاجروں اور ایم کیوایم کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کا ذکر تفصیل سے کرنے کے بعد اپنی طرف سے کی جانے والی تمام کوششوں اور کاوشوں کا بتایا اور کہا کہ فوج مہاجروں کو ان کے جائز حقوق دینے کو تیار نہیں۔ ہم نے ہر کوشش کرکے دیکھ لی، اب آپ لوگ بتائیں کہ ہم کس سے مدد مانگیں؟ الطاف بھائی نے ہر ساتھی سے اس کی رائے پوچھی۔ جب میرا نمبر آیا تو میں نے عرض کی، پیر صاحب اُن سے مدد مانگیں جن سے یہ مدد مانگتے ہیں۔

۔

گولڈلیف کا پیکٹ اور چائے بڑے کام کروالیتی ہے:

میں ذکر کررہا ہوں 1987 کا کہ جب موبائل فونز نہیں ہوتے تھے۔ لینڈ لائن فون بھی چند گھروں میں ہوتے تھے۔ جن گھروں میں ٹیلیفون ہوتے تھے، وہ گھر والے محلے میں خوش قسمت سمجھے جاتے تھے۔ اس حد تک تھا کہ دادا یا باپ نے ٹیلیفون کیلئے اپلائی کیا تو پوتے یا بیٹے کی زندگی میں گھر میں ٹیلیفون لگ پایا۔ سرکاری دفاتر یا ہسپتالوں میں ٹیلیفون ایکسچینج ہوتے تھے۔ اور جن کمروں میں ایکسٹنشن ہوتا تھا اس پہ پہلے آپریٹر کا نمبر ڈائل کیا جاتا تھا اور پھر ایکسچینج میں بیٹھا آپریٹر مختلف رنگوں کی تاروں کو نکال کر کبھی کسی خانے اور کبھی کسی خانے میں فٹ کرکے مطلوبہ نمبر ملاتا تھا۔ الطاف بھائی کے کمرے میں بھی ایکسٹینشن لائن تھی۔ اس پہ کوئی بات نہیں کرتا تھا اور وہ استعمال نہیں ہوتی تھی۔ الطاف بھائی زبانی یا لکھ کر ہدایت جاری کردیا کرتے تھے یا کوئی بھی ذمہ دار ہسپتال آکر الطاف بھائی کو بریف کرکے ان سے زبانی یا تحریری ہدایت لے لیا کرتا تھا۔

ایک دن الطاف بھائی کو تین افراد سے فون پر فوری اور انتہائی اہم بات کرنی تھی۔ ہسپتال سے جا بھی نہیں سکتے اور اتنے جلدی ان تین افراد کو بلا بھی نہیں سکتے۔ فون کی سہولت آپریٹر کے ذریعہ ایکسٹینشن پر موجود تو تھی مگر اس میں آپریٹر گفتگو سن سکتا تھا۔ مجھے بلایا گیا تو میں نے کہا کہ پیر صاحب آپ مطمئن رہیں، آپ کی گفتگو کوئی نہیں سنے گا۔ الطاف بھائی نے پوچھا کیسے؟ میں نے کہا پیر صاحب، اتنا عرصہ کالج میں گزارا اور ہاسٹل میں رہتا ہوں، تھوڑی بہت سلام دعا ہے۔ میں ایکسچینج خود چلاجاؤں گا اور آپ یقین رکھیں کہ وہاں میرے اور آپریٹر کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہوگا۔ الطاف بھائی نے پھر پوچھا میاں میں یقین رکھوں؟ میں نے کہا پیر صاحب آپ مکمل یقین رکھیں۔ مرکزی کابینہ کے ایک رکن نے مجھے پرچے پر تین نمبر لکھ کر دیئے اور کہا کہ ان نمبروں پر ایک ایک کرکے ملادیجئے گا۔ میں وہاں سے اٹھ کر پہلے کینٹین گیا اور وہاں چائے کا آرڈر اور گولڈلیف کا پیکٹ خریدنے کے بعد، ٹیلیفون ایکسچینج چلاگیا۔ سینئیر آپریٹر جن سے سلام دعا تھی، ان سے کہا کہ آپ باقی آپریٹرز کو کچھ دیر کیلئے باہر بھیج دیں۔ انہوں نے پوچھا کرنا کیا ہے؟ میں نے ان کے کان میں کہا کچھ نمبرز ملانے ہیں۔ انہوں نے سرگوشی میں کہا الطاف بھائی کے ایکسٹینشن پر؟ میں نے اثبات میں سرہلادیا۔ انہوں نے سیدھے بیٹھ کر دونوں جونئیرز کو کہا آپ لوگ تھوڑی دیر کیلئے باہر چلے جائیں جب میں بلاؤں تب آیئے گا۔ اتنی دیر میں کینٹین سے چائے آگئی۔ ہم چاروں نے چار کپ میں چائے نکالی۔ ان دونوں کو میں نے گولڈلیف کا پیکٹ دیا اور کہا جب ہم بلائیں، آپ تب آیئے گا۔ انہوں نے کہا ندیم بھائی ہم سمجھ گئے، ہم دروازے کے باہر ہی کیاری کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور کسی کو اندر بھی نہیں آنے دیں گے۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور پھر  گولڈلیف کا اپنا پیکٹ اور ماچس نکال کر سامنے رکھ کر سینئیر آپریٹر کو آفر کی اور انہیں پرچی تھماکر کہا چلیں بسم اللّہ کریں اور آپ کوئی گفتگو نہیں سنیں گے۔ انہوں نے چائے کی چسکی لےکر اور سگریٹ سلگاکر کش لیا اور کہا ندیم مجھ پر تم اتنا تو اعتماد کرو۔ میں نے کہا وہ ہے، مگر کہہ دینا مناسب ہوتا ہے تاکہ ابہام نہ رہے۔ انہوں نے مسکرا کر ایک ایک کرکے تینوں نمبرز ملائے اور الطاف بھائی نے ان متعلقہ افراد سے بات کرلی۔ سینیئر آپریٹر ہر نمبر ملانے کے بعد مجھ سے گفتگو کرنے لگتے تھے تاکہ مجھے اطمینان رہے کہ وہ گفتگو نہیں سن رہے۔ یہ کام ہونے کے بعد میں نے ان کا اور دونوں آپریٹرز کو بلاکر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے سگریٹ کا ڈبہ واپس کرنا چاہا تو میں نے لینے سے انکار کردیا اور کہا یہ میری طرف سے تحفہ سمجھ لیجئے۔ اس کے بعد میں واپس الطاف بھائی کے کمرے کی طرف چلاگیا۔ وہاں مرکزی کمیٹی کے رکن سے پوچھا کہ اوکے ہے اور کوئی کام؟ تو مجھے کہا گیا کہ اوکے ہے اور اس ضمن میں مزید کوئی کام نہیں۔ 

۔

الطاف بھائی نے تمام گارڈز ساتھیوں سے کہا چلے جاؤ:

یہ بات اس وقت کی ہے کہ جب الطاف بھائی جنوری 1988 میں تیسری گرفتاری کی رہائی کے بعد دوسری بار سول ہسپتال میں علاج کے سلسلے میں ایڈمٹ ہوئے۔ الطاف بھائی نے جیل میں رہتے ہوئے بلدیاتی انتخابات میں حق پرست پینل کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے فقیدالمثال اور تاریخی کامیابی دلوائی۔ یہ وہ دن ہے کہ جب کراچی اور حیدرآباد کے میئرز اور ڈپٹی مئیرز بلا مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔ جلوس نکل رہے ہیں۔ پہلی بار مہاجروں کو کسی ایوان میں طاقت حاصل ہوئی ہے۔ مگر یہ کامیابی فوج اور ISI کو ہضم نہیں ہورہی تھی۔ انہوں نے کراچی میں چھاپے گرفتاریاں کرکے خوف کا ماحول بنانے کی کوشش کی۔ کوئی جیت کے جشن کے جلوس نکال رہا ہے تو فوج انہیں فیملیز سمیت روک کر ہتک آمیز سلوک کررہی تھی۔ رات گیارہ بجے سے لے کر صبح پانچ بجے تک بلاجواز کرفیو لگادیا گیا تھا۔ فوج اور ISI نے ایک لسانی تنظیم PPI بناکر اس کے ذریعہ شہر میں مہاجر آبادیوں پر حملوں اور دہشتگردی مچائی ہوئی تھی۔ جنرل ضیاء کے وفاقی وزیرِ داخلہ نسیم احمد آہیر نے PPI کے حق میں اور MQM کی مخالفت میں بیانات اور دھمکیاں دینی شروع کردی تھیں۔ شہر کے ایسے ماحول میں الطاف بھائی سول ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتے ہیں۔

جس دن الطاف بھائی ایڈمٹ ہوتے ہیں تو وہ دوسرا کمرہ تھا۔ پچھلی دفعہ والے سے چار گنا بڑا اور سیکنڈ فلور پر۔ اگلے دن رات گئے الطاف بھائی نے گارڈ ساتھیوں سمیت سب کو بلاکر کہا تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ ہم سب نے گھبراکر کہا کیوں پیر صاحب؟ الطاف بھائی کہنے لگے “ میں فوجی بوٹوں کی دھمک سن رہا ہوں۔ اور ان کا ارادہ یہ ہے کہ یہ مجھے پھر بلاجواز گرفتار کرلیں۔ یہ جب آئیں گے تو تم سب کو بھی اٹھاکر لے جائیں گے۔ مجھے تو تشدد کرنے کے بعد شاید زندہ چھوڑدیں مگر تم لوگوں کو یہ جان سے ماردیں گے۔ ہم تمام ساتھیوں نے کہا کہ پیر صاحب ہم کہیں نہیں جارہے، ہم یہیں رہیں گے آپ کے ساتھ۔ الطاف بھائی نے پدرانہ مگر سخت لہجے میں کہا یہ میرا حکم ہے تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ بس مجھے face کرنے دو۔”

اب تو ہمارے ہاتھ پیر پھول گئے۔ میں نے کہا پیر صاحب کچھ کرتے ہیں۔ میں اور ڈاؤ کے ایک ساتھی اور تھے۔ ہم نے کہا پیر صاحب ہم رک جاتے ہیں۔ الطاف بھائی نے کہا بیٹا وہ تمہیں ماردیں گے تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا؟ انہوں نے پھر کہا جاؤ تم لوگ۔ میں نے کہا اچھا پیر صاحب دس منٹ دے دیں، ہم کچھ کرتے ہیں۔ ڈاؤ کے دوسرے ساتھی کو الطاف بھائی کے پاس چھوڑ کر، ہم نے باہر آکر آپس میں مشورہ کیا۔ تمام گارڈ ساتھی بھی فکرمند تھے۔ کہنے لگے ندیم بھائی اب کیا کریں؟ حکم عدولی کیسے کریں؟ میں نے کہا پیر صاحب نے کمرے سے جانے کا کہا ہے ناں؟ انہوں نے کہا ہاں صاف تو کہا ہے، کیا آپ نے نہیں سنا؟ میں نے کہا کمرے سے جانے کا کہا ہے ہسپتال سے تو نہیں۔ کہنے لگے کیا مطلب؟ میں نے کہا مجھے پانچ منٹ دیں میں ابھی آتا ہوں۔ میں پرائیویٹ رومز کے RMO کے دفتر میں گیا، اتفاق سے وہ دفتر میں موجود تھے۔ ان سے کہا سر ایک پرائیویٹ روم چاہیئے۔ انہوں نے کہا ندیم کس کیلئے چاہیئے؟ میں نے کہا مجھے اپنے لئے چاہیئے۔ انہوں نے مجھے چابی دی اور کمرے کا نمبر بتایا۔ میں نے پوچھا یہ کس طرف کھلتا ہے؟ کہنے لگے ہاسٹل کی طرف۔ میں اوکے گڈ کہہ کر جانے لگا تو انہوں نے کہا پیسے؟ میں نے کہا اس وقت جیب میں نہیں ہیں، کل لے لیجئے گا۔ انہوں نے کہا اوکے، تم کیا دوگے اسٹوڈنٹ ہوکر، میں خود ہی ادا کردوں گا۔ پھر مسکرا کر کہا تم جاؤ، پہلی دفعہ تو تم نے مجھے کوئی کام دیا ہے۔

میں چابی لے کر بھاگم بھاگ اوپر سیکنڈ فلور پر گارڈ ساتھیوں کے پاس گیا اور انہیں کہا میرے ساتھ نیچے فرسٹ فلور پر چلیں۔ میں نے اس کمرے کا تالا کھولا اور سب گارڈ ساتھیوں کو اندر بلایا اور ان سے کہا کہ الماری میں مزید چادریں اور تکیئے ہیں آپ انہیں نکال لیجئے۔ اس کے بعد میں نے ان سے کہا کہ ادھر آیئے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں کمرے کا تالا باہر سے لگاکر جاؤں گا تاکہ کسی کو بھی یہ گمان نہ ہو کہ اس کمرے میں کوئی ہے۔ پیر صاحب کے حکم کی تعمیل بھی ہوگی اور حکم عدولی بھی نہیں کہ انہوں نے اپنے کمرے سے ہٹنے کا کہا ہے آپ ساتھیوں کو۔ باقی میں اور ڈاؤ کے دوسرے ساتھی جو اس وقت پیر صاحب کے ساتھ ہیں، وہ پیر صاحب کے ساتھ کمرے میں ہونگے اور ہم کہیں نہیں جائیں گے۔ آج کی رات گزرنے کے بعد میں علی الصبح آکر دروازہ کھول دوں گا۔ پھر میں نے انہیں کھڑکی کھول کر دکھائی۔ یہ کمرہ فرسٹ فلور پر تھا۔ میں نے انہیں دکھایا کہ نیچے کچھ آفسز کی چھت ہے۔ یہ سامنے ہاسٹل ہے۔ اگر فوج آج رات آتی ہے اور اس کمرے کو توڑ کر گھسے تو آپ یہاں سے نیچے کود جایئے گا اور سامنے ہاسٹل کا دروازہ ہے۔ پھر میں نے اپنی جیب سے ہاسٹل میں اپنے کمرے کی چابی نکالی اور انچارج کو دے کر کہا میرا کمرہ بالکل سامنے گراؤنڈ فلور پر ہے اور کمرے کا یہ نمبر ہے۔ آپ لوگ وہاں نکل جایئے گا۔ فوج یا پولیس ہاسٹل میں داخل نہیں ہوگی کیونکہ فوج کے لے پالک جماعتیئے اور سرخے انہیں وقتی طور پر ایسا کرنے نہیں دیں گے۔ اگر گھسے گی تو بھیڑ میں آپ کو نکلنے کا موقع مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اوکے سمجھ گئے۔ اس کے بعد میں نے انہیں کہا کہ میں کچھ کھانے پینے کو لادوں؟ انہوں نے کہا نہیں ہمارے پاس تھوڑا بہت ہے، ہم رات گزارا کرلیں گے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے میں انشاء اللّہ صبح آکر آپ کا دروازہ کھول دوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ میں نے ساتھیوں کو خداحافظ کہا اور دروازے کو باہر سے تالا لگانے کے بعد اوپر الطاف بھائی کے کمرے میں پہنچا۔ وہاں قائدِ محترم کے ساتھ ڈاؤ کے وہ ساتھی موجود تھے جنہیں میں کمرے میں بٹھاکر آیا تھا۔ الطاف بھائی بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور انہیں ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ کہنے لگے آگئے تم؟ میں نے کہا جی پیر صاحب۔ ساتھیوں کو ہٹادیا؟  میں نے کہا جی پیر صاحب میں نے ساتھیوں کو آپ کے کمرے سے ہٹادیا ہے۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کچھ نہیں کہا۔ پھر کہنے لگے اب تم دونوں بھی چلے جاؤ۔ اب ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا جواب دیں۔ انہوں نے پھر کہا دیکھو، یہ فوجی تمہیں اٹھاکر، ٹارچر کرکے مارکر پھینک دیں گے۔ ہم نے کہا پیر صاحب ہمارے پاس stethoscopeاور کالج کے اور clinical cards ہیں۔ ہم کہہ دیں گے کہ ہم یہاں clinical کررہے ہیں۔ الطاف بھائی نے پوچھا تو وہ تمہاری بات مان لیں گے؟ میں نے کہا پیر صاحب وہ مانیں نہ مانیں آپ ہماری گزارش مان لیں کہ پلیز آپ ہمیں جانے کا نہ کہیں، ہم جو ہوگا اس کا سامنا کرلیں گے۔ انہوں نے ایک لمحہ سوچا اور پھر کہا چلو ٹھیک ہے۔ ہم نے سکون کا سانس لیا اور دروازے کو اندر سے لاک کرکے کونے پر رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ پھر ہم دونوں ساتھیوں نے ایک دوسرے کو اشارے سے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کرسی پر کمر ٹکاکر  بیٹھ گئے کہ ہمیں الطاف بھائی کی صحت و سلامتی کی فکر تھی کہ الطاف بھائی پر مزید کسی بھی قسم کا جسمانی یا ذہنی ٹارچر یا گرفتاری، ان کی صحت کیلئے کسی بھی طور پہ مناسب نہیں تھا۔ الطاف بھائی غنودگی میں چلے گئے۔

۔

پاک کالونی کے ساتھی کو نائن زیرو سے ہٹادو:

الطاف بھائی کے ساتھ سول ہسپتال میں گزارے ہوئے رات دن میں، باوجود اس کے کہ الطاف بھائی زیرِ علاج ہیں، میں نے انہیں کئی کئی دن جاگتے دیکھا ہے اور کبھی سوئے بھی تو بہت سے بہت دو یا تین گھنٹہ کیلئے۔ اس رات کو سول ہسپتال کے اس کمرے میں قائدِ محترم تھے، ڈاؤ یونٹ کے ہم دو کارکن تھے اور کوئی بھی نہیں تھا۔ الطاف بھائی کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ غنودگی میں بہت بےچین تھے۔ پھر وہ اچانک بستر سے اٹھ گئے اور ڈرپ اسٹینڈ کو پکڑ کر چلتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ ہم اک دم کھڑے ہوگئے، پوچھا پیر صاحب خیریت، آپ سوئے نہیں؟ پوچھنے لگے کیا وقت ہوا ہے؟ انہیں بتایا کہ رات کے دو بج رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ نائن زیرو پر پاک کالونی کے ایک ساتھی ہیں وہ وہاں تنظیمی ڈیوٹی دیتے ہیں۔ انہیں وہاں سے ہٹادو، فون پر نہیں کہنا بلکہ جاکر کہو۔ میں نے کہا پیر صاحب میں ابھی چلاجاتا ہوں۔ کہنے لگے نہیں ابھی اندھیرا ہے اور کرفیو کا بھی معاملہ ہے۔ میں نے کہا پیر صاحب میں گلے میں stethoscope ڈال کر اپنی موٹرسائیکل پر چلاجاتا ہوں، مجھے روکیں گے نہیں۔ کہنے لگے نہیں، ابھی اندھیرا ہے، جب فجر کا وقت شروع ہوگا اور کرفیو ختم ہو تب چلے جانا، مگر اسے وہاں سے ہٹادو، ورنہ اسے لے گئے تو مجھے اس کی فکر ہے کہ خدانخواستہ اس کے ساتھ یہ فوج برا سلوک کرے گی۔ میں نے کہا بہتر ہے پیر صاحب جیسا آپ کا حکم۔ الطاف بھائی اور ہم اس پورے وقت جاگتے رہے۔ دو باتیں ذہن میں آرہی تھیں کہ فوج نے آنا ہوگا تو انہی اگلے تین گھنٹوں میں آئے گی۔ یہ وقت اللّہ خیریت سے نکال دے تو کرفیو کا بھی وقت ختم ہوجائے گا اور فجر کا وقت شروع ہوجائے گا۔ اللّہ اللّہ کرکے وہ تین گھنٹے کسی طرح گزر گئے۔ پانچ بجے میں الطاف بھائی کے بستر پر گیا اور انہیں آہستہ سے آواز دی پیر صاحب۔ وہ اٹھے ہوئے تھے، کہنے لگے ہاں بولو۔ میں نے پوچھا پیرصاحب صبح کے پانچ بج گئے ہیں، جس کام کا آپ نے کہا ہے اس کیلئے نائن زیرو جاؤں؟ انہوں نے کہا ابھی تھوڑی دیر اور رک جاؤ تھوڑی اور روشنی ہوجائے۔ میں نے پندرہ منٹ بعد پھر پوچھا پیر صاحب اب جاؤں؟ انہوں نے کہا ہاں جاؤ اور یقینی بنانا کہ وہ نائن زیرو سے چلاجائے۔ میں جو حکم آپ کا پیر صاحب کہہ کر ہسپتال سے نکل گیا۔ اپنی موٹرسائیکل ہاسٹل سے نکالی اور نائن زیرو کی جانب دوڑادی۔ اب سوچ لیجئے کہ پیر صاحب کی فکرمندی ذہن میں تھی اور یہ بھی ذہن میں تھا کہ جلدی واپس آنا ہے تاکہ گارڈ ساتھیوں کے کمرے کے تالے کو کھول کر انہیں باہر نکال کر ناشتہ کرایا جاسکے۔ میں نائن زیرو پہنچا تو جن ساتھی کے متعلق الطاف بھائی نے کہا تھا ان سے علیحدگی میں مل کر انہیں قائدِ محترم کا پیغام دیا۔ انہوں نے کہا بہتر ہے میں تھوڑی دیر میں نکل جاتا ہوں۔ میں نے کہا بھیا آپ ابھی اور میرے سامنے نکلیں تاکہ میں ہسپتال جاکر پیرصاحب کو کہہ سکوں کہ آپ چلے گئے اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ انہوں نے اوکے کہا اور موٹرسائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے۔ میں موٹرسائیکل اڑاتا ہوا سول ہسپتال کی طرف روانہ ہوا۔ بائیک ہاسٹل کے بجائے ہسپتال کے باہر ہی کھڑی کی اور بھاگتا ہوا الطاف بھائی کی روم کی طرف گیا۔ الطاف بھائی جاگ رہے تھے اور منتظر تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ہاں میاں کیا ہوا؟ میں نے کہا جی پیر صاحب انہیں آپ کا پیغام دے دیا اور وہ نائن زیرو سے چلے گئے ہیں۔ الطاف بھائی نے پوچھا پکی بات ہے؟ میں نے کہا جی پیر صاحب میں نے اپنے سامنے انہیں بائک پر بٹھاکر روانہ کیا ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا تم نے اسے جاتے دیکھا؟ میں نے کہا جی پیر صاحب اپنی آنکھوں سے انہیں جاتے دیکھا۔ انہوں نے اوکے کہا۔ ڈرپ انہیں لگی ہوئی تھی اور پھر وہ تھوڑی دیر کیلئے سوگئے۔ میں نے ساتھی کو اشارے سے کہا میں نیچے سے آتا ہوں اور خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔ میں نیچے کمرے میں گیا اور گارڈ ساتھیوں کے کمرے کا تالا کھولا اور اندر گیا تو وہ سب جیسے منتظر تھے۔ انہوں نے پیر صاحب کی خیریت دریافت کی۔ میں نے انہیں کہا کہ الحمد للّہ وہ خیریت سے ہیں اور رات بھی خیریت سے گزرگئی۔ اب آپ ساتھی ناشتہ کرلیں، مگر یہاں نہیں اوپر دوسرے کمرے میں کرتے ہیں کیونکہ یہ کمرہ ابھی کسی کو نہیں دکھانا۔ پھر ہم پیرصاحب کے کمرے کی طرف ڈیوٹی کریں گے اور پھر پیرصاحب جیسا کہیں گے ویسا ہی کریں گے۔ الطاف بھائی سول ہسپتال میں جتنے دن رہے، اس کے بعد گارڈ ساتھیوں کو انہوں نے جانے کا نہیں کہا، مگر احتیاطاً دوسرے کمرے کی چابی میں نے RMO صاحب کو اس وقت تک واپس نہیں کی جب تک الطاف بھائی ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر نائن زیرو نہیں چلے گئے۔ 

۔

الطاف بھائی نے اپنی زیراستعمال گاڑی مجھے کیوں دی:

الطاف بھائی کا سول ہسپتال میں علاج جاری تھا اور میں کئی دن سے گھر نہیں گیا تھا اور سارے کپڑے لانڈری کا تقاضہ کررہے تھے۔ ایک دن علی الصبح الطاف بھائی نے پوچھا تم کئی دن سے گھر نہیں گئے؟ میں نے کہا جی پیر صاحب۔ کہنے لگے جاؤ ہوکر آجاؤ۔ اب پرابلم یہ ہوگئی تھی کہ میری بائک ایک گارڈ ساتھی لےکر چلے گئے تھے۔ مگر میں نے کہا بہتر ہے پیرصاحب۔ تھوڑی دیر گزر گئی الطاف بھائی نے معلوم کروایا کہ کیا ہوا ندیم گیا کہ نہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ وہ نہیں گئے اور وجہ بھی بتادی گئی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور گارڈ ساتھیوں سے کہا کہ اسے میری والی گاڑی کی چابی دے دو۔ میری تو حالت بری ہوگئی۔ انچارج نے گاڑی کی چابی لاکر دے دی۔ الطاف بھائی کہنے لگے جاؤ گھر ہوکر آجاؤ۔ میں دھڑکتے دل کے ساتھ بہتر پیرصاحب کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔ باہر آکر میں نے ہاسٹل سے اپنے کپڑے بیگ میں ڈال کر اٹھائے۔ مجھے ٹینشن کپڑوں یا گھر جانے کی نہیں تھی بلکہ اس بات کی تھی کہ الطاف بھائی کی زیراستعمال گاڑی میں چلا رہا تھا اور میرے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔ گاڑی مجھے اکیلے چلانے دینا، مجھ پر اعتماد کا اظہار بھی تھا مگر سیکورٹی کے نکتۂ نگاہ سے مجھ پر بہت بھاری ذمہ داری بھی۔ میں گاڑی چلاتا ہوا گھر پہنچا اور گاڑی پارک کرکے اپنے مرحوم والدین سے درخواست کی کہ وہ باہر چبوترے پر بیٹھ کر گاڑی پر نظر رکھیں، میں بس شاور اور کپڑے لےکر دس منٹ میں آتا ہوں۔ انہوں نے پوچھا بیٹا کس کی گاڑی ہے؟ میں نے کہا الطاف بھائی کی۔ یہ سن کر میرے مرحوم والدین الطاف بھائی کی گاڑی کی حفاظت کیلئے اس وقت تک چبوترے پر بیٹھے رہے جب تک میں باہر نہیں آگیا۔ میں شاور اور دھلے کپڑے لے کر واپس سول ہسپتال روانہ ہوا۔ ہاسٹل جانے کے بجائے سیدھا الطاف بھائی کے کمرے کی طرف گیا اور جب گاڑی کی چابی میں نے انچارج کے حوالے کی تو میری جان میں جان آئی۔ قائدِ محترم کو آگاہ کردیا گیا کہ ندیم بھائی گاڑی لے کر واپس آگئے ہیں۔ پھر میں کپڑوں کا بیگ ہاسٹل میں اپنے کمرے میں رکھ کر ڈیوٹی پر آگیا۔ 

قارئینِ کرام،

میں نے سول ہسپتال میں بیتی کچھ تحریکی یادوں کو قلمبند کیا ہے۔ ان میں کچھ واقعات کو میں نے مکمل بیان کرنے سے احتراز کیا ہے کہ وہ تحریکی امانت کے زمرے میں آتے ہیں اور کچھ نام میں نے بوجوہ حذف کردیئے ہیں۔ الطاف بھائی جنوری 1988 کے بعد سول ہسپتال نہیں آئے کیونکہ 1988 میں ایم کیوایم کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کے بعد، الطاف بھائی اپنے علاج کے سلسلے میں عباسی شہید ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے اور ایک بار 1990 میں اسی علاج کے سلسلے میں لندن بھی گئے تھے۔

قارئینِ کرام،

یہ تحریر لکھنے کا مقصد ان یادوں کو تازہ کرنا تھا اور یہ بتانا مقصود تھا کہ ہمارے قائد نے قوم اور تحریک کیلئے کتنی تکالیف اٹھائی ہیں اور وہ اپنے ہر کارکن کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ بلاشبہ بانی و قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی اس صدی کے عظیم رہنما ہیں۔ آج 11 جون 2024 اور منگل کا دن ہے۔ آج تجدیدِ عہدِ وفا کا دن ہے۔ میں آج کے دن اپنے عہد کی تجدید کرتا ہوں کہ میں اپنی آخری سانس تک صرف الطاف بھائی کا وفادار رہوں گا۔


میری ہر تجدید صرف تجھ سے وابستہ ہے

تیری نظر اور  قدم میری منزل کا رستہ ہے


میں دعاگو ہوں کہ اللّہ ربِّ العزت الطاف بھائی کو صحت تندرستی کے ساتھ طویل زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔ اللّہ تعالیٰ الطاف بھائی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ اللّہ عزوجل الطاف بھائی کو حاسدوں کے حسد اور شرپسندوں کے شر سے بچائے۔ آمین۔ خالقِ کائنات الطاف بھائی کی بنائی ہوئی اور بتائی ہوئی منزل تک ان کی رہبری میں ہمیں جلد پہنچائے۔ آمین۔ مالکِ کائنات تحریک کے تمام شہداء کے درجات کو بلند فرمائے، اسیروں کو جلد رہائی نصیب فرمائے اور لاپتہ ساتھیوں کی بحفاظت جلد بازیابی فرمائے۔ آمین۔ اور ہمارا رب ہم تمام وفاپرستوں کو صرف بانی و قائد الطاف حسین بھائی کا ہمیشہ وفادار رکھے۔ آمین۔

بانی و قائدِ تحریک الطاف حسین بھائی اور تمام وفاپرستوں کو ایک بار پھر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے

اے پی ایم ایس او  کا 46 واں یومِ تاسیس مبارک ہو۔

جئے الطاف حسین بھائی

سدا جئے

آمین

والسل



6/28/2024 8:36:43 AM