Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کوحکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب


پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کوحکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی  ٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب
 Posted on: 4/6/2024 1
پاکستان کے منتخب وزرائے اعظم کوحکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی 
ٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب 
6، اپریل2024ئ
قیام پاکستان کے بعد سے ہی ملک میں جمہوریت کے فروغ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا تھااور قیام پاکستان کے دن سے لیکر آج کے دن تک پاکستان میں کسی بھی منتخب وزیراعظم کو اپنی حکومت کی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ۔
14، اگست 1947ء کو پاکستان آزاد توہوگیا لیکن ہم  انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے گورے انگریزوں کے کالے غلاموں کی غلامی میں چلے گئے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  ایک سچے اورکھرے انسان تھے ، ان کے فرشتوںکو بھی علم نہیں تھا کہ انہیں 14، اگست 1947ء کوآزادی کی جوچابی دی جائے گی اور جب وہ اُس چابی سے آزادی کا تالا کھولیں گے تو انہیں معلوم ہوگا کہ وہ آزاد وطن میں نہیں بلکہ سلطنت ِغلامانِ انگریز میں داخل ہوجائیں گے ۔ 
برصغیرپاک وہند میں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد 1947ء میں پاکستان کو آزادی ملی لیکن محض چاربرسوں میں ہی ملک میں جمہوریت کادھڑن تختہ کردیا گیا۔میں آپ کو پاکستان کے تاریخی حقائق ایک الگ زوایہء نگاہ سے دکھانے کی کوشش کررہا ہوں تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کیاکھیل کھیلاجاتارہا ہے ۔
قائداعظم آزادی کے ایک سال تک ہی زندہ رہے ، ان کی موت بظاہر طبعی تھی لیکن اصل میں انہیں سلوپوائزن دیکر قتل کیاگیا تھا ، قائداعظم کے دست ِ راست خان لیاقت علی خان جوپاکستان کے پہلے وزیراعظم بنے اوران کی حکومت کا دور 14 ،اگست1947 سے شروع ہوا لیکن انہیں پانچ سال پورے نہیں کرنے دیئے گئے اور 16 اکتوبر1951ء کو انہیں کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) راولپنڈی میں بھرے جلسے میں گولی مار کرقتل کردیاگیا ۔ 
1948ء میں قائد اعظم اس دنیا سے چلے گئے اور 1951ء میں خان لیاقت علی خان چلے گئے، انکی حکومت محض چار سال رہی اور ان کے بعدآنے والے وزرائے اعظم اورآمروں کی حکومتوں کی مدت کادورانیہ ملاحظہ کیجئے۔

خان لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین 17، اکتوبر1951ء کو وزیراعظم بنے اورانکی حکومت17، اپریل1953ء تک یعنی تقریباً تین سال تک رہی ، اس کے بعد محمدعلی بوگرہ 17، اپریل1953ء کو وزیراعظم بنے اور12، اگست1955ء تک یعنی دوسال تک ان کی حکومت رہی ، پھرچوہدری محمد علی 12اگست1955ء کو وزیراعظم کے منصب پرفائز ہوئے اوروہ 12 ستمبر1956ء تک یعنی صرف ایک سال تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے ،اس کے بعدحسین شہید سہروردی کی مدت حکومت 12، ستمبر 1956ء سے 17،اکتوبر1957ء یعنی ایک سال تک رہی ، 17، اکتوبر1957ء کو ابراہیم اسمٰعیل چندریگر (آئی آئی چندریگر) وزیراعظم بنے مگروہ بھی 16، دسمبر1957 ء یعنی دوماہ میں ہی وزارت عظمیٰ سے محروم کردیئے گئے ، اس کے بعد ملک فیرزوخان نون 16، دسمبر1957ء سے 7، اکتوبر1958ء یعنی ایک سال تک ہی وزیراعظم رہے ،اسکندر مرزا 1956ء سے 1958ء تک ملک کا صدر رہا اور اس نے حکومتوں کوبرطرف کیا۔اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا۔ پھرجنرل ایوب خان کا دورحکومت 24 اکتوبر1958ء سے1969ء تک یعنی 11 سال تک رہا، وہ پاکستان کے صدر رہے ۔اس کے بعد نورالامین آئے جو7، دسمبر1971ء سے 20، دسمبر1971ء تک یعنی صرف 13دن کیلئے پاکستان کے وزیراعظم بنے ۔ اس دوران پاکستان دولخت ہوگیا اور پھر ذوالفقارعلی بھٹو1971ء سے 1977ء تک صدرپاکستان، کمانڈرانچیف اورپہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربنے ۔ 5، جولائی 1977ء کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت ختم کرکے مارشل لاء نافذ کردیا اور وہ17، اگست1988ء تک پاکستان کے صدر، کمانڈرانچیف اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر رہے۔ یعنی جنرل ضیاء الحق کا دورحکومت 11 برسوں پر محیط تھا۔1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے غیرجماعتی انتخابات کرائے اور محمدخان جونیجو24، مارچ1985ء کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، ان کی حکومت29، مئی1988ء کو یعنی تین سال بعد برطرف کردی گئی۔اس کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2دسمبر1988ء کو وزیراعظم بنیں اور6، اگست1990ء کو ان کی حکومت برطرف کردی گئی ۔ اس کے بعد غلام مصطفی جتوئی 6 اگست1990ء سے 6، نومبر1990ء تک نگراں وزیراعظم رہے۔ 6، نومبر1990ء کو میاں 
نوازشریف پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے ۔اس وقت کے صدرغلام اسحاق خان نے 18، اپریل1993ء کو نواز شریف کی 1993ء کو نوازشریف کی حکومت برطرف کرکے بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم مقررکردیا ۔ بلخ شیر مزاری 18، اپریل 1993ء سے 26، مئی 1993ء تک پاکستان کے نگراں وزیراعظم رہے اور26، مئی 1993ء کوسپریم کورٹ نے نوازشریف کی حکومت بحال کردی ، نوازشریف 18، جولائی 1993ء تک ملک کے وزیراعظم رہے ۔ 18، جولائی1993ء کو نوازشریف اور صدرغلام اسحاق خان نے فوج کے دباؤ پر استعفیٰ دیدیا ۔18، جولائی 1993ء سے19، اکتوبر1993ء تک معین قریشی ، پاکستان کے نگراں وزیراعظم بنے ۔ اس کے بعد 19، اکتوبر1993ء کو محترمہ بے نظیر بھٹودوبارہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہوئیں اوران کی حکومت بھی محض تین سال برقراررہ سکی اور وہ 5، نومبر1996ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں ۔محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت کی برطرفی کے بعد 5،نومبر1996ء سے 17فروری 1997ء تک ملک معراج محمد خالد ، پاکستان کے نگراں وزیراعظم رہے ۔ الیکشن کے بعد میاں محمد نواز شریف 17، فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے وہ بھی محض دوسال تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائزرہے ۔ اس کے بعد جنرل پرویز مشرف کادوراقتدارآیا۔ وہ 12، اکتوبر1999ء سے 2007ء تک آرمی چیف رہے اور2008ء تک صدارت کے منصب پرفائز رہے ۔ اس دوران21، نومبر2002ء سے 26، جون2004ء تک ظفراللہ خان جمالی ملک کے وزیراعظم رہے ۔ ان کے بعد 30، جون 2004ء کو چوہدری شجاعت حسین ،پاکستان کے وزیراعظم مقرر ہوئے ۔وہ اگست 2004ء تک وزیراعظم رہے ۔ ان کے بعد شوکت عزیز 20،اگست2004ء سے 16، نومبر 2007ء تک وزیراعظم رہے ۔ میاں محمد سومرو16، نومبر2008ء سے 25، مارچ2008ء تک نگراں وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے ۔ 
2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی 25، مارچ2008ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے اور وہ 19، جون 2012ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے ، انہیں سپریم کورٹ نے نااہل قراردیدیا تھا۔ ان کے بعد راجہ پرویز اشرف 22، جون 2012ء کو وزیراعظم پاکستان بنے اوروہ25مارچ 2012ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے ۔ 25، مارچ 2013ء سے 5، جون2013ء تک میرہزارخان کھوسو پاکستان کے نگران وزیراعظم بنے ۔اس کے بعدعام انتخابات کے نتیجے میں 5جون 2013ء کو میاں نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ، 2017ء میں عدالت سے ان کی نااہلی کی سزا کے بعد شاہد خاقان عباسی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے اور2018ء تک ملک کے وزیراعظم رہے۔ 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بنے اوراپریل 2022ء تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہوگئی اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم مقرر ہوئے ۔ 8، فروری 2024ء کو الیکشن ہوئے اور اس دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی اور  میاں شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں ۔ 
منتخب وزیراعظم اور آمریت کے دوراقتدار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کوپھلنے پھولنے نہیں دیاگیا۔

پاکستان کی موجودہ صورتحال:
1971ء میں پاکستان دولخت ہوگیا، بلوچستان میں کئی دہائیوں سے مزاحمت کاسلسلہ آج کے دن تک جاری ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی فوج نے افغانستان میں افغانیوں کا قتل عام کیا، قبائلی علاقوں میں آج تک فوجی آمریت مسلط ہے ، افغان جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں پشتونوں پر بہت ظلم کیاگیا، ڈرون حملوں میں افغان بزرگوں ، خواتین ، بچوں اور نوجوانوں کا قتل عام کیاگیا ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جب ڈرون حملوں کی اجازت دینے سے انکارکیاتو ان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔ بانی پی ٹی آئی کے خلاف سائفر کیس بنائے گئے ، ان کی نجی زندگی کے حوالے سے بیہودہ باتیں کی گئیں اور کیس بنائے گئے، اسٹیبلشمنٹ نے تمام ترریاستی ہتھکنڈے استعمال کرکے عمران خان پر عرصہ ء حیات تنگ کردیاگیا ، ان کے تمام راستے مسدود کردیے لیکن اسٹیبلشمنٹ، عمران خان کو اصولی مؤقف سے بازرکھنے میں ناکام رہی۔ حالات کے جبرنے عمران خان کے ذہن کے ان خلیات کو بھی کھولا اور انہوںنے حقائق کا مشاہدہ کرنے کے بعدتمام حقائق کھل کربیان کرناشروع کردیے ۔ عمران خان 11ماہ سے جیل میں قید ہیں ، PTI کی قیادت جیل میں قید ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی لیڈر خود کوعمران خان کا وفادار بھی قراردے اور وہ جیل سے باہر بھی بیٹھے ہوں ،انہیں ٹیلی ویژن پر آنے اورپارٹی مؤقف بیان کرنے کی بھی اجازت ہو۔اب تو ہرطرف سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ  پی ٹی آئی کے جو رہنما جیل سے باہر ہیں اور ٹیلی ویژن پر آتے ہیں دراصل انہوںنے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرلیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی جانب سے اب تک ریاستی مظالم کے خلاف عملی اقدامات نہیں کیے گئے ۔ اگر جیل سے باہر رہنے والے پی ٹی آئی کے لیڈران واقعتا عمران خان کے وفادار ہوتے تو وہ میدان عمل میں آکر قربانیاں دیتے اور فیصلہ کن قدم اٹھاتے ۔ مجھے یہ خدشہ لاحق ہے کہ کہیں پی ٹی آئی کے یہ کمپرومائزڈ رہنما ،اصولوں پر ڈٹ جانے والے عمران خان کو بلیک میل کرکے ایسا کوئی سمجھوتہ نہ کرادیں جس سے پاکستان میں جمہوریت اورجمہوری اداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے، اگرایسا ہوا تو پھر پاکستان کی سلامتی وبقاء کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ 
آپ کا اپنا
الطاف حسین


12/21/2024 11:57:15 PM