ملک اور معاشرے کے ہر مرض کا علاج علم کے حصول میں ہے، الطاف حسین
فاتح عالم بننے کیلئے تلوار کا استعمال ضروری نہیں بلکہ علم حاصل کرکے بھی فاتح عالم بنا جاسکتا ہے
علم خدا ہے اور خدا علم ہے۔ جو لوگ خدا کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ علم حاصل کریں
انسان جتنا علم حاصل کرتا جاتا ہے اتنا ہی خد اسے نزدیک ہوتا ہے
جہاں علم ہوگا وہاں دور دور تک نفرت نہیں ہوگی بلکہ صرف اور صرف محبت ہوگی، وہاں فرقہ واریت نہیں ہوگی اور انسان مذہب اور فرقہ واریت کے نام پر انسانوں کا قتل نہیں کرے گا
بد نصیب اور قابل مذمت ہیں وہ لوگ جو لڑکیوں کو تعلیم کے حصول سے روکتے ہیں اور اسلام کے نام پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں
اگر اسلام میں عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا ممنوع ہوتا تو عورتوں پر قرآن کا پڑھنا حرام قرار دیدیا جاتا
خلوص، عبادت کا بنیادی عنصر ہے۔ عبادت خواہ تھوڑی سی ہو لیکن سچی اور خلوص نیت سے ہونی چاہئے
پاکستان کی معیشت ٹھیک کرنی ہے، کرپشن سے پاک کرنا ہے اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانا ہے تو علم حاصل کرو
اے پی ایم ایس او کے 35 ویں یوم تاسیس کے موقع پر لال قلعہ گراؤنڈ عزیز آباد میں منعقدہ اجتماع سے فون پر خطاب
الطاف حسین کا پورا خطاب ’’علم‘‘ کے موضوع پر تھا، انہوں نے قرآنی آیات، احادیث نبویؐ، مختلف حکایات، قدیم روایات اورسائنسی مثالوں کے ذریعے علم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے کہاہے کہ ملک اورمعاشرے کے ہرمرض کاعلاج علم کے حصول میں ہے،فاتح عالم بننے کیلئے تلوار کا استعمال ضروری نہیں بلکہ علم حاصل کرکے بھی فاتح عالم بناجاسکتاہے۔علم خداہے اورخداعلم ہے۔ جولوگ خداکو حاصل کرناچاہتے ہیں وہ علم حاصل کریں، انسان جتناعلم حاصل کرتاجاتاہے اتناہی خداسے نزدیک ہوتاہے ۔جہاں علم ہوگاوہاں دور دور نفرت نہیں ہوگی بلکہ صرف اورصرف محبت ہوگی،وہاں فرقہ واریت نہیں ہوگی اورانسان مذہب اورفرقہ واریت کے نام پر انسانوں کا قتل نہیں کرے گا۔بدنصیب اورقابل مذمت ہیں وہ لوگ جولڑکیوں کوتعلیم کے حصول سے روکتے ہیں اوراسلام کے نام پرلڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں،اگراسلام میں عورتوں کاتعلیم حاصل کرناممنوع ہوتاتوعورتوں پر قرآن کا پڑھنا حرام قراردیدیا جاتا۔جناب الطاف حسین نے ان فکرانگیز خیالات کااظہارآج ایم کیوایم کی طلبہ تنظیم ’’ اے پی ایم ایس او ‘‘یعنی آل پاکستان متحدہ اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن کے 35ویں یوم تاسیس کے موقع پر لال قلعہ گراؤنڈعزیزآبادمیں منعقدہ اجتماع سے فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جناب الطاف حسین کاپورا خطاب ’’ علم ‘‘ کے موضوع پر تھااورانہوں نے قرآنی آیات، احادیث نبویؐ ، مختلف حکایات ،قدیم روایات اورسائنسی مثالوں کے ذریعے علم کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی اورنئی نسل خصوصاًطلبہ وطالبات پر ذوردیاکہ وہ ملک اورمعاشرے کی تعمیروترقی کیلئے علم کے حصول پر خصوصی توجہ دیں۔
جناب الطاف حسین کا یہ خطاب کراچی کے علاوہ حیدرآباد، ٹنڈوالہیار، میرپورخاص، سکھر ، نواب شاہ ، سانگھڑ ،جنوبی پنجاب کے شہروں ملتان ، رحیم یارخان ، خانیوال اورمظفرگڑھ میں بھی براہ راست سنا گیا۔ ملک کے مختلف حصوں میں منعقدہ اجتماعات میں اے پی ایم ایس او کے ذمہ داران اورکارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی جن میں طالبات بھی بہت بڑی تعداد میں شریک تھیں۔ اس موقع پراے پی ایم ایس او کے کارکنان نے جناب الطاف حسین سے اپنی والہانہ عقیدت ومحبت کااظہار کیا اور جناب الطاف حسین کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے جس کا سلسلہ کافی دیرتک جاری رہا۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اے پی ایم ایس او کے ذمہ داران اور کارکنان کو اے پی ایم ایس او کے 35 ویں یوم تاسیس کی مبارکباد پیش کی ۔انہوں نے کہاکہ دنیا میں انسانی وجود کے آنے کے بعد سے جتنی تاریخ لکھی گئی ہے اس میں 11، جون 1978 ء کو بننے والی آل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن واحد طلبا ء تنظیم ہے جس نے پاکستان کے فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ اور کرپٹ سیاسی کلچر میں ایک غریب ومتوسط طبقہ کی سیاسی جماعت کو جنم دیا۔ صرف جماعت ہی نہیں بنائی بلکہ سینیٹ ، قومی اسمبلی ، صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی ایوانوں میں غریب ومتوسط طبقہ کے تعلیم یافتہ افراد کو جاگیرداروں اوربڑے بڑے سرمایہ داروں کے برابر بٹھاکر ثابت کردیا کہ تمام انسان برابر ہیں اور بڑائی کا معیار دولت نہیں بلکہ کردار وعمل ہوتا ہے اور کردار وعمل کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے علم کی ضرورت ہوتی ہے ۔علم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب الطاف حسین نے کہاکہ جہاں علم ہوگا وہاں جہالت کی تاریکیاں ختم ہوتی ہیں اور علم کی روشنی پھیلتی ہے۔ جب جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے شہر، گلیاں اور علاقے علم کی روشنی سے منور ہونے لگتے ہیں توانسان کو ہرچھپی ہوئی چیز اصل شکل میں نظر آنے لگتی ہے۔ علم انسانی ذہن سے تاریکیوں کو اجالے میں بدل دیتا ہے اور انسان کو سکھاتا ہے کہ کونسی چیزاچھی اورکونسی چیز بری ہے ، کونسا راستہ سیدھا اور کونسا راستہ نامناسب ہے ۔علم کے بغیراللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ذہن بے نوررہتا ہے اور تاریکیوں میں ڈوبے ذہن کو کچھ بھی نظرنہیں آتا۔ اگر آج سے سو سال قبل آپ ٹیلی ویژن لیکر کسی کے پاس جاتے تو وہ ٹی وی دیکھ کر نہیں بتاسکتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے اوراس ڈبہ میں کیا نظرآتا ہے ۔ آج بھی اس کرہ ارض پر ایسے علاقے موجود ہیں جہاں کے رہنے والوں کے پاس ٹی وی لیکر جائیں گے تو وہ اسے حسرت سے دیکھیں گے لیکن سمجھ نہیں پائیں گے کہ یہ کیاچیز ہے ۔ اسی طریقے سے 50 سال یا 100 سال قبل آپ کسی کے پاس آئی پیڈ لیکر جاتے اور اس پر قدرتی مناظر کے بارے میں لی گئی کوئی وڈیو دکھاکر یہ دعویٰ کرتے کہ میں کسی جادو، ٹونے یا روحانی طاقت کے ذریعہ دنیا کی سیرکرارہا ہوں تو کیا وہ آپ کی بات پر اعتبارنہیں کرتا ؟ جناب الطاف حسین نے کہاکہ انسانی ذہن کبھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ ہزاروں میل کا فاصلہ ہوگا، آپ کا قائد آپ سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہوگا اور ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ ہزاروں میل دوری کے باوجود آپ میرا خطاب اس طرح سن رہے ہونگے کہ جیسے میں آپ کے سامنے آکر بات کررہاہوں ۔انہوں نے کہاکہ 100 یا 150 سال قبل انسان اونٹوں ، گھوڑوں ، خچروں اورہاتھیوں پر سفرکیاکرتے تھے،یہ سفر دن رات ہوتا تھا، دن ہفتوں ، مہینوں اور برسوں میں تبدیل ہوتے تھے تب کہیں جاکر انسان اپنی دوردراز منزل پر پہنچتا تھا، اس وقت کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ایک پرندہ نما شے بنائی جائے گی جس میں بیٹھ کر برسوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوجائے گا۔انہوں نے مزید کہاکہ ہزاروں میل کے سفر کادورانیہ علم کی بدولت ایجاد ہونے والے ہوائی جہاز کے سفر کے بعد گھنٹوں میں بدل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں علم ہوگا وہاں ذہن کے اندر موجود سیلوں(Cells) میں نئی نئی جہتیں کھلیں گی، ذہن منور ہوگا،ذہن میں موجود ہر چیز صاف دکھائی دے گی ، انسان کوشش کرکے نئی نئی چیزیں ایجاد کرتا رہے گااورفاصلے سمٹتے چلے جائیں گے۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ علم کی بدولت ہرمرض کا علاج ہوسکتا ہے ،کل تک لاکھوں امراض کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں تھا آج کسی بھی مرض کی تشخیص کیلئے خون کاٹیسٹ کراکر مرض کی وجہ معلوم کرلی جاتی ہے اور مرض کی تشخیص کے بعد علاج تجویز کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہاکہ علم سیکھنے کا عمل آخری سانس تک جاری رہتا ہے اور صرف رب کائنات وہ ذات ہے جہاں علم مکمل ہوجاتا ہے ۔نعوذباللہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو کیسے مانیں ، خدانظر نہیں آتا لیکن جب ہزاروں میل کی دوریاں علم کے ذریعہ ختم ہوجاتی ہیں تو خدا تعالیٰ کو جو پانا چاہتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ علم کی بلندیوں کو چھوتا رہے ، جوعلم کی جتنی بلندیوں کو چھوتارہے گا وہ خدا اور بندے کے درمیان فاصلے کو اتناہی کم کرتارہے گا۔ جو خدا کی قربت کا جذبہ لئے علم حاصل کرتا رہتا ہے اسکے اور خدا کے درمیان فاصلہ کم ہوتا رہتا ہے، کم ہوتا رہتا ہے اور ایک ایسا مرحلہ آجاتا ہے جب انسان خداکے اتنے قریب ہوجاتا ہے کہ اسکے منہ سے ’’اناالحق‘‘ جیسے الفاظ ادا ہوتے ہیں جسے دیگرانسان سمجھنے سے قاصر ہوتا ہیں ۔ انہوں نے مزید کہاکہ جب بادشاہ وقت ، اناالحق کے نعرے کو غیرشرعی قراردیکر علم کی بلندی پر پہنچنے والے منصورالحلاج کی گردن قلم کرادے تو پھر ان کا خون اچھل اچھل کراناالحق ۔۔۔اناالحق پکارنے لگتاہے ۔ جناب الطاف حسین نے تمام طلبا ء سے کہاکہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنی ہے تو علم حاصل کرو، علم کی تکمیل خدا پر ہوتی ہے، آپ جتنا علم حاصل کرتے رہوگے اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتے رہوگے اورایک وقت آئے گاکہ علم حاصل کرنے والے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان سوا نیزے کا فاصلہ رہ جائے گا۔
اس موقع پر جناب الطاف حسین نے قرآن کریم کی 53 ویں سورۃ، سورۃ النجم کا تفصیل سے ترجمہ اور تفسیر بیان کی جس کے مطابق علم حاصل کرنے سے خدا کی قربت ممکن ہوتی ہے ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ بیشترمسلمان ، قرآن کو صرف ثواب کے حصول کیلئے پڑھتے ہیں جبکہ قرآن ، خدا کی طرف سے عطا کردہ وہ تحفہ ہے جو ہمیں علم مکمل فراہم کرتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ قرآن علم ہے اور علم قرآن ہے ۔ اسی طرح علم خدا ہے اور خداعلم ہے ۔ انہوں نے اے پی ایم ایس او کے کارکنوں سمیت تمام پاکستانی طلباء سے کہاکہ اگر آپ کوخدا کو پانا ہے تو دل لگاکر اور روح لگاکر علم حاصل کریں۔ انہوں نے شرکاء کو تلقین کی کہ وہ عبادت بھی دل اورروح لگاکر یں کیونکہ خلوص ، عبادت کا بنیادی عنصر ہے ۔ عبادت خواہ تھوڑی سی ہو لیکن سچی اور خلوص نیت سے ہونی چاہئے ۔ جناب الطاف حسین نے علم کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماں ؐ پر جب پہلی وحی نازل کی تو اس کا آغاز بھی ’’اقراء‘‘ سے کیا جسکے معنی پڑھنے ، سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے ہیں۔ جب قرآن کاآغاز ہی تعلیم کے درس سے ہورہا ہے تو لازم ہے کہ علم حاصل کیا جائے ۔ علم کا حصول ہی بندے کو خداکے نزدیک کرتا ہے اور جسے خدا کو پانا ہے اسے علم حاصل کرنا چاہئے ۔انہوں نے شرکاء سے کہاکہ آپ کا قائد عالم نہیں ہے لیکن وہ قرآن کے آغاز کو سمجھ رہا ہے گوکہ آپ کے قائد کے پاس شائد ناخن برابر بھی علم نہیں ہے لیکن وہ اللہ کے درس کی روشنی میں آغاز قرآن کو سمجھنے کے ساتھ اس کا باقی پیغام بھی سمجھنے کی کوشش کررہاہے ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ جہاں خدا نے بیماریاں دی ہیں وہیں ہر بیماری کا علاج بھی دیا ہے ۔ دنیا میں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے علاج نہ دیا ہو لیکن شرط وہی ہے کہ علاج جاننے کیلئے علم حاصل کیا جائے ۔ اسی بات کو اس انداز میں بھی کہاجاسکتا ہے کہ اگر کسی بیماری کا علاج ڈھونڈنا ہے تو علم حاصل کرو، پاکستان کی معیشت ٹھیک کرنی ہے تو علم حاصل کرو، پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کے طریقے ڈھونڈنے ہیں تو علم حاصل کرو، پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانا ہے اورترقی وخوشحالی کی بلندیوں پر پہنچانا ہے تو بھی اس کیلئے ضروری ہے کہ علم حاصل کرو،علم حاصل کرو، علم حاصل کرو اور فاتح عالم بن جاؤ۔ عصرحاضر میں فاتح عالم بننے کیلئے تلوار کا استعمال ضروری نہیں ہے ، آج علم حاصل کرکے بھی فاتح عالم بناجاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ علم حاصل کرکے ہی ہم سقراط ، ارسطو، افلاطون ، نیوٹن ، ڈاون چی، بوعلی سینا، ارشمیدس، طبری ، خلدون اورآئن اسٹائن پیدا کرسکتے ہیں۔انہوں نے نوجوانوں سے کہاکہ وہ علم حاصل کریں کیونکہ وہ علم حاصل کریں گے تو فرقہ واریت سے دور ہوجائیں گے، مذہب کی بنیاد پر گردن زنی نہیں کرینگے ، والدین کا احترام کریں گے ، اساتذہ کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے ادب اور احترام کے ساتھ ان کے پاؤں چھوئیں گے ، ماؤں بہنوں پر سیٹیاں بجانے کے بجائے انکے محافظ بنیں گے اور معاشرہ کا قابل فخر حصہ بنیں گے ۔
جناب الطاف حسین نے طلبا وطالبات سے کہاکہ میں اپنے نوجوانوں ، اپنے بچوں کو کبھی کسی غلط بات کا درس نہیں دونگا۔ میں نے آپ کو ہمیشہ خواتین کے احترام کادرس دیا ہے اور ہمیشہ دیتا رہوں گا۔ میں آپ سے کہوں گا کہ کسی کی ماں ، بہن ، بیٹی پر سیٹیاں بجانے سے پہلے سوچیں کہ آپ کی بہن بیٹیاں بھی تو اسکول کالج جاتی ہوں گی ۔ اگر کسی نے ان پر سیٹی بجائی یا آواز یں کسیں تو سوچئے کہ آپ کے دل پر کیا گزرے گی ؟کسی کی ماں کے بارے میں کوئی غلط فقرہ کہنے سے پہلے سوچئے کہ آپ کے گھر میں آپ کی ماں بھی ہے ۔ اگر خدانخواستہ کسی نے اس کے بارے میں کوئی نازیبا بات کہی تو آپ کو کیسا لگے گا؟
جناب الطاف حسین نے اے پی ایم ایس او کے کارکنان وذمہ داران سے کہاکہ میں نے اسلامیہ کالج سے گریجویشن کی اور پھر جامعہ کراچی میں تعلیم حاصل کی ۔ ان تعلیمی اداروں کے بعض اساتذہ اب بھی حیات ہونگے ۔ آپ ان سے جاکر پوچھیں کہ کیا کبھی الطاف حسین نے آپ سے کوئی بدتمیزی کی یا آپ پر کوئی جملہ کسا۔ میں تو بخدا اپنے اساتذہ کا اتنا احترام کرتا تھا کہ کبھی ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات تک نہیں کرتا تھا۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ آج پاکستان کو تعلیم کی اشد ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ایسے عناصر موجود ہیں جوبے رحمی سے اسکولوں کو، خصوصاً طالبات کے تعلیمی اداروں کو بم دھماکوں سے اڑارہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جب قرآن کا پہلا لفظ ہی ’’اقراء‘‘ یعنی جاننا اور علم حاصل کرنا ہے تو آخر عورتوں کیلئے تعلیم حاصل کرنا کیوں حرام قراردیا جارہا ہے ؟ کیا قرآن مجید ، نعوذباللہ صرف مردوں کیلئے اتاراگیا ہے ؟اگرعلم حاصل کرنا عورتوں کیلئے ممنوع ہوتا تو سرکاردوعالم ؐ نے کبھی یہ ارشاد نہ فرمایا
ہوتا کہ ’’علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد وعورت پر فرض ہے ‘‘ جناب الطاف حسین نے کہاکہ انحضرت ؐ نے توتعلیم پر اتنا زور دیتے ہوئے یہ تک فرمایا کہ’’ علم حاصل کرو خواہ اس کیلئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ‘‘ جب آنحضرت ؐ نے حدیث ارشاد فرمائی تو اس وقت چین میں اسلام نہیں تھا جس کا مطلب یہ ہوا کہ چین کا درس اسلامی تعلیمات حاصل کرنے کیلئے نہیں تھا ۔ آپ ؐ نے یہ بات اللہ کے اس کلام کی روشنی میں فرمائی کہ ’’زمین وآسمان میں نشانیاں تلاش کرو خواہ وہ کہیں سے مل جائیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم حاصل کرنا، خواہ دینی ہو یا دنیاوی ہم سب کافرض ہے ۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ بدنصیب اورقابل مذمت ہیں وہ لوگ جولڑکیوں کوتعلیم کے حصول سے روکتے ہیں اوراسلام کے نام پرلڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں،جوخواتین کوکاروکاری کے نام پر قتل کررہے ہیں اوران پر ظلم کررہے ہیں۔انہوں نے کارکنوں سے کہاکہ لوگوں سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرو،یہی خداکافرمان ہے۔جہاں علم ہوگاوہاں دور دور نفرت نہیں ہوگی بلکہ صرف اورصرف محبت ہوگی،وہاں فرقہ واریت نہیں ہوگی اورانسان مذہب اورفرقہ واریت کے نام پر انسانوں کا قتل نہیں کرے گا۔محبت خداہے اورخدامحبت ہے۔یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم مذہب، فقہ اورمسلک کے نام پر نفرت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی گردن مارتے ہیں۔ہم دیکھیں کہ خدا اپنے بندوں سے نفرت نہیں کرتا، وہ ان کوبھی رزق دیتاہے جواس کونہیں مانتے ۔انہوں نے کہا کہ جہاں علم ہوگا وہاں غروروگھمنڈ نہیں ہوگا، انانہیں ہوگی ۔ انایہ کہتی ہے کہ جومجھے نہیں مانتااسے کھانانہ دو، جومجھے گالیاں دیتاہے اسے بھوکامارومگرخداکے ہاں انا نہیں ہے ،اسکی شان یہ ہے کہ وہ اس کوبھی رزق دیتاہے جواس کے وجود کاانکارکرتے ہیں۔جناب الطاف حسین نے تمام طلبہ وطالبات سے کہاکہ وہ گہرائی سے علم حاصل کریں ،نفرتوں کے بجائے محب کوفروغ دیں۔ہماراہاتھ کسی کوقتل کرنے کیلئے نہیں اٹھے بلکہ ان ہاتھوں کوروکنے کیلئے اٹھے جوکسی انسان کی گردن مارنے کیلئے اٹھ رہے ہوں۔انہوں نے تمام کارکنوں سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں ، اپنے آپ سے عہدکریں کہ ہم کوئی غلط کام نہیں کریں گے اور ہم ہمیشہ سچ بولیں گے خواہ ہمیں اس کیلئے کتنی ہی کڑی آزمائشوں سے کیوں نہ گزرناپڑے۔اپنے خطاب کے آخرمیں جناب الطا ف حسین نے تمام طلبہ وطالبات کیلئے دعائیں کرتے ہوئے کہاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے ذہنوں کوعلم کی روشنی سے منورفرمائے، آپ کی جائزخواہشات کوپورافرمائے،آپ کو اچھا انسان بنائے اورآپ کوحصول علم کے راستے پر ڈالے کہ حصول علم عبادت ہے اوریہ عبادت ہی خداکاراستہ ہے۔انہوں نے اپنے خطاب کااختتام پاکستان زندہ باد۔۔۔اے پی ایم ایس او پائندہ باد کے نعروں سے کیا۔