میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ہی نہیں بلکہ ان کے بھائی نے بھی ہاتھ کیا
ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایک طرف نوازشریف سے ڈیل کی دوسری طرف شہباز شریف سے خفیہ ڈیل کی
اب میاں صاحب یہی گنگنا رہے ہیں کہ '' دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے …ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے ''
26ویں آئینی ترمیم زورزبردستی ، غنڈہ گردی ، بدمعاشی اور غیرآئینی وغیرقانونی طریقوں سے منظور کرائی گئی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
26ویں آئینی ترمیم زورزبردستی ، غنڈہ گردی ، بدمعاشی اور غیرآئینی وغیرقانونی طریقوں سے پارلیمنٹ سے منظور کرائی گئی ہے ۔اوراس کو منظور کرانے میں آمریت کی پیداورار جماعتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ یہ تاریخی حقیقیت ہے کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی پرورش فوجی آمروں نے کی ، وہ جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کی کابینہ کا حصہ رہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نوازشریف کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء دور میں جنرل جیلانی سیاست میں لائے تھے اوروہ تین مرتبہ یعنی 1985، 1987 اور1988ء میں صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنائے گئے اور تین مرتبہ یعنی 1990، 1997 اور2013ء میں پاکستان کے وزیراعظم بنائے گئے ۔
جب جب میاں نوازشریف کے خلاف مقدمات قائم ہوئے تووہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کرکے اپنے آپ کو کلیئر کرواتے رہے۔1999ء میں بھی وہ جنرل پرویزمشرف کے دورمیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تحریری طورپر معاہدہ اور ڈیل کر کے 10سال کے لئے سعودی عرب چلے گئے ۔ 2017 ء میں بھی جب میاں نوازشریف صاحب کو نااہل قراردیکر وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹایاگیا تواقتدارسے اتارے جانے کے بعد میاں نوازشریف نے پورے ملک میں '' مجھے کیوں نکالا '' اور '' ووٹ کوعزت دو'' کی مہم چلائی لیکن انہوں نے فوج سے پھرڈیل کی۔ 2019ء میں بھی وہ عمران خان کے دورحکومت میں ایک سزایافتہ شخص کی حیثیت سے جیل میں اسیر تھے ۔اس دوران خبریں آئیں کہ ان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی مقدار کم ہوگئی ہے۔مسلم لیگ ن کی قیادت اوران کے وکلاء نے عدالت سے درخواست کی کہ میاں نوازشریف کوفوری طور پر علاج ومعالجے کی غرض سے بیرون ملک بھیجاجائے۔میاں شہبا ز شریف صاحب نے تحریری طورپر ضمانت دی کہ میاں نواز شریف علاج کرواکر چار ہفتوں میں وطن واپس آجائیں گے۔جس پر عدالت نے انہیں علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دیدی۔ میاں نوازشریف چارہفتوں کیلئے علاج کرانے لندن آئے تھے لیکن وہ تین سال سے زائدعرصہ لندن میں قیام پذیررہے اور لندن آنے کے بعد ان کی بیماری یکسر غائب ہوگئی ۔ 2024ء میں بھی نوازشریف نے پاکستان واپسی کیلئے ایک بارپھر ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے باقاعدہ ڈیل کی اوراسٹیبلشمنٹ نے انہیں یقین دلایاتھا کہ جیسے ہی وہ پاکستان تشریف لائیں گے تو ائیرپورٹ پر ہی ان پر قائم مقدمات پرانہیں عدالتی ضمانت فراہم کردی جائے گی اورانہیں وزیراعظم بنادیاجائے گاوہ خود کووزیراعظم تصورکرنے لگے تھے۔ وہ 8، فروری 2024ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کیلئے ایک ڈیل کے نتیجے میں ہی پاکستان پہنچے تھے لیکن دوسری طرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف سے خفیہ ڈیل کرتی رہی ۔
8 فروری 2024ء کے انتخابات میں میاں نوازشریف پر PTI کی رہنماء ڈاکٹریاسمین راشد کو برتری حاصل تھی لیکن رات 12 بجے کے بعد فوج ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران نے بدترین دھاندلی کرکے فارم 47 کے تحت کامیاب امیدواروں کو ناکام اور ناکام امیدواروں کو کامیاب قراردیدیا۔ فارم 47کے تحت میاں نوازشریف قومی اسمبلی کے رکن تو بن گئے لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ایساکھیل کھیلا کہ میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان نہ ہوسکے بلکہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم اور صاحبزادی مریم نوازکو پنجاب کی وزیراعلیٰ بنادیا گیااور اس طرح نوازشریف کا پتہ صاف کردیا گیا ۔ میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ صرف ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ہی نہیں بلکہ ان کے بھائی نے بھی ہاتھ کردیا تھا ۔ وہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہیں بن سکے ،ان کے تمام خواب چکنا چور ہوگئے،وہ مایوس ہوکر خاموشی کی زندگی گزار نے لگے اور 24 اکتوبر کو دبئی کیلئے روانہ ہوگئے ۔ لندن میں کسی صحافی نے پوچھا کہ آپ چوتھی مرتبہ وزیراعظم کیوں نہیں بنے تو وہ خاموش رہے ۔سوال کرنے والے نے اندازہ لگالیا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔بتایاجاتاہے کہ میاں صاحب انتہائی دکھی ہوکر یہ گیت گنگنانے لگے،
'' دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے ،
ہم وفاکرکے بھی تنہا رہ گئے ''
مجھے میاں نوازشریف صاحب سے ہمدردی ہے،میں تودعاکرتاہوں کہ میاں صاحب چوتھی اورپانچویں مرتبہ بھی وزیراعظم بنیں، اسلئے کہ میں تو کبھی صدرمملکت یاوزیراعظم نہیں بننا چاہتا ۔ میری جدوجہد کامقصد پاکستان سے فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ ، سردارانہ اوربے لگام سرمایہ دارانہ نظام کاخاتمہ اور غریب ومتوسط طبقہ کی حکمرانی قائم کرنا ہے ۔ میں چاہتاہوںکہ ملک سے دوفیصد اشرافیہ کاقبضہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے اور ملک کے 98 فیصدغریب ومتوسط طبقہ کے عوام کوبلاامتیاز وتفریق ان کے جائز حقوق میسر ہوں ، ملک میں آئین ، قانون کی حکمرانی ہو، جمہوریت پائیدار اورجمہوری ادارے مستحکم ہوجائیں ۔
ملک کی سیاسی صورتحال بہت افسوسناک ہے،عمران خان جیل میں ہیں مگران کی رہائی کیلئےPTI کی کمپرومائزڈقیادت احتجاج کا مؤثر راستہ اختیار کرنے سے کترارہی ہے جبکہ ان کے کارکنان مایوس ہیں۔الطاف حسین عمران خان کی حمایت میں ایک بات مسلسل کہتارہا ہے کہ میرے تجربے سے عمران خان کے وفادار کارکنوںکو استفادہ کرنا چاہیے ،میں اپنے46 سالہ سیاسی تجربے کی روشنی میں انہیں ایسا فارمولا دے سکتاہوں جس سے ملک بھرکے عوام کو بھرپوراحتجاج کیلئے تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور اس عوامی طاقت کو دیکھ کر پاکستان جماعتیں ہی نہیں بلکہ عالمی طاقتیں بھی عمران خان کی رہائی کامطالبہ کرنے پرمجبور ہوجائیں گی ۔
میں سمجھتاہوں کہ فوج ہرملک کی ضرورت ہوتی ہے اور فوج کا رکھنا لازمی ہوتا ہے لیکن فوج کا ایک آئینی کردار ہوتا ہے ، فوج کے دائرہ کارکی حدود متعین ہوتی ہیں ۔معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب فوج آئین میں متعین کردہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہے ۔ پاکستان میں بدقسمتی سے سیاسی وحکومتی امورمیں فوج کا ایسا عمل دخل رہا ہے جیسے منشیات کے عادی افراد کولت لگ جاتی ہے ،فوجی جرنیلوں کا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کوقوم کا نوکریا ملازم سمجھنے کے بجائے خود کو حاکم بن کرسیاست میں مداخلت کرنے لگتے ہیں ۔ جب جب فوجی جرنیل ایسا عمل کرتے ہیں وہاں اداروں کی تباہی وبربادی کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے اورملک وقوم کا نقصان ہوجاتا ہے ۔ فوج کی طاقت کی وجہ سے مظلوم عوام فوجی جرنیلوں کے آگے نہیں کھڑے ہوتے لیکن جب نفرت انتہاء کوپہنچ جائے توپھر عوام یہ پرواہ نہیں کرتے کہ انجام کیاہوگا۔ جب ظلم وجبرکاسلسلہ ناقابل برداشت ہوجاتا ہے تو پھر عوام اوراپنے حق اورآزادی کے لئے میدان عمل میں آجاتے ہیں ۔ ایک وقت آتا ہے کہ سات آٹھ لاکھ فوج بھی کروڑوں عوام کامقابلہ کرنے سے قاصرہوجاتی ہے اورہرشے عوامی ریلے میں بہہ جاتی ہے ۔ پاکستان میں یہ صورتحال ابھی نہیں آئی ہے لیکن عوام اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ملک میں خرابی کی جڑ کون ہے۔اب صوبہ پنجاب کے لوگ بھی فوجی جرنیلوں کے کرتوتوں کو سمجھ چکے ہیں اور خاص طورپر نوجوان نسل جان چکی ہے کہ فوجی جرنیلوںنے ملک کا کتنا نقصان کردیا ہے۔
میں سمجھتاہوں کہ یہ کہنا غلط ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے بعدپاکستان کی سیاست میں فوج یا بیرونی قوتوں کی مداخلت ہوئی ہے ،یہ فیصلہ1947ء سے پہلے ہی ہوچکا تھا ۔
1956ء کے دستور کو جنرل اسکندر مرزا نے مسمار کیا ، 1958 میں ملک میں مارشل لا لگ گیاتھااورتب سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ اگر ہم جنرل قمر باجوہ اورموجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو اس کا الزام دیں گے تو یہ غلط ہے۔اس صورتحال سے نکلنے کاایک ہی راستہ ہے کہ عوام ہرقسم کے امتیاز سے بالاترہوکراپنے حقوق کے لئے جدوجہد کریں،تمام ادارے اپنی آئینی حدودمیں رہ کرکام کریں اورسب مل کرملک کومضبوط اورمستحکم بنانے کے لئے کام کریں۔
الطاف حسین
140ویں فکری نشست سے خطاب
26، اکتوبر2024