بلوچستان میں مظالم کے نتیجے میں اب بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جاپہنچی ہے
وقت آگیاہے کہ حقائق کوتسلیم کیاجائے
الطاف حسین
………………………………………
میں نے بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ حقائق بیان کیے ہیں اورحقائق بیان کرتارہوں گا چاہے کوئی مجھ پر من گھڑت الزامات لگائے یامجھ پرطعنے کسے لیکن میں حق اور سچ کہنا نہیں چھوڑوں گا۔ ماضی میں بلوچوں کے بارے میں میرے حق پرستانہ اورجرات مندانہ عمل وکردار کودیکھتے ہوئے ہی بزرگ سیاسی رہنماء شہید بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی کے یہ الفاظ اخبارات کے ریکارڈ پرمحفوظ ہیں کہ پاکستان میں ایک ہی نر کا بچہ ہے اور وہ الطاف حسین ہے ۔
منگل 11مارچ کوبلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفرایکسپریس کوہائی جیک کیا جس میں فوجی اہلکاروں سمیت 400 مسافرسوار تھے ، بلوچ مزاحمت کاروں نے عورتوں ، بچوں اور سویلینزکویہ کہہ کرریلیز کیاکہ ہماری آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے ، ہماری دشمنی ان سے ہے جو ہمارے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں اور ہمارے بچوں اور جوانوں کو اٹھاکر غائب کردیتے ہیں ۔آئی ایس پی آر والے بیان دے رہے ہیں کہ فورسز نے تمام یرغمالیوں کو چھڑوایا ہے جبکہ خواتین ، بچوں اور سویلینز کو بی ایل اے والوں نے خود چھوڑا ہے ۔
قابل غوربات یہ ہے کہ ملک بھرکے عوام بالخصوص اہل پنجاب سوچیں کہ بلوچ حریت پسندوں نے جعفر ایکسپریس پر قبضہ کیوں کیا؟ پہلے تو اس ''کیوں'' کا جواب دیاجائے ، اگرآپ جواب نہیں جانتے تو پھر آپ بھی بلوچوں کے خلاف جرائم میں برابر کے شریک ہیں ۔ پنجاب کے بعض لوگوں کے یہ بیانات دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ''فوج ، تمام بلوچ سرمچاروں کو ماردے'' ۔ یہ سوچ افسوسناک ہے ۔ جب پنجاب میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تھے توکیاچھاپے مارنے والوں نے پنجاب کی ماں بہن بیٹی کے سروں پر چادریں ڈالی تھی؟ کیا انہوں نے چادروچہاردیواری کاتقدس پامال کرکے صحیح کیاتھا؟ کیا آپ بلوچ بہنوں اوربیٹیوں کی بے حرمتی کی مذمت نہیں کریں گے ؟
پنجاب کے لوگوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام پربھی خوشی میں بھنگڑے ڈالے تھے اوروہ آج پھر وہی عمل کررہے ہیں۔ پنجاب کے لوگوں سے کہتاہوں کہ وہ خدارا یہ عمل نہ کریں بلکہ ظلم کوظلم کہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کوسمجھنے کی کوشش کریں، 14، اگست 1947ء کو جب پاکستان قائم ہوا اس وقت بلوچستان ، پاکستان کا حصہ نہیں تھا ، بلوچستان کواس کی مرضی کے برخلاف طاقت کے ذریعے شامل کیاگیا ہے ۔ بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھاگیا، بلوچوں پربے انتہاء ظلم کیا گیا ہے، بلوچ بزرگوں اورنوجوانوں کا قتل کیاگیا، ان کی لاشیں ہیلی کاپٹروں سے پھینکی گئی ہیں ،آج بھی انہیں جبری گمشدہ کیاجارہا ہے اور بلوچ مائیں ، بہنیں، بیٹیاں اور معصوم بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں لیکن ان کی فریادیں نہیں سنی جارہی ہیں ۔انہی مظالم کے نتیجے میں اب بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جاپہنچی ہے ۔ وقت آگیاہے کہ حقائق کوتسلیم کیاجائے۔ اگرپاکستان کو بچانا ہے تو اہل پنجاب کوباہر نکلنا ہوگا ، بلوچوں ، پشتونوں، مہاجروں اور دیگر قوموں پر ظلم بند کرانا ہوگا۔ اگرمجھ سے کہاجائے گا تومیں خودبھی اپناکردارادا کرنے اور بلو چ سرمچاروں کے پاس جانے اوران سے بات کرنے کیلئے تیارہوں ۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 122 ویں فکری نشست سے خطاب
12مارچ 2025ئ
بلوچستان میں مظالم کے نتیجے میں اب بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جاپہنچی ہے
وقت آگیاہے کہ حقائق کوتسلیم کیاجائے
………………………………………
میں نے بلوچستان کے حوالے سے ہمیشہ حقائق بیان کیے ہیں اورحقائق بیان کرتارہوں گا چاہے کوئی مجھ پر من گھڑت الزامات لگائے یامجھ پرطعنے کسے لیکن میں حق اور سچ کہنا نہیں چھوڑوں گا۔ ماضی میں بلوچوں کے بارے میں میرے حق پرستانہ اورجرات مندانہ عمل وکردار کودیکھتے ہوئے ہی بزرگ سیاسی رہنماء شہید بلوچستان نواب اکبر خان بگٹی کے یہ الفاظ اخبارات کے ریکارڈ پرمحفوظ ہیں کہ پاکستان میں ایک ہی نر کا بچہ ہے اور وہ الطاف حسین ہے ۔
منگل 11مارچ کوبلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفرایکسپریس کوہائی جیک کیا جس میں فوجی اہلکاروں سمیت 400 مسافرسوار تھے ، بلوچ مزاحمت کاروں نے عورتوں ، بچوں اور سویلینزکویہ کہہ کرریلیز کیاکہ ہماری آپ سے کوئی دشمنی نہیں ہے ، ہماری دشمنی ان سے ہے جو ہمارے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں اور ہمارے بچوں اور جوانوں کو اٹھاکر غائب کردیتے ہیں ۔آئی ایس پی آر والے بیان دے رہے ہیں کہ فورسز نے تمام یرغمالیوں کو چھڑوایا ہے جبکہ خواتین ، بچوں اور سویلینز کو بی ایل اے والوں نے خود چھوڑا ہے ۔
قابل غوربات یہ ہے کہ ملک بھرکے عوام بالخصوص اہل پنجاب سوچیں کہ بلوچ حریت پسندوں نے جعفر ایکسپریس پر قبضہ کیوں کیا؟ پہلے تو اس ''کیوں'' کا جواب دیاجائے ، اگرآپ جواب نہیں جانتے تو پھر آپ بھی بلوچوں کے خلاف جرائم میں برابر کے شریک ہیں ۔ پنجاب کے بعض لوگوں کے یہ بیانات دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ''فوج ، تمام بلوچ سرمچاروں کو ماردے'' ۔ یہ سوچ افسوسناک ہے ۔ جب پنجاب میں ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تھے توکیاچھاپے مارنے والوں نے پنجاب کی ماں بہن بیٹی کے سروں پر چادریں ڈالی تھی؟ کیا انہوں نے چادروچہاردیواری کاتقدس پامال کرکے صحیح کیاتھا؟ کیا آپ بلوچ بہنوں اوربیٹیوں کی بے حرمتی کی مذمت نہیں کریں گے ؟
پنجاب کے لوگوں نے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے قتل عام پربھی خوشی میں بھنگڑے ڈالے تھے اوروہ آج پھر وہی عمل کررہے ہیں۔ پنجاب کے لوگوں سے کہتاہوں کہ وہ خدارا یہ عمل نہ کریں بلکہ ظلم کوظلم کہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کوسمجھنے کی کوشش کریں، 14، اگست 1947ء کو جب پاکستان قائم ہوا اس وقت بلوچستان ، پاکستان کا حصہ نہیں تھا ، بلوچستان کواس کی مرضی کے برخلاف طاقت کے ذریعے شامل کیاگیا ہے ۔ بلوچوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھاگیا، بلوچوں پربے انتہاء ظلم کیا گیا ہے، بلوچ بزرگوں اورنوجوانوں کا قتل کیاگیا، ان کی لاشیں ہیلی کاپٹروں سے پھینکی گئی ہیں ،آج بھی انہیں جبری گمشدہ کیاجارہا ہے اور بلوچ مائیں ، بہنیں، بیٹیاں اور معصوم بچے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں لیکن ان کی فریادیں نہیں سنی جارہی ہیں ۔انہی مظالم کے نتیجے میں اب بات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جاپہنچی ہے ۔ وقت آگیاہے کہ حقائق کوتسلیم کیاجائے۔ اگرپاکستان کو بچانا ہے تو اہل پنجاب کوباہر نکلنا ہوگا ، بلوچوں ، پشتونوں، مہاجروں اور دیگر قوموں پر ظلم بند کرانا ہوگا۔ اگرمجھ سے کہاجائے گا تومیں خودبھی اپناکردارادا کرنے اور بلو چ سرمچاروں کے پاس جانے اوران سے بات کرنے کیلئے تیارہوں ۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر 122 ویں فکری نشست سے خطاب
12مارچ 2025ئ