Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

خدارا مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق سیکھیں. الطاف حسین


 Posted on: 12/18/2024
خدارا مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق سیکھیں. الطاف حسین
#FallOfDhaka #16DecemberBlackDay …………………………… 16دسمبر پاکستان کی تاریخ کاسیاہ ترین دن ہےکیونکہ 16دسمبر 1971 کوفوج نے پاکستان دولخت کردیا تھا۔ میراپاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ، حکومت اورتمام ارباب اختیارسے یہی کہناہے کہ وہ خدارا مشرقی پاکستان کے سانحہ سے سبق سیکھیں اور اپنے ہی ملک کے عوام کوگولہ بارود سے دبانے اورانہیں طاقت سے کچلنے کی پالیسی ترک کردیں۔  سانحہ مشرقی پاکستان کی مختصراً تاریخ یہ ہےکہ 1970ء میں جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے جوعام انتخابات کرائے تھے اس میں سابقہ مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام کی نمائندگی کرنے والی پاکستان کی ایک بڑی جماعت عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرلی تھی، آئین، قانون اور جمہوری اصولوں کے تحت ملک کااقتدار عوامی لیگ کے حوالے کردیناچاہیے تھا لیکن فوجی حکومت نے اقتدارعوامی لیگ کے حوالے نہیں کیا۔ اس وقت فوجی مارشل لا کی اتحادی پیپلزپارٹی نے بھی عوامی لیگ کواقتدارسونپنے کی مخالفت کی۔ جب عوامی لیگ نے ازخود قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں طلب کیاتو پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹونے فوج کی پالیسی کے تحت نہ صرف اس اجلاس کی مخالفت کی بلکہ لاہورمیں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئےدھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے جو منتخب رکن اس اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ جائے گاتوواپسی پر اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔بھٹونے '' اِدھرہم ، اُدھر تم '' کانعرہ لگادیا اور پاکستان میں دو وزرائے اعظم کی تجویز پیش کردی کہ شیخ مجیب مشرقی پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں اوربھٹو مغربی پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں۔ یہ پاکستان کو تقسیم کرنے کی بات تھی جبکہ عوامی لیگ پاکستان کومتحد رکھنے کےلئے جمہوری اصولوں کے تحت پاکستان میں اکثریتی جماعت کو اقتدارکی منتقلی کا مطالبہ کرتی رہی۔فوج نے عوامی لیگ کو اقتداردینے کے بجائے25مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں '' آپریشن سرچ لائٹ '' کےنام سے فوجی آپریشن شروع کردیا جس کے دوران لاکھوں بنگالیوں کا قتل عام کیاگیا، لاکھوں بنگالی عورتوں کی عصمت دری کی گئی، گھروں کو جلایا گیا، اپنےحق کامطالبہ کرنے والے بنگالی عوام کوکچلنے کلئےان پر وحشیانہ مظالم کے پہاڑتوڑے گئے جس کی وجہ سے لاکھوں بنگالیوں کونقل مکانی بھی کرنی پڑی۔جواب میں بنگالی عوام نے بھی اپنی آزادی کےلئےگروپ تشکیل دیے۔ ایسی صورتحال میں انڈیاکی فوج بھی مشرقی پاکستان میں داخل ہوئی اور چند روز کی جنگ کےبعد پاکستان کی فوج نے انڈیا کی فوج کےسامنے 93 ہزار کی تعداد میں ہتھیار ڈال دیے اور16دسمبر 1971ء کومشرقی پاکستان آزاد ہوکرایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے بنگلہ دیش بن گیا۔  ہوناتویہ چاہیے تھاکہ پاکستان کے ارباب اختیارسانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کرتے اور باقی ماندہ پاکستان میں آباد قوموں کوان کے حقوق دیتے، ان کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کاخاتمہ کرتےاور انہیں طاقت سےدبانے کی پالیسی ترک کرتے لیکن افسوس کہ بلوچستان، سندھ اور پختونخوا میں بھی مشرقی پاکستان جیسا طرزعمل اختیار کیا گیا اورآج بھی طاقت اور گولہ بارود کے ذریعےان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان میں اپناحق مانگنےپرگزشتہ کئی دہائیوں میں اب تک ہزاروں بلوچوں کو قتل کردیا گیا، پختونخوا اورقبائلی علاقوں کے پختونوں کو پہلے حقوق کامطالبہ کرنے کی پاداش میں اورپھر سردجنگ کے دوران عالمی طاقتوں کے مفادات کےلئے قتل کیاگیا، اپنےحق کے لئے آوازاٹھانے والے کتنے ہی سندھیوں کوقتل کیاگیا، اپنےحقوق کےلئےآوازاٹھانے پر 25 ہزار سے زائد مہاجروں کوقتل کیاگیا۔ یہ ظلم وستم آج بھی جاری ہے۔ اسی طرح میری آواز، تحریر وتقریرحتیٰ کہ میری تصویر دکھانے اورمیرانام تک لینے پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاپر 7ستمبر 2015ء کو پابندی لگادی گئی۔ واضح رہےکہ یہ پابندی لاہور ہائیکورٹ نے چھ ماہ کےلئے لگائی تھی جو 9سال گزرجانےکے باوجود آج تک جاری ہے۔اس کے علاوہ فوج نے 22اگست 2016ء کو میرے گھر اورایم کیوایم کےمرکز المعروف '' نائن زیرو'' کو سیل کردیا اور وہاں فوج کے اہلکاروں کو بٹھادیا۔اس دن سے آج دسمبر 2024ء تک میرے گھرپر فوج کاقبضہ ہے۔اسی قبضےکےدوران میرے گھرنائن زیرو کو آگ لگادی گئی اوربعد میں اسے بلڈوز کردیا گیا۔اس کے باوجود فوج آج تک وہاں قبضہ کئےہوئے ہے اوروہاں موجود ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایم کیوایم کے تمام مرکزی اور علاقائی دفاتر کو بھی مسمار کردیاگیا یاپھر سیل کردیاگیا جوآج تک سیل ہیں۔  جس طرح 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیاگیااسی طرح 8فروری 2024ء کو پاکستان کی سب سے بڑی عوامی جماعت پاکستان تحریک انصاف کوانتخابات سےباہر رکھنےکی کوشش کی گئی، جب تمام ترہتھکنڈوں کے باوجود پاکستان کے عوام نے بھاری اکثریت سے پی ٹی آئی کوکامیاب کرادیا تو فوج نے بدترین دھاندلی کرکے فارم 47میں نتائج تبدیل کردیے اورفارم 47 کے تحت مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اوردیگر عسکری جماعتوں کودھاندلی سے سیٹیں دیکر ملک میں ان کی حکومت بنادی۔ پی ٹی آئی کے حامیوں نے اپنے مینڈیٹ کاقتل کرنےکےخلاف پاکستان بھرمیں احتجاج شروع کیاتوانہیں طاقت سے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔26 نومبرکو اسلام آباد میں آکراحتجاج کرنے والے عوام پر فوج نے بیدریغ گولیاں چلائیں جس کے نتیجےمیں پختونخوا سے آنےوالےدرجنوں شہری شہیدوزخمی ہوئے اوربہت سے لاپتہ ہیں۔اس کے بعد پنجاب خصوصاً اسلام آباد میں پٹھانوں کو چن چن کر گرفتارکرناشروع کردیا گیااورعوام کو مار مارکردھاندلی زدہ نتائج تسلیم کرنےپر مجبورکیاجارہاہے۔دوسری طرف بلوچستان میں بھی فوج کشی کی جارہی ہے۔اس بات کوسمجھ لیاجائےکہ پختونخوا سےچند لوگوں کو تو ساتھ ملایا جاسکتا ہےلیکن تمام پختونوں کو خریدا نہیں جاسکتا اورنہ ہی طاقت سے ان کی آواز کو دبایاجاسکتاہے۔  میں پاکستان کا دشمن نہیں بلکہ پاکستان کوایک مضبوط ملک دیکھنا چاہتاہوں اوراسی جذبے کے ساتھ یہ دعوت ِفکر دے رہاہوں کہ سانحہ مشرقی پاکستان سے سبق حاصل کریں اوریہ سمجھ لیں کہ اب قوموں کی آواز کو طاقت سے دبایا نہیں جاسکتا۔ گولہ بارود سے علاقے فتح کئے جاسکتے ہیں لیکن عوام کے ذہنوں کوفتح نہیں کیاجاسکتا۔ طاقت اور جبر کے ہتھکنڈوں سے وقتی طورپر لوگوں کوخاموش کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے ذہنوں میں پیداہونے والے نظریات کو ختم نہیں کیاجاسکتا۔ اگر ہر مسئلے کوطاقت سے حل کرنے کی روش جاری رہی، پختونخوا اور بلوچستان میں بلوچوں اورپختونوں کے خلاف فوج کشی کا عمل جاری رہا تو “ آزادبلوچستان “ بنے گا اور “ آزاد پختونستان “ بھی بنے گا۔ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، صحافیوں، اکابرین اورتمام اہل پنجاب سے کہتاہوں کہ آپ آبادی کی بنیاد پر ہرشعبے میں 56فیصد حصہ لیتے ہیں توپاکستان کو بچانےکےلئے قربانیوں میں بھی 56فیصد حصہ ڈالیں، اسی طرح پاکستان بچ سکتاہے۔ پنجاب نے 1971ء میں پاکستان بچانے کے بجائے ظلم وجبر میں فوج کا ساتھ دیا تھا لیکن اگراب وہ پاکستان بچاناچاہتےہیں تو انہیں آگے بڑھ کر قربانیاں دینا ہوں گی۔  پاکستان بچانے کےلئے صرف PTI نہیں بلکہ پورے ملک کے عوام کو خصوصاً اہلِ پنجاب کوآگے آناہوگا اور سب کوملکراس مقصد کےلئے جدوجہد کرنی ہوگی کہ تمام ادارے اپنی اپنی آئینی حدود میں رہیں، فوج کوبھی سیاست میں مداخلت بندکرکے ملک کی سرحدوں کے دفاع پر توجہ دینی ہوگی اور یہ سمجھنا ہوگاکہ فوج  کےلئے سیاست میں حصہ لینا غیرآئینی اور ان کے اٹھائےگئے حلف کے منافی ہی نہیں بلکہ حرام بھی ہے۔  پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے اکابرین اورعوام کوبھی صرف زبانی باتیں کرنے کے بجائے عملی میدان میں آناہوگا۔ الطاف حسین ( 186ویں فکری نشست سے خطاب ) 16دسمبر 2024 (مکمل فکری نشست دیکھئے) youtu.be/p2N6KWEHy5w?si

1/2/2025 7:10:19 AM