Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

محترم حامد میر کی خدمت میں

 Posted on: 3/8/2014 1   Views:2864
(تحریر۔۔۔ ندیم نصرت)

میرے نزدیک یہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے کہ میں اس موضوع پر لکھنے بیٹھ جاؤں کہ پاکستان بچانا ہے یا جمہوریت؟جبکہ قائد اعظم محمد علی جناح کا فرمان ہے کہ ’’پاکستان اُسی دن معرض وجود میں آ گیا تھا جب ہندوستان کا پہلا غیر مسلم، مسلمان ہوا تھا ‘‘اور یہ روسوؔ کے سوشل کنٹریکٹ لکھنے سے تقریباً 900 سال پہلے کی بات ہے۔اس عنوان سے لکھے جانے والے کالم بیمار ذہنیت اور کوڑھ زدہ مطالعے کی عکاسی کرتے ہیں ۔جس کا مقصد عوام کو کنفیوژ اور گمراہ کرنا ہوتا ہے تاکہ بالادست طبقات کیلئے مزید گنجائش پیدا کی جا سکے ۔اب کوئی تعلیم یافتہ اور باخبر انسان ایسا کیوں کرے گا ؟ تو اس کی دوہی وجوہات ہوسکتی ہیں، ذاتی مفاد یا آقاؤں کا ایجنڈا۔ انتہائی آسان بات ہے کہ جدیدجمہوریت ایک طرز حکومت ہے جس میں منشاء ہائے عمومی راج کرتی ہے جبکہ پاکستان اُس مقدس سرزمین کا نام ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو پاکستان بڑا تھا اور جب میں بڑا ہوا تو پاکستان چھوٹا ہوگیا ۔ایک ہزار مہینے سے افضل رات میں بننے والا پاکستان صرف 292 مہینوں بعد آدھے سے بھی کم رہ گیا ۔بدترین سانحہ ہوا لیکن آج تک نہ تو کوئی معتبر رپورٹ عوام کے سامنے آئی اور نہ ہی اس واردات میں ملوث ملزمان کو کوئی سزا سنائی جا سکی ہے ۔میں سوچتا ہوں کہ اگر مادرِ ملت ایوب خان کے مقابلے میں الیکشن جیت جاتیں تو کیا ایوب خان سیلوٹ کرکے پاکستان محترمہ فاطمہ جناح کے سپرد کردیتے ؟حالات کو پاکستان کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اگر’’ مارشل پلان‘‘ کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات زیادہ آسانی سے سمجھ میںآ جاتی ہے ۔لیکن اُس الیکشن کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ضرورتھی کہ جماعت اسلامی نے اُس وقت مادرِ ملت کا ساتھ دیا تھا گو کہ 1988 ء میں انہیں اچانک یاد آگیا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ۔اور پھر جو جرنیل مادرملت کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہوگیا تھا آپ اُس سے یہ توقع کررہے تھے کہ وہ الیکشن ہارجاتا ؟اور پھر وہ جماعت اسلامی کدھر گئی جومادرِ ملت کی حمایتی تھی ؟جہاں تک ایوب خان کے مارشل لا ء کی بات ہے تو اس میں نہ تو جمہوریت کا دخل ہے اور نہ ہی آمریت کا۔حقیقت تو یہ ہے کہ اقبال کے شاہین اور قائد کے سپاہی اورنگ زیب عالمگیر کے جانشینوں سے بھی زیادہ نااہل اور کمزور ثابت ہوئے تھے ۔انہوں نے اس ریاست کے ساتھ بسنے والوں کے ساتھ وہ سلوک کیا تھا جو ایک فاتح سپاہ ،مفتوح کے ساتھ کرتی ہے ۔جہاں تک سانحہ مشرقی پاکستان کی بات ہے تو یہ کسی فوجی آپریشن کی وجہ سے رونما نہیں ہوابلکہ ایک طبقہ آبادی کے ساتھ مسلسل زیادتیوں نے اس کی آبیاری کی تھی کیونکہ 1954 ء کے صوبائی انتخابات میں مشرقی پاکستان کی310 نشستوں میں سے قائد کی مسلم لیگ صرف 9 نشستیں جیت پائی جبکہ ہاؤس میں ایک گروپ بننے کیلئے 10 ممبر درکار تھے ۔اور ایسا کرنے والے جگتو فرنٹ کے ’’غدار ‘‘ تحریک پاکستان کے نامور قائد ین اورعظیم قائد اعظم کے قریبی ساتھی تھے اورایسا پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے صرف 7 سال بعد ہوا اور اُس وقت تک ملک میں نہ کوئی آئین تھا اور نہ کوئی مارشل لاء سو کوئی فوجی آپریشن بھی نہیں تھا ۔اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ سانحہ مشرقی پاکستان سیاست کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا تو انہیں یہ ضروربتاناچاہوں گاکہ یہ المیہ سیاست نہیں عدمِ سیاست کی وجہ سے رونما ہوا۔
ہمارے ہاں چینلز پر بیٹھے ’’ بستہ ب‘‘ کے چند ملزمان انتہائی دیدہ دلیری سے خلافت کانظام لانے کی بات کرتے ہیں جبکہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں تائب ہونیوالے لبرل ازم کی بات کرتے ہیں ٗ قائداعظم کو مذہبی رہنما بنانے کی کوشش کرتے ہیں ٗ پاکستان میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اور اس کیلئے افواج پاکستان اورعام شہریوں کے گلے کاٹتے ہیں ۔یہ تمام زندہ لوگوں کے نقطہ نظر ہیں ٗ زندہ لوگ پیار بھی کرتے ہیں اور نفرت بھی ٗ دوستی بھی کرتے ہیں اوردشمنی بھی ٗقتل کرتے بھی ہیں اورقتل ہوتے بھی ہیں ٗ بارودی جیکٹ بھی پہنتے ہیں اور گولی بھی چلاتے ہیں قبرستان میں کسی کو کسی سے اختلاف نہیں ہوتا ٗ وہاں کوئی جمہوریت ٗ آمریت یا وطن نہیں ہوتا ٗ یہ سب کچھ زندہ لوگوں کے خیالات ٗتصورات اور نظریات ہیں ۔سب سے بڑی غداری تو یہ ہے کہ جب آپ گولی چلانے والوں کے خلاف آپریشن اور فوجی جوانوں کے گلے کاٹنے والوں اور افواجِ پاکستان پر حملے کرکے انہیں شہید اورقومی املاک اورحفاظتی ہتھیاروں کو تباہ کرنے والوں کے ساتھ معاہدے کی بات کریں ٗ ایسا کریں گے توپھر نفرت تو پیدا ہوگی۔
جناب الطاف حسین نے تو برصغیر کی تقسیم کو عظیم انسانی المیے سے تعبیر کیا تھا لیکن یہاں تو تخلیقِ پاکستان کے بعد جنہوں نے یہ کہا کہ ‘‘خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہ تھے ۔‘‘وہی پاکستان کے مامے چاچے بن گئے ، جنہوں نے عظیم قائد کو ’’کافراعظم‘‘ کہا ہم نے سب کچھ انہی کے سپرد کردیا اور جو ماجے ساجے یہ راگ ا لاپ رہے ہیں کہ جناب الطاف حسین آئین کو نہیں مانتے ، جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے تو میں سمجھتا ہوں وہ آئین اور جمہوریت دونوں سے مقدس و معتبر جمہور پر یقین رکھتے ہیں ۔پاکستان کی تاریخ کا غور سے مطالعہ کریں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک صرف اور صرف ایک مخصوص اشرافیہ کیلئے معرضِ وجود میں آیا تھا اور آج تک اُسی کے تصر ف میں ہے ۔سو ورکنگ کلاس کی لیڈر شپ ابھی تک اُن مستقل حکمرانوں اور اُن کے کاسہ لیسوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔
جن کو یہ گمان ہے کہ ہم نے برطانیہ سے آزادی لی تھی انہیں یہ احساس کیوں نہیں ہوتا کہ انتہائی غیر محسوس طریقے سے اُس وقت کی ہندو قیادت نے اپنے اُس رستے پر ہمیشہ کیلئے آپ کو حفاظت کیلئے مامورکردیا ہے جہا ں سے سینٹرل ایشیا کے جنگجو داخل ہوتے تھے ۔ہندو ایک ہزار سال کی غلامی کے بعد صرف 66 سالوں میں دنیا کی بڑی ریاستوں میں شامل ہو گئے ہیں اور ہم جو ایک ہزار سال کی حکمرانی کی نرگیسیت میں مبتلا ہیں آج انہی ازبکوں ،تاجکوں ، چیچنوں اور افغانوں کی زد میں ہیں ۔میں کبھی کبھی اس بات پر بہت غور کرتا ہوں کہ جب سراج الدولہ بنگال میں اور ٹیپو سلطان میسور میں برطانوی سامراج کے خلاف برسرِ پیکارتھے تو یہ اپنے اٹک سے لے کرچناب تک کے درمیانی علاقے کے جوان کیاکررہے تھے ؟
جس طرح کبھی سینٹرل ایشیا کے جنگجوؤں کو تختِ دہلی تک پہنچنے کیلئے ہمارے کچھ علاقوں سے کمک ملتی تھی اسی طرح اب اُن جنگجوؤں کے جانشینوں کو اینکرز ،کالم نویس اور عطائی دانشور میسر آگئے ہیں ۔آپ دور کیوں جاتے ہیں اپنے حامد میرکے بارے میں ہی ریسرچ کر کے دیکھ لیں، ایسے ایسے انکشافات سامنے آئیں گے کہ عقل دنگ رہ جائے گی۔ جو لوگ کل محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو گھیر کر طالبان کی سجائی مقتل گاہ میں لائے تھے شاید انہیں جناب الطاف حسین کانیا ٹاسک مل گیا ہے ۔انسان کے بنیادی حقوق میں حقِ نقل مکانی کا ذکر صاف اور واضح الفاظ میں ہے ۔دنیا کا کوئی شخص بھی اپنی آزاد مرضی اورمنشاء سے کہیں بھی رہ سکتا ہے ۔جب جناب الطاف حسین کی سیاسی تنظیم انہیں نہیں بلوا رہی تو پھر آپ کے ایجنڈے پر جناب الطاف حسین کو بلوانا کیوں سرفہرست ہے ؟مسلح افواج نے سیلاب ،زلزلہ اور قدرتی آفات سمیت ہر کڑے اور مشکل حالات میں انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجا م دیا ہے ۔اگر قومی سلامتی وبقاء کو درپیش خطرات میں جناب الطاف حسین منتخب حکومت اور مسلح افواج کوایک پیچ پر آنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو کیا غلط ہے ؟اگر حکومت اور پاک فوج قومی سلامتی کیلئے یکسوہوجاتے ہیں تو پھر ٹیک اوور کا آپشن کہاں باقی رہتا ہے ؟۔اس وقت کونسی ملک میں سیاسی تحریک چل رہی ہے جس میں جناب الطاف حسین نے فوج کو مداخلت کیلئے کہہ دیا ہے۔ جب پاکستانیوں سے گولی کی زبان میں بات کی جا رہی ہے اورمنتخب حکمراں نجانے مذاکرات کے رومانس سے باہر آنے کو تیارکیوں نہیں تو پھر ایک پاکستانی کس سے مدد کاطلب گار ہو ؟ کیانیٹوافواج سے ؟ ۔
ابھی کل کی بات ہے جب حامد میرایک طلباء تنظیم کے دوستوں کے ساتھ رہا کرتے تھے اوران پر لکھی جانے والی کتاب ’’حامد میرکہانی ‘‘جس میں انہوں نے اپنے کچھ دوستوں کا ذکر کیا ہے اور باقی کے ذکر سے اجتناب برتا ہے۔اُن میں سے بھی ایک بڑی تعداد آج ہم میں موجود نہیں ہے ۔یہی ہیں وہ ابتدائی حالات ہیں جن میں حامد میر کی نفسیات نے پرورش پائی ہے۔ جہاں تک ’’حامد میر کہانی ‘‘ کی کتاب کا تعلق ہے تو اگر آپ کو کبھی یہ کتاب پڑھنے کاموقع ملے توآپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ 007 کی کوئی جاسوسی فلم دیکھ رہے ہیں ۔ جس میں وہ محترمہ کو بھی ’’سمجھاتے‘‘ ہوئے نظر آ رہے ہیں اور جرنیلوں کے رازوں سے بھی یوں پردہ اٹھا رہے ہیں جیسے یہ سب کچھ اُن کی آنکھوں کے سامنے ہوا ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ جب 2005 ء میں پاکستان آرمی نے فاٹا معاہدہ کیا تو حامد میر نے بقول وکی پیڈیا اسے ’’سوکالڈ ‘‘کہا جس پراُس وقت فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے انہیں غدار کہا ۔ جنرل مشرف نے انہیں طالبان کا ہمدرد کہا ،شیخ رشید نے غدار اور بکاؤنہ جانے کیا کیا کہا ،حکیم اللہ محسود کے سیکنڈ اِن کمانڈ عثمان پنجابی سے گفتگو اور خواجہ خالد کے حوالے سے اغواء کرنے والوں کو مشتعل کرنے کی کیسٹ منظرِ عام پر آچکی ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ایف سی کے 23 اہلکاروں کی شہادت کے ذمہ دار بھی حامد میر ہیں کیونکہ جب حامد میر نے اپنے پروگرام میں طالبان کے کچھ ساتھیوں کے پشاور میں فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر کیا تو طالبان نے مشتعل ہو کر 23 ایف سی اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ کرنل امام اور خالد خواجہ کے ورثاء تو حامد میر کے خلاف کارروائی کے لئے عدالت پہنچ گئے تھے دیکھتے ہیں ایف سی اہلکاروں کے ورثاء کب پہنچتے ہیں۔
جناب ظہیرؔ کاشمیری نے کیا خوب کہا ہے ، 
سیرت نہیں تو عارض و رخسار سب غلط 
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا 
مجھے تو پاکستانی قوم پرحیرت ہوتی ہے جو اُس شخص کو پڑھتی اور سنتی ہے جس کے والد نے پاکستانیوں کے متفقہ علیہ غدارشیخ مجیب الرحمان کی بیٹی سے 1971 ء میں فوج کی مخالفت کرنے پر بنگلہ دیش کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ وصول کیا اور جس کے بیٹے نے بھارت سے مہارشی سمان ایوارڈ وصول کیا ، وہ طالبان کا ساتھی سمجھا جاتا ہے لیکن کچھ طالبان اُسے سی آئی اے کا ایجنٹ گردانتے ہیں ،جس شخص کوتلاش کرنے کیلئے امریکہ ہمارے شمالی علاقہ جات میں خون کی سونامی لے آیا اور ہمالہ سے اونچے لاشوں کے انبار لگا دئیے، کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ حامد میر اُس کا انٹرویوکرکے خیرو عافیت سے گھر لوٹ آتے ہیں لیکن نہ تو انہیں امریکہ پوچھتا ہے اور نہ ہی پاکستان کا کوئی مقتدر ادارہ ۔اُن کا رہن سہن اورموجود وسائل اُن کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے ،مگر اس کے باوجود وہ پارسا ہیں ،آصف علی زرداری اُنہیں ملازمت سے بھی نکلواتے ہیں اور تمغہ ء امتیاز سے بھی نوازتے ہیں ، وہ امریکہ کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور امریکی دورے بھی ،مگر آپ بے فکر رہیں ، بقول حامد میر ،سب مسائل حل ہوجائیں گے اگر جناب الطاف حسین پاکستان آجائیں ۔