کیا میں غدارہوں۔۔۔؟
جنرل پرویزمشرف کا قوم سے سوال
( مصطفےٰؔ عزیزآبادی)
اپنے دل کی عدالت میں حاضر ہوئے
اے وطن آج تجھ سے سوالی ہوں میں
میں سپاہی ترا یا ہوں حرفِ غلط
تیرا عنواں یا نقشِ خیالی ہوں میں
میرے محبوب، میرے وطن یہ بتا
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
میرے اجداد نے اس وطن کے لئے
اپنا گھربار، سب کچھ ہی قرباں کیا
اس نشیمن کی تعمیر کے واسطے
اپنا خوں، مال و زر صدقہء جاں کیا
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہلِ چمن
کہ میں غدار ہوں، کیا میں غدار ہوں؟
مجھ کو اس دیس میں غیر سمجھا گیا
میں نے اپنوں سے ہجرت کے طعنے سنے
پھر بھی میں نے ہر اک بات کو بھول کر
اس چمن کی بہاروں کے سپنے بنُے
اس کی خاطر ہی ہر دکھ اٹھاتا رہا
یہ خطا ہے مری تو خطاکار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
اپنے خوابوں کے پیارے وطن سے مجھے
کل بھی تھا عشق اور آج بھی عشق ہے
اپنے احباب، اپنے چمن سے مجھے
کل بھی تھا عشق اور آج بھی عشق ہے
وہ جو سرمایہء زندگی ہے مرا
اس محبت میں اب تک گرفتار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
اپنے پیارے وطن کے دفاع کے لئے
سربکف میں تو ہر معرکہ میں رہا
تھی شہادت ہمیشہ مری آرزو
ہر جگہ موت کا سامنا ہی کیا
اپنے اس پہلے اور آخری عشق میں
آج بھی جان دینے کو تیار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
جب تھیں چاروں طرف گردشیں، مشکلیں
میں نے بڑھ کر وطن کو سنبھالا دیا
ہم تو رسوا تھے دنیا کی ہر بزم میں
میں نے گرتا ہوا نام اونچا کیا
ملک کو میں نے سب پر مقدم کیا
ہے یہی جرم تو میں سزاوار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
نامِ جمہور پر جو وطن کھا گئے
میں نے ایسے لٹیروں کی تعذیر کی
کس طرح ملک وملت کی تعمیر ہو
روز و شب میں نے بس یہ ہی تدبیر کی
میرا مقصد تھا تزئینِ صحنِ چمن
بس اسی بات کا میں گنہگار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
اے وطن جو کیا تیری خاطر کیا
میرا جو کچھ بھی ہے وہ ترے نام ہے
دوڑتی ہے رگوں میں محبت تری
تیری مٹی میں ہی میرا انجام ہے
تیری الفت میں سب کچھ لٹاتا رہا
جو بچا ہے لٹانے کو تیار ہوں
کیا میں غدار ہوں؟ کیا میں غدار ہوں؟
مصطفےٰؔ عزیزآبادی
( لندن )
7 اپریل 2014ء