نئے راستے کی سوچ
قائد تحریک الطاف حسین کا فکر انگیز لیکچر
حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو ہردور میں حالات کے جبر۔۔۔مصائب ومشکلات ۔۔۔اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آنے والی نسلوں کی بقاء اور حقوق کی جدوجہد کی راہ میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں تاہم جو لوگ اپنے مشن ،مقصد ، نظریہ اور کاز پر یقین رکھتے ہیں اورتمام ترحالات کے باوجود ثابت قدمی سے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں تو کامیابی ان کامقدر بن جایا کرتی ہے۔
مایوسی کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔۔۔دین اسلام میں بھی مایوسی کو کفر قراردیا گیا ہے ۔جب آنے والی نسلوں کی بقاء ، سلامتی اور حقوق کی جدوجہد کرنے والی کوئی قوم۔۔۔گروہ۔۔۔یا جماعت کو حق پرستانہ جدوجہد کی پاداش میں ہرمحاذ پر چاروں جانب سے اس طرح گھیر لیاجائے کہ اس کے بچنے بچانے کاکوئی راستہ ہی باقی نہ رہے ۔ ان حالات میں کوئی گروہ، قوم یا جماعت مایوسی کا شکار ہوجائے اور اجتماعی خودکشی کا راستہ اختیار کرکے یہ سمجھنے لگے کہ ایسا کرنے سے اسے تھوڑی کم تکلیف ہوگی۔۔۔ اور وہ مرجائے گی۔۔۔ لیکن کسی بڑے خطرے یا بڑی تکلیف سے بچ جائے گی ۔۔۔توایسی سوچ رکھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ ہم بہت زیادہ جسمانی کرب واذیت میں مبتلا ہوئے بغیر موت کے منہ میں جا پہنچیں لیکن کرب و اذیت سے فرار، آرام دہ موت یا کم تکلیف دہ موت میں پوری قوم کو مکمل تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یعنی کوئی گروہ ، قوم یا جماعت اس لئے کم تکلیف میں مرنا پسند کرتی ہے کہ وہ زیادہ کربناک ، اذیت ناک اور المناک موت سے بچ سکے لہٰذا وہ کم تکلیف دہ موت یعنی خودکشی کا راستہ اختیارکرتی ہے جبکہ ایسا راستہ اختیار کرنے والوں کیلئے revival کاکوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ دوسری صورت میں سوچ کا زاویہ یہ بنتا ہے کہ کوئی گروہ، قوم یا جماعت کم تکلیف دہ موت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے اگر کرب واذیت کا راستہ اختیار کرکے جدوجہد کی راہ میں آنے والی مشکلات ، تکالیف اور ظلم وستم کو برداشت کرنے کا حوصلہ پید اکرلیتی ہے اور مایوس ہوئے بغیر اپنی جدوجہد جاری رکھتی ہے تو اس راہ میں کرب واذیت کو برداشت کرنے والے بہت سے افرادتو اپنی جانیں قربان کردیتے ہیں لیکن اس جدوجہد میں بچ جانے والوں کے پاس اپنی قوم کی revival کیلئے ذہن موجود ہوتا ہے اور یہ بھی عین ممکن ہوتا ہے کہ وہ مصائب ومشکلات میں گھری قوم، جماعت یا گروہ کے revival کاکوئی راستہ تلاش کرلیں۔ایسی صورت میں قوم کے بچنے کا ایک راستہ پھر بھی نظرآتا ہے ۔ زندہ قومیں جب چاروں طرف سے گھرجاتی ہیں ۔۔۔ان کیلئے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا تو بیدار اور غوروفکر کرنے والے لوگ عملی جدوجہد کرکے اپنی اوراپنی قوم کی بقاء وسلامتی کیلئے غوروفکر کرکے انہی بند راستوں میں سے کسی نئے راستے کو کھولنے کی تدبیر اختیار کرسکتے ہیں اور نئے راستے کو کھولنے کا طریقہ کار بھی ایجاد کرسکتے ہیں اور عملی جدوجہد کرکے اس بچاؤ والے راستے کو اختیارکرکے بچ بھی سکتے ہیں۔ حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کویہ نہیں بھولنا چاہیے کہ نئے راستے کی سوچ اسی وقت بیدار ہوتی ہے جب پرانے تمام راستے بند ہوجایا کرتے ہیں۔
جب کوئی قوم کٹھن اوردشوارگزارحالات اورمصائب و مشکلات کا شکار ہو اور قوم کے بچاؤ کی کوئی صورت نہ ہو اور اسے ان حالات سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے توایسی صورت میں مایوس ہونے اورتھک ہار کر بیٹھ جانے کے بجائے غور و فکر کے ذریعے نیا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہم جن حالات میں رہ رہے ہیں ۔۔۔جن حالات کا ہم برسوں سے شکار ہیں۔۔۔برسوں سے جن حالات کے جبر کا سامنا کررہے ہیں ۔۔۔ اور جن مسائل ومشکلات اوراذیتوں کوہماری قوم جھیلتی چلی آرہی ہے ان کٹھن اور دشوار گزار حالات میں فرار کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیں نہ تو منزل ملے گی اور نہ ہی پوری قوم کے بچاؤ کا راستہ نکل سکتا ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ ہم راہ فرار اختیار کرنے ۔۔۔اور مایوس ہونے کے بجائے انہی حالات میں رہتے ہوئے قوم کے بچاؤ کے لئے غوروفکر کرکے نیا راستہ تلاش کریں۔ نئے راستے کی سوچ ہی نئی راہیں کھول سکتی ہے اور ہمیں موجودہ حالات سے نکال کر منزل کی طرف لے جاسکتی ہے۔