سانحہ 31 اکتوبر1986ء پختون مہاجرفساد کرانے کی سازش تھی۔اس سازش میں آئی ایس آئی کاہاتھ تھا.الطاف حسین
پاکستان میں مہاجروں کا قتل عام کیاجاتارہا ہے لیکن31، اکتوبر1986ء کو سہراب گوٹھ کراچی اور مارکیٹ چوک حیدرآباد میں ایک سانحہ رونما ہوا جس میں پاکستان کی فوج اورآئی ایس آئی نے باقاعدہ مہاجروں کا اعلانیہ قتل عام کاآغاز کیا ۔ بدقسمتی سے اس سانحے کے بارے میں صوبہ پنجاب ، صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ بلوچستان اور اندرون سندھ کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کو سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ 38 سال قبل کس طرح کراچی اورحیدرآباد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے مہاجروں کو قتل کیاگیا ۔
8، اگست1986ء کو ایم کیوایم کاپہلا عوامی جلسہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے نشترپارک کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ثابت ہواتھا ۔ اس جلسہ کی کامیابی کے بعد سندھ کے دوسرے بڑے شہرحیدرآباد کے کارکنوں اورعوام کے مطالبے پر31، اکتوبر1986ء کو حیدرآبادکے پکا قلعہ گراؤنڈ میں ایم کیوایم کا دوسراعوامی جلسہ منعقد کیا۔ وہ جلسہ حیدرآباد کی تاریخ کاسب سے بڑا جلسہ ثابت ہوا ۔
پکاقلعہ کے جلسہ عوام کے سلسلے میں کراچی میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپس لگائے گئے تھے جہاں ایم کیوایم کے تنظیمی ترانوں سے علاقوں میں جشن کاسماں دیکھنے میں آرہا تھا ۔ایم کیوایم کے تنظیمی ترانوں نے شہربھرمیں عوامی جوش وخروش کاماحول پیداکردیاتھا۔ پکاقلعہ کے جلسہ سے ایک دن قبل یعنی 30 اکتوبر1986ء کو شام 5 یا6 بجے نائن زیروپراس وقت کے ڈپٹی کمشنر ایسٹ اشفاق میمن نے فون کرکے مرکزی کمیٹی کے ارکان سے کہاکہ ڈی سی ایسٹ کے آفس میں ایک میٹنگ ہے اپنے نمائندوں کو بھیج دیں ۔یہ میٹنگ ڈپٹی کمشنراشفاق میمن کے دفترمیں ہوئی جس میں سہراب گوٹھ کے پشتون عمائدین بھی شریک تھے ۔میٹنگ میں ڈی سی ایسٹ اورپختون عمائدین کی جانب سے خدشہ ظاہرکیاگیا ہے کہ کراچی سے حیدرآبادجانے والاجلوس سہراب گوٹھ پرحملہ کرے گا۔ یہ سن کرہمیں بہت تشویش ہوئی کہ ہم کراچی سے 100 میل دور اپنے جلسے میں شرکت کیلئے جارہے ہیں ،ہم کسی علاقے پر حملہ کرکے اورکسی سے لڑائی جھگڑا کرکے اپنا جلسہ کیوں خراب کریں گے ؟
ایم کیوایم کی جانب سے اخبارات میں یہ اعلان ہوچکاتھا کہ 31، اکتوبر کو صبح 11 بجے ایم کیوایم کے قافلے عائشہ منزل فیڈرل بی ایریاسے واٹرپمپ چورنگی کے راستے روانہ ہوں گے اورسپرہائی وے کے راستے حیدرآباد جائیں گے۔ الطاف حسین اس جلوس کی قیادت کریں گے ۔
ڈسٹرکٹ ایسٹ کا ڈپٹی کمشنر اشفاق میمن آئی ایس آئی کاایجنٹ تھا اور اس نے آئی ایس آئی کی سازش کے تحت یہ منصوبہ بندی کررکھی تھی اور اسی منصوبہ کے تحت وہ میٹنگ بلائی گئی تھی ۔آئی ایس آئی کا منصوبہ یہ تھا کہ سہراب گوٹھ پر حملے کے خدشے کی آڑ میں مجھ پر اورجلوس کے شرکاء پرقاتلانہ حملہ کرکے شہرمیں پختون مہاجرفسادات کرائے جاسکیں ۔ ہم نے فوری طورپر شہربھرمیں ایم کیوایم کے تمام ذمہ داران اورکارکنان تک سینہ بہ سینہ یہ پیغام پہنچادیا کہ سہراب گوٹھ سے گزرتے ہوئے کسی بھی قسم کی کوئی نعرے بازی نہ کی جائے ۔
رات 2 بجے تک مجھے بے چینی رہی اور میں سوچتا رہا کہ اس سازش کو کس طرح ناکام بنایاجائے ، پھر قدرت نے میرے ذہن میں یہ خیال ڈالا کہ سہراب گوٹھ کے مقام پر جلوس پر حملے کی سازش کی گئی اور مجھے کھلی گاڑی میں گولی مارکرخدانخواستہ قتل بھی کیاجاسکتا ہے یا جلوس میں گڑبڑ کرکے ہمارا جلسہ خراب کیاجاسکتا ہے لہٰذا میں نے اسی وقت حیدرآباد کے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ فوری طور پر حیدرآباد میں واقع ہوٹل میں پانچ چھ کمرے بک کرالیں۔اس کے بعدمیں ،زرین مجید باجی اور ڈاکٹرعمران فاروق کے ہمراہ صبح 5 بجے خاموشی سے حیدرآباد کیلئے روانہ ہوگیا ۔ صبح 7 بجے کے قریب ہم حیدرآباد پہنچے اورہوٹل میں قیام کرلیا۔ وہاں ہم نے آپس میں مشورہ کرکے روزنامہ جنگ اورروزنامہ ڈان سمیت چارپانچ سینئر صحافیوں کو بلوالیا تاکہ وہ بھی گواہ رہیں کہ ہم کب سے حیدرآباد میں ہیں ۔
جب حیدرآبادجانے والا ایم کیوایم کاجلوس سہراب گوٹھ کے مقام پر پہنچااور سازشی عناصر کو کسی بھی گاڑی میں الطاف حسین نظرنہیں آئے ۔ اسی دوران ایک گاڑی تیزی سے وہاںسے نکلی تو آئی ایس آئی کے ایجنٹوں نے یہ سمجھ کر کہ اس گاڑی میں الطاف حسین ہوسکتے ہیں، اس کاراوربسوں پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ایم کیوایم کے سات کارکنان موقع پر ہی شہید اور درجنوں ساتھی شدیدزخمی ہوگئے ۔ کراچی سے آنے والے جلوس پر حیدرآبادمیں مارکیٹ چوک پربھی ایک پٹھان کے ہوٹل سے فائرنگ کی گئی ہے اور یہاں بھی6 ساتھی شہید اورکئی زخمی ہوگئے ہیں ۔ یہ پٹھان مہاجر فسادات کی سازش کامنصوبہ تھا اسی لئے حیدرآبادمیں فائرنگ کیلئے ایک پٹھان کے ہوٹل کو چنا گیا۔ میں نے اپنی تقریر میں جلوس پر فائرنگ کا تذکرہ تک نہیں کیا ۔ اگر میں جلسہ عام میں یہ کہہ دیتا کہ کراچی میں سہراب گوٹھ اورحیدرآباد میں مارکیٹ چوک پرہمارے جلوس پر پٹھانوں نے فائرنگ کی ہے تو کراچی اورحیدرآباد میں پختون مہاجر فسادات پھوٹ پڑتے ۔
اس دوران کراچی میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے اور آئی ایس آئی والوں نے کراچی میں پٹھان مہاجر فسادکی جھوٹی خبریں پھیلانی شروع کردیں تھیں ۔ اگلے روزمیں کراچی کیلئے روانہ ہوا تاکہ کراچی جاکر صورتحال کو کنٹرول کیاجائے اور فسادات کوروکاجاسکے ۔علی الصبح میں نیشنل ہائی وے کے راستے حیدرآباد سے کراچی کے لئے روانہ ہوا گھگھرپھاٹک کے مقام پرپولیس نے مجھے گرفتارکرلیا۔ مجھے پولیس اسٹیشن لے جایاگیا جہاں ڈی سی ایسٹ اشفاق میمن نے کہا کہ آپ لوگوں نے کراچی اور حیدرآبادمیں پختونوں پر فائرنگ کی ہے ، آپ اس جلوس کی قیادت کررہے تھے اور آپ ہی نے اپنی جیپ رکواکر فائرنگ کرنے کا اشارہ کیاتھا۔ میں انہیں بتاتا رہا کہ میں تو صبح سات بجے حیدرآباد پہنچ چکا تھا جس کے گواہ بھی موجود ہیں ۔ میرے خلاف مقدمہ قائم کردیاگیا،مجھے گرفتارکرکے پہلے کلاکوٹ تھانے میں رکھاگیا پھر وہاں سے بلدیہ کمپلیکس سینٹرمیں شفٹ کردیاگیا۔ ایم کیوایم کے ذمہ داران مجھے تلاش کرتے رہے۔انہوں نے تمام پولیس اسٹیشن، اسپتال حتی ٰ اسپتالوں کے مردے خانے تک چیک کئے ، پولیس اورانتظامیہ والے میری گرفتاری سے انکارکرتے رہے ۔انہوں نے مجھے لاپتہ کردیاتھا ۔ مجھے17 دن تک ایک جنگل بیابان میں آئیسولیشن میں رکھاگیا جہاں مجھ پر17دن تک بدترین ٹارچرکیاجاتارہا ۔ جب میری بڑی بہن محترمہ سائرہ بیگم اورچھوٹے بھائی اسرارحسین نے ہائی کورٹ میں میری گرفتاری اور گمشدگی کے خلاف پٹیشن دائر کی تو 17دن بعدمیری گرفتاری ظاہر کرکے مجھے کراچی سینٹرل جیل منتقل کیاگیا۔ جب میں مجھے جیل منتقل کیا گیا تو وہاں مجھے پتہ چلاکہ ایم کیوایم کے پانچ ہزار سے زائد کارکنان کو گرفتارکرکے جیل میں قیدکیاگیاتھا۔
میں، کراچی سینٹرل جیل میں اسیر تھاکہ اس دوران 14 دسمبر1986ء کو سانحہ قصبہ علیگڑھ رونماہوگیا۔ قصبہ کالونی اورعلی گڑھ کالونی کی پہاڑیوں سے مسلح افراد اترے ،جنہوں نے گھروں کو لوٹ کرآگ لگائی اوروہاں قتل وغارتگری کابازارگرم کیا۔چھ گھنٹے تک قصبہ کالونی اورعلی گڑھ کالونی میں مہاجروں کا قتل عام ہوا لیکن کوئی انہیں بچانے نہیں آیا۔مہاجروں کے اس وحشیانہ قتل عام کوبھی ایک سازش کے تحت پختون مہاجر فساد کارنگ دینے کی کوشش کی گئی۔میری کوشش رہی کہ کسی طرح پختون مہاجر فساد کی سازش کوناکام بنایا جاسکے ۔ ان دنوں جیل میں اے این پی کے ایک رہنما ڈاکٹر اسلم جان سے میری ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے مشورہ کرکے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان صاحب کے نام ایک تفصیلی خط لکھاجس میں ،میں نے پختون مہاجرفساد کی سازش کی پوری داستان لکھ دی تھی ۔ایم کیوایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق مرکزی کمیٹی کے ارکان کے ہمراہ ولی باغ پہنچے ،انہوں نے میرا خط ولی خان صاحب کو دیا۔ میرے اس خط کوپڑھ کرولی خان صاحب آبدیدہ ہوگئے اورپختون مہاجر فساد کی سازش کی تفصیلات سن کرسرپکڑ کربیٹھ گئے ۔ ولی خان صاحب پٹھان مہاجرفسادات کی سازش کو سمجھ گئے اورہماری مشترکہ کوششوں سے پختون مہاجر فساد کی سازش ناکام ہوگئی۔
اس کے بعد ہم نے ولی خان صاحب اورعوامی نیشنل پارٹی کی قیادت کو نائن زیروپر استقبالیہ دیا۔اس استقبالیہ میں ولی خان صاحب نے ایک تاریخی بات کی کہ اگراب کوئی مہاجرقتل کیاجائے گاتوولی خان اسے اپنے سینے پر گولی تصورکرے گااوراگرکوئی پختون قتل کیاجائے گاتوالطاف حسین اسے اپنے سینے پر گولی تصورکرے گا۔ اس کے بعد کراچی میں پختونوں اورمہاجروں کے درمیان کشیدگی کاخاتمہ ہوااوراس کے بعد کوئی فسادنہیں ہوا۔
میں آج 31 اکتوبر 1986ء کے شہداء کی 38ویں برسی پر اپنے کارکنوں سے کہتاہوں کہ یہ آپ کومیراحکم ہے کہ اگرآئندہ کوئی لسانی فسادات کرانے کی کوشش کرے تو اس سازش کوہرقیمت پر ناکام بنادیں اورآپس میں بھائی چارہ برقرار رکھیں۔
آج سانحہ سہراب گوٹھ کراچی اورمارکیٹ چوک حیدرآبادکے شہداء سمیت تمام شہداء کوخراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام شہداء کو اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے اورشہداء کے لواحقین کوصبرجمیل عطا کرے ۔ آمین ثمہ آمین
الطاف حسین
144 ویں فکری نشست سے خطاب
31، اکتوبر2024ئ