لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق قانون سازی کی جائے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ
ہمارے پیاروں کو گھروں اور دفاتر سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیاجن کا آج تک کچھ علم نہیں ہے
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری لاپتہ افراد کے مسئلے پر سپریم کورٹ میں موجود آئینی درخواست پر جاری احکامات پر فوری عمل درآمد کرائیں
اقوام متحدہ کے تحت’’ لاپتہ افراد کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر کراچی پریس کلب میں ایم کیوایم کے لاپتہ کارکنان کے اہل خانہ کی پریس کانفرنس
کراچی۔۔۔30اگست 2013ء
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے جانب سے گرفتاری کے بعد لاپتہ ہونیوالے متحدہ قومی موومنٹ کے 33سے زائد کارکنان کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کاکارکن ہوناجرم بنادیاگیاہے،ہمارے پیاروں کوگھروں اوردفاترسے گرفتارکرکے لاپتہ کر دیا گیا جن کاآج تک کچھ علم نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ 18 سال ہوگئے ہیں ہمیںیہ بھی نہیں بتایاجارہاہے کہ ہمارے پیارے کس حال میں ہیں آیا وہ زندہ بھی ہیں یا مار کر کہیں دفنا دیا گیا ہے؟ا نہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ لاپتہ افرادکی بازیابی کیلئے اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق قانون سازی کی جائے، انہیں فی الفوربازیاب کرایاجائے اورلاپتہ افراد کی تعدادمیں مسلسل اضافے کانوٹس لیا جائے۔انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمدچوہدری سے اپیل کی کہ وہ لاپتہ افرادکے مسئلے پرسپریم کورٹ میں موجودآئینی درخواست پرجاری احکامات پر فوری عمل درآمدکرائیں۔یہ مطالبات اوردرخواستیں انہوں نے 30؍اگست کودنیابھرمیں اقوام متحدہ کے تحت منائے جانیوالے’’ لاپتہ افرادکے عالمی دن‘‘ کے موقع پر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران کیے۔اس موقع پران کے ہمراہ لاپتہ کارکنان ارشد الدین، محمد سعید، فاروق احمد،غلام ذیشان بلوچ،عثمان علی ، سید گوہرانیس،مرزاسلیمان بیگ،اشفاق احمد،آصف جمیل،شیخ نورعالم،مرتضیٰ توصیف، ظفراحمد، ظفیرخان، انور انصاری، محمد جاوید ،فقیرمحمد،عبدالعلیم،عقیل خان، مزمل حسین ، محمد،ریاست علی، محمدشفیع خان، اقبال مسلم ،سلیم رضا،محمدعمران،عبدالرحیم، آصف احمد،عبیدراشد،غلام رسول، کے اہل خانہ جن میں ان کی بیگمات،معصوم بچے، بچیاں، بزرگ والدین، بہنوں اوربھائیوں سمیت دیگراہل خانہ موجود تھے جنہوں نے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصاویراٹھا رکھی تھی اوروہ انتہائی دکھی اور پریشانی کے عالم میں حکومت کے سامنے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے فریادیں کررہے تھے اس موقع پربعض خواتین اپنے پیاروں کی عدم بازیابی پرشدیدآبیدہ ہوگئی جنہیں موقع پر موجود ذمہ داران نے دلاسہ دیا۔قبل ازیں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بابر انیس، گل منیربلوچ اوردیگرنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ1992ء کے کراچی آپریشن کے دوران برسراقتداراستحصالی طبقے نے ریاستی طاقت کے زور پر کراچی کے 28افرادکوزبردستی غیرقانونی حراست میں لیکرغائب کردیاتھاابھی یہ مسئلہ حل بھی نہیں ہواتھاکہ 2013ء میں ایم کیوایم کے مزیدپانچ کارکنان کوبعدازحراست غائب کردیاگیااورایک بارپھراس طرزکے آپریشن کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے تحت منائے جانے والے اس عالمی یوم برائے لاپتہ افرادکے موقع پرکراچی کے لاپتہ افرادکے اہل خانہ پاکستان سمیت دنیا بھرکے لاپتہ افرادکے اہل خانہ سے اظہاریکجہتی کرتے ہیں اورانہیں دعوت دیتے ہیں کہ آئیے ہم سب رنگ ونسل ذات پات اورقومیت کے تفرقے میں جائے بغیراس خالص انسانی ہمدردی کے مسئلے کے حل کیلئے مشترکہ جدوجہد کریں تاکہ اگرہم نہیں تو ہماری آئندہ آنیوالی نسلیں ایک صحت مندمعاشرے کاحصہ بن سکیں۔انہوں نے کہاکہ انسانی تاریخ انسانیت سوزمظالم سے بھری پڑی ہے مگر کسی فردیاافرادکوبزورطاقت غائب کردینانہایت ہی سنگین جرم ماناجاتاہے اورمہذب معاشروں میں اس بات کا تصوربھی سنگین جرم کے مترادف ہے اوریہی وجہ ہے کہ18دسمبر1992ء کواقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراردادنمبر47/133منظورکی جس کے تحت ریاست کے ہرفرد کو زبردستی گمشدگی سے مکمل تحفظ فراہم کیا جائیگا اوراقوام متحدہ کے چارٹرکا دستخط کنندہ ہونے کی حیثیت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اس قراردادپرعمل کرنے کاپابندہے۔انہوں نے کہاکہ جب کسی گھرکاکوئی فردانتقال کرجائے تواس کے گھروالوں کوصبرآناقدرتی فعل ہے مگرجب کوئی فردگرفتارکرکے لاپتہ کردیاجائے جواس کے اہل خانہ کومسئلے کے حل تک صبرنہیںآسکتا،آج یہاں موجودکراچی کے لاپتہ افرادجن میں ایم کیوایم کے کارکنان کے اہل خانہ کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ 17اور18سال گزرنے کے بعدبھی وہ اپنے پیاروں کی تلاش میں دربدربھٹکنے پرمجبورہیں انہیں اس بات کا جواب آج بھی مطلوب ہے کہ کیاان کے پیاروں کاایم کیوایم میں ہونااتنابڑاجرم تھاکہ جس کی سزاانہیں عمربھربھگتنی پڑے گی۔انہوں نے کہاکہ وہ لاپتہ افرادکے عالمی دن کے موقع پرسپریم کورٹ آف پاکستان کے معززچیف جسٹس اوردیگرجسٹس صاحبان کے بھی نہایت شکرگزارہیں کہ انہوں نے نہایت نامساعدحالات میں بھی لاپتہ افرادکے مسئلے کوحل کرنے کابیڑہ اٹھایاہے اورروزانہ سماعت کی بنیادپراس مقدمے کی سماعت کررہے ہیں۔انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے پرزوراپیل کی کہ وہ ہماری زیرسماعت آئینی درخواست نمبرC.P.37/2007کی جلدازجلدسماعت کریں اور2013ء کے دوران لاپتہ ہونے والے مزیدپانچ کارکنان کو فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان کی بازیابی کیلئے بھی احکامات جاری کریں۔انہوں نے قائدتحریک جناب الطاف حسین کابھی تہہ دل سے شکریہ کیاکہ ان کی خصوصی توجہ کے باعث ایک بارپھراس خالص انسانی ہمدردی کے مسئلہ کواجاگرکرنے کاموقع ملا۔