’’علم ہر قید ہر رکاوٹ سے آزاد ہے‘‘
تحریر:قائدتحریک جناب الطاف حسین
ہم کتنا ہی علم کیوں نہ حاصل کرلیں تب بھی ہمارے علم کی حیثیت کائنات ، زمین اور آسمان کا علم رکھنے والے کے سامنے سمندر کے قطرے سے زیادہ نہ ہوگی ، کل کائنات کا علم رکھنے والی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے لہٰذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہوگا کہ علم خدا ہے اور خدا علم ہے اور جو علم کے حصول کے منکر ہیں وہ دراصل ذات باری تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں ۔ علم ایک ایسا شعبہ ہے جس کے حصول پر دنیا بھر کے ممالک کا کوئی قانون پابندی عائد نہیں کرتا ہے ، علم جغرافیائی حدود ، مذہبی تعلیمات ، مذاہب کے اصول و ضوابط و تعلیمات ، رنگ و نسل ذات و جنس کی تفریق سے آزاد اور بالاتر ہوتا ہے ۔ جو لوگ علم کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہیں وہ دراصل انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں ۔ بیشتر مستند روایات کے تحت جو پہلی وحی سرکار دوعالم ﷺ پر نازل کی گئی اسکا آغاز حصول علم کے درس سے ہی ہوتا ہے ( اقرء با سم ربک الذی خلق ، خلق الاسان من علق ) یعنی پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے خلق کیا ، تجھے پیدا کیا ۔۔۔ اس رب کے نام سے پڑھ ۔۔۔ پڑھنے کو علم کے لاکھوں اجراء میں سے ایک جزتو قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مکمل علم ہرگز قرا ر نہیں دیا جاسکتا بدقسمتی سے علمائے سو اور چند آیات اور چند احادیث پڑھ لینے والوں نے اپنی سوچ و سمجھ کے مطابق اقراء کے معنی صرف اور صرف ’’ پڑھ ‘‘ بتائے ہیں یعنی کہ "Read"اگر صرف لکھے ہوئے کو پڑھ لینے کے عمل کو علم قرار دے دیا جائے تو ہرخبر پڑھنے والے اس حساب سے دنیا کے نامی گرامی اور چوٹی کے عالموں کی صف میں شامل ہوتے ۔۔۔ خبریں پڑھنے والے ہی نیوٹن، ارشمیدس ، آئن اسٹائن ، گلیلیو ، افلاطون اور سقراط بنتے ۔ اقراء کے معنی لغوی اعتبار سے ’’ پڑھ ‘‘ کے نکالے جاتے ہیں لیکن بسااوقات ایک لفظ کے ڈکشنری یا لغت میں معنی وہی ہوتے ہیں مگر اس کی Spiritہوتی ہے کہ تلاش کرو ، ڈھونڈو ، سیکھو ۔ ہم نے اتنے عظیم لفظ کو جو خدا وندکی طرف سے آیا اس کو محدود کردیا تاکہ اس کے حصول معنی ، اس کا اصل مفہوم پس پشت چلا جائے اور صرف لغوی معنی سامنے آجائیں ۔ قرآن مجید میں ہے ’’ اور ہم نے تمہارے لئے زمین و آسمان کو مسخر کردیا اور اس میں نشانیاں ہیں علم والوں کے لئے‘‘۔ اب اس آیت میں یہ کہا ں لکھا ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں پڑھنے والوں کیلئے؟تو علم کا مقصد صرف پڑھنا نہیں ہے علم دراصل مخفی یعنی چھپے ہوئے اور پوشیدہ خزانے کو دریافت کرنے اور خدا نے جو ذہن عطا کیا ہے اسے استعمال کرنے کے معنوں میں آتا ہے کہ علم حاصل کرو یعنی غور کرو ، فکر کرو ، سوچو ، ۔۔۔ جو فرد بھی مسلک ، عقیدے یا جبر اور ظلم کے تحت طاقت استعمال کرکے علم کے حصول پر پابندی لگاتا ہے وہ انسانیت کا دشمن ہے اور ایسے فرد کو انسان کہنا لفظ انسان کی توہین ہے ۔ آپ نے شاید کتابوں میں پڑھا ہو یا بزرگوں سے سنا ہوگا کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو بیشتر علماء نے فتویٰ دیا کہ انگریزی غیر مسلموں کی زبان ہے ۔۔۔ اس زبان کو پڑھنا اور اس زبان کا جاننا اور اس زبان میں علم حاصل کرنا غیر شرعی ہے اور اب ایسے علماء کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ جب لوگوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ۔۔۔ تو بعض مولویوں نے فتوے دیئے کہ بچیوں کو اسکول نہ بھیجا کروبچیوں کا گھر سے باہر نکلنا ، تعلیم حاصل کرنا غیر شرعی ہے ، انہیں گھر میں دینی تعلیم دو ۔۔۔ دنیاوی تعلیم تو بیکار ہے کیونکہ دنیا ختم ہوجائے گی ۔۔۔ اصل جو کام آئیگی وہ دینی تعلیم ہے بدقسمتی سے آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے پاکستان میں ایسے علماء موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ دنیاوی علم حاصل کرنا بیکار ہے ، کیونکہ یہ علم تو دنیا کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہوجائیگا ۔۔۔ اصل علم تو دینی علم ہے وہ حاصل کرو جو آخرت میں بھی کام آئے گالہٰذا اب اس سوچ کو آپ کیا نام دیجئے گا ؟
علم ہر قید ہر رکاوٹ سے آزاد ہوتا ہے اسے غلامی میں تبدیل کرنے والے ظالم ، سفاک ، درندہ صفت انسان ہوتے ہیں جو بظاہر انسان ہوتے ہیں لیکن ان کا ہر علم حیوانیت کی عکاسی کرتا ہے ۔ ایک عجیب تماشہ ، ایک مذاق ، ایک انتہائی گھناؤنا ظلم ، جبر اور غیر شرعی بات ہے کہ ہمارے ملک میں فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ اور سردارانہ نظام آج بھی رائج ہے اور یہ جاگیردار، وڈیرے اور سردار اتنے طاقتور ہیں کہ یہ اپنی اپنی جاگیروں پر اسکول اوردیگر تعلیمی اداروں کو کھلنے نہیں دیتے ۔ بڑے بڑے دانشور ، اکابرین علم کے دعویدار ، ریڈیو ، ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے میں مذاکروں میں آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ilIiteracy (ناخواندگی )زیادہ ہے ، ہمارے ملک میں صحت کی سہولتیں کم ہیں ۔ ہمارے ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے ، تعلیم کاتناسب بہت کم ہے ، غربت زیادہ ہے ، لہٰذا حکومت کو یہ کرنا چاہیئے ،وہ کرنا چاہئے ، یہ دانشور ، اکابرین حصول علم کی راہ میں اصل رکاوٹ کا تذکرہ نہیں کرتے ایسا دانشور جو سچ کہہ نہ سکے کیا اسے دانشور قرار دیا جاسکتاہے؟ یہ اصل بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے ملک کی تمام تر بدحالی کا ذمہ دار فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ ، سردارانہ نظام ہے جو 65سالوں سے ملک میں رائج ہے اور دوسری طرف علمائے سو کی ایک طویل قطار ہے جو علم کی راہ میں رکاوٹ ہے ، ایسی صورتحال میں ملک میں نہ تو کبھی معاشی استحکام آئے گا نا ہی Literacy rateبڑھے گا ، نہ صحت عامہ کی سہولیات کبھی عام ہونگی ۔ ملک 65سالوں سے بھکاری ہے ۔۔۔ بھیک مانگتے مانگتے آدھا ملک فارغ ہوگیا اور بھیک مانگتے مانگتے خاکم بدہن کہیں یہ باقی ماندہ ملک بھی فارغ نہ ہوجائے؟ میرے پیغام کو پورے پاکستان کے پڑھے لکھے طلباء و طالبات تک پہنچائیے کہ وہ باقی ماندہ آدھے ملک کو بچائیں اور علم کی راہ میں جو ٹولہ رکاوٹ بنے اس سے نجات حاصل کریں ۔۔۔ جب مجھے یہ اطلاع ملتی ہے کہ فلاں کالج میں فلاں یونیورسٹی میں فلاں اسکول میں طلباء و طالبات نے یا طلبہ نے اساتذہ سے بدتمیزی کی اور ستم بالائے ستم یہ اطلاع کہ بہت سی جگہوں پر طالب علموں نے استاد پر ہاتھ اٹھایا تو جس قوم میں طلبہ و طالبات استادوں کی بے حرمتی کریں حتیٰ کہ ان پر ہاتھ تک اٹھائیں ایسا معاشرہ نہ صرف جاہل رہتا ہے بلکہ تباہ و برباد ہوجایا کرتا ہے ۔ جب یہ اطلاع ملتی ہے کہ طلباء و طالبات اپنے والدین سے تو تڑاک ہی نہیں کرتے بلکہ بیہودہ مغلظات بکنے تک میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے تو مجھے خوف آتا ہے کہ اس معاشرے کا مستقبل کیا ہوگا ، علم توآگہی ، فہم ، معاشرتی اقدار ، تہذیب اور ادب سکھاتا ہے ان صفات کے بغیر حاصل کیا جانے والا علم بالکل اسی طرح ہے جیسے گدھے کے اوپر کتابیں لاددینا ۔ میں جب جامعہ کراچی میں Pharmacyکا طالبعلم تھا تو میں نے APMSOکی بنیاد ڈالی اور آہستہ آہستہ وہ ترقی کرنے لگی تو آپ یقین کیجئے میں نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ آپ کو کسی بھی طلبہ تنظیم کے کارکنان گالی دیں ، بدتمیزی کریں ، جملے کسیں ۔۔۔ لیکن آپ جواب میں کچھ بھی نہ کہیں اور اگر کہنا ہو تو بس اتنا کہیں کہ اللہ آپ کو ہدایت دے لیکن فقرے بازی کے جواب میں تصادم مت کیجئے اور وہی لہجہ ۔۔۔ وہی بے ہودہ الفاظ جو کوئی آپ کے خلاف استعمال کرتا ہو آپ ہرگز وہ الفاظ استعمال نہ کیجئے ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہمارا پیغام پھیلنے لگا 78، میں تنظیم بنائی اور 81ئمیں جب ہم بہت تیزی سے پھیلنے لگے تو اسلامی جمعیت طلباء نے فیصلہ کیا کہ اب طاقت اور بندوق کے زور پر جامعہ کراچی سے ہمیں نکال دیں گے میں جامعہ کراچی میں موجود تھا اور مجھے اندازہ ہو چلا تھا ان کی حرکات و سکنات دیکھ کر لہٰذا ایک دن پہلے میں نے تمام ساتھیوں کا طلباء طالبات کا اجلاس کیا اور کہا جس وقت بھی جمعیت والے حملہ کریں آپ کو لڑنا نہیں ہے اگر وہ آپ کے اسٹالز جلاتے ہیں تو جلانے دیں آپ صرف اپنی جان بچاکر وہاں سے نکل جائیں ۔۔۔ وہ بزدل کہیں ۔۔۔ کہنے دیں آپ لڑئیے گا ہر گز نہیں ۔۔۔ تصادم مت کیجئے گا ۔۔۔ بالآخر 3فروری1981ء کو جمعیت والوں نے ہمارے ساتھیوں پر چاقوؤں ، ڈنڈوں ، لاٹھیوں اور پستولوں سے حملہ کیا کئی ساتھی ہمارے زخمی ہوئے ، سارے اسٹالوں کو آگ لگادی ، طالبات کے دوپٹے کھینچے ، اس سے پہلے یہ واقعہ ہوا کہ مجھے اشتعال میں لانے کی غرض سے میرے چاروں طرف جمعیت کے لوگ رقص کرنے لگے اور مغلظات بکنے لگے ۔۔۔ میں مسکراتا رہا ۔۔۔ ایک دو ساتھیوں کی تیوری پر بل آئے لیکن میں نے ان کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ نہیں صبر کرو ۔۔۔ صبر کرو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے صبر کرو اور کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں کیا ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ ہم تمام پر جو انہوں نے طاقت کے زور پر جامعہ میں داخلے پر پابندی لگائی تو اس کے بعد ہم دوبارہ پھر جامعہ کراچی نہیں جاسکے میں ایم فارمیسی میں تھالہٰذا میں ایم فارمیسی نہیں کرسکا ۔اگر جذبہ سچا ہو ، مقصد نیک ہو ، ارادے پختہ اور ٹھوس ہوں تو ضروری نہیں کہ آپ اپنے پیغام کو تعلیمی اداروں سے ہی پھیلا سکتے ہیں بلکہ آپ اس کو اور دیگر طریقوں سے بھی پھیلاسکتے ہیں ۔ بالآخر ہم نے گلی کوچوں میں آہستہ آہستہ کام شروع کیا اور آج جو شکل متحدہ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے یہ ہم 35سالہ طویل سفر اورمحنت کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ۔
میں آج بھی جواب میں صبر کرنے کا درس دوں گا اور کسی کی بھی زیادتی کے جواب میں کوئی کاروائی کرنے کا درس نہیں دوں گا ۔ مکافات عمل قانون قدرت ہے ، یہ مکافات عمل انشاء اللہ سامنے آئے گا اور اللہ آپ کو زندگی دے کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ’’ جب تخت گرائے جائیں گے ۔۔۔ سب تاج اچھالے جائیں گے ‘‘۔