بہت پہلے ایک شعر سنا تھا کہ ۔۔۔
اپنے تیور تو سنبھالوکہیں کوئی یہ نہ کہے
رت بدلتی ہے تو لہجے بھی بدل جاتے ہیں
یہ شعر ایم کیوایم کے موجودہ حالات کے حوالہ سے بعض اینکرپرسنز ، صحافیوں اور دانشوروں کے موجودہ طرزعمل، غیرپیشہ وارانہ انداز گفتگو اور ایم کیوایم سے ان کی نفرتوں کے انداز پر پورااترتا ہے ۔ایم کیوایم پر آزمائش کا مرحلہ آتے ہی صحافت کے پیشے سے وابستہ بعض ’’دوستوں‘‘ کے لب ولہجے ، انداز تخاطب اور تیوریوں پر پڑے بل دیکھ کر مذکورہ شعر تحت الشعور سے شعور میں آگیا۔خامیاں اورخوبیاں انسانی فطرت کا حصہ ہوتی ہیں اور فطرت کاتقاضا ہے کہ فطرت کا اظہار کیا جائے لیکن بعض یاران چمن آج بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایم کیوایم کے کارکنوں کوسانپوں کی فطرت کا اندازہ نہیں ہے حالانکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ڈسنا ،پلٹنا اور پلٹ کروار کرنا سانپوں کی فطرت ہے اوریہ فطرت سنپولوں اورسنپولیوں میں بھی ’’ بقدرجثہ‘‘ موجود ہوتی ہے۔
میری چشم نے وہ مناظردیکھے اورذہن ودل پر نقش ہیں کہ ایک وقت تھا جب مفادات کے غلام۔۔۔خواہشات کے اسیر۔۔۔نام ونمود کے شیدائی۔۔۔ٹی آرپی میں اضافے کے تمنائی۔۔۔اور ابن الوقت قسم کے بعض صحافی ، دانشور، کالم نگاراور اینکرپرسنزقائد تحریک جناب الطاف حسین سے بات کرنا ، ان سے انٹرویو کی خواہش کرنا، ملاقات کرنا اوران کے ہمراہ فوٹو بنوانااپنے لئے فخر تصورکیاکرتے تھے۔یہ معزز ومحترم حضرات اور آزادی صحافت کے علمبردار ایم کیوایم اور جناب الطا ف حسین کی منفرد سیاسی جدوجہد ، فکروفلسفہ اور اس جدوجہد کی راہ میں انگنت قربانیوں کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے تھے،فرسودہ جاگیردارانہ ، وڈیرانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف حقیقت وعملیت پسندی کے فکروفلسفہ اور پاکستان کی روایتی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب ومتوسط طبقہ کی قیادت کو ، وطن عزیز کے ہرمسئلہ کے حل کیلئے کامیاب ترین نسخہ قراردیا کرتے تھے۔۔۔ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیا کرتے تھے اور بعض اینکرپرسنز تو ایسے بھی ہیں جو جناب الطاف حسین سے خودساختہ دوستی کا بھی دعویٰ کیاکرتے تھے ۔یہی نہیں بلکہ بیشتر صحافی ، کالم نگار، دانشور اور اینکرپرسنز نہ صرف خود جناب الطاف حسین سے بات کرنا پسند کرتے تھے بلکہ ان کی قربت وشفقت کے حصول کیلئے اپنے بیوی بچوں سے بھی گفتگو کرانا پسند کیا کرتے تھے ۔ بزرگوں نے کہاہے کہ آپ کا بہترین دوست وہ ہے جوخوشامداور چاپلوسی کے بجائے آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرے۔یہ عمل اس وقت زیادہ مستحسن ہوتا ہے جب کوئی صاحب منصب ہو، مقام عروج پر ہواور جس کے اطراف جی حضوری کرنے والوں کی فوج ظفرموج ہو،ان حالات میں اصلاح احوال کی کوشش کرنا اور کسی کی غلطی کی نشاندہی کرنے والا ہی بہترین دوست ہوتا ہے ۔لیکن موافق حالات میں تعریف کرنا ، تعلقات کو بہتربنانے کی کوشش کرنا اور رت بدلتے ہی طوطا چشمی ،مفادپرستی اور موقع پرستی کا مظاہرہ کرنے والے کسی کے تو کجا اپنے بھی دوست نہیں ہوتے اور ایسے عناصر کو دوست تصور کرنے والوں کو کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ بدلتی رت کے محض آثاردیکھ کرایم کیوایم اور جناب الطاف حسین سے دوستی کادم بھرنے والے ان ’’دوستوں‘‘ نے جس تیزی سے کینچلی بدل کر اپنی فطرت کا اظہار کیا ہے اس نے گرگٹ اورسانپ جیسی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو بھی مات دیدی ۔یہ ’’معزز حضرات‘‘ پیشہ ور صحافی ہیں، پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی ان کی ذمہ داری میں شامل ہیں لیکن مجھے تو ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین کے خلاف ان کے چہرے کے تیور ، الفاظ کا استعمال اور دلوں میں پوشیدہ نفرت وعصبیت پر حیرت ہوتی ہے اورحضرت ناطق یاد آجاتے ہیں کہ ۔۔۔
ہائے کس کس پہ بھروسہ کیجئے ناطق !!!
کل مرے سائے کے دامن سے بھی خنجرنکلا
2
برطانیہ میں ایم کیوایم کے دفتراورجناب الطاف حسین کی رہائش گاہ پر برطانوی پولیس کے چھاپے کی خبریں کیا شائع یا نشر ہوئیں گویا بعض ’’دوستوں‘‘کی مراد برآئی۔۔۔’’خوشامد پسند حضرات ‘‘ کا ضمیر اچانک جاگ گیا اوروہ الطاف حسین اور ایم کیوایم دشمنی میں متحد ہوگئے، کسی کے منہ سے جھاگ نکلنے لگے، کوئی فرط مسرت سے بات کرنے کے قابل نہ رہا، کسی کو منافقت کی آخری حدود کوچھونے کی تمنا تھی اور کوئی ہرقیمت پر ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین کے خلاف تعصب، نفرت اورعصبیت دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا۔ آزادی صحافت کے علمبراد زمینی خدا بن کر فیصلے دینے لگ گئے ، جھوٹ، مکروفریب اور من گھڑت الزامات کی بنیاد پر جھوٹ کی عمارت تعمیر کرنے میں لگ گئے ۔۔۔کوئی بخار میں مبتلا نیولا بن گیاتوکوئی کوبرا ناگ۔۔۔کسی نے حرام جانور کا طرز عمل اپنایا تو کسی دوست نے روایتی طوطے کی ادا اپنائی۔۔۔کوئی بڑے صوبے سے تعلق رکھنے والا آداب دشمنی اور’’بڑکپن‘‘ کے تقاضے بھلا بیٹھا تو کسی کی نگاہوں میں جگنو کی روشنی کے بجائے شعلے لپکنے لگے،کہیں افغانستان کے امور پر دسترس رکھنے والا شکوہ کرنے لگا تو کہیں بدکاری اور حرام کاری میں پی ایچ ڈی ،حکیم لقمان کے نسخے بیان کرنے لگا۔غرض جس کو جتنا مال ، ڈھال ، کمال اورموقع ملا ان ابن الوقت قسم کے لوگوں نے حسب توفیق ایم کیوایم کے خلاف اپنی نفرت کا کھل کرمظاہرہ کیا۔۔۔ایم کیوایم پر بے بنیاد، جھوٹے اور لغو الزامات عائد کئے ۔۔۔ایم کیوایم کی قیادت کے مستقبل کے حوالہ سے اپنی دلی خواہشات کا اظہارکیالیکن یہ بھول بیٹھے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور جھوٹ صرف جھوٹ ہے آغاز سے انجام تلک۔
انہیں یہ بھی خیال نہیں رہا کہ اگر کل حالات ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین کے حق میں ہوگئے تو پھر کیاہوگا۔ بقول شاعر
تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیاکروگے
میں رورہا ہوں ، تم ہنس رہے ہو ، میں مسکرایا تو کیا کروگے
حسینیت ؑ کے ماننے والے کرب وبلا کی آزمائش سے گزرتے ہیں، صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور مخالفین کے طعنے سننے اورظلم سہنے کے باوجود حق کی تلقین کا عمل جاری رکھتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ فتح بالآخر حق پرستوں کا مقدر ہوگی ، حق پرستی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین ہے کہ انشاء اللہ آج نہیں تو کل ، ہم بھی مسکرائیں گے ۔
ایک امید افزا ء بات یہ بھی ہے کہ جہاں ایم کیوایم اور جناب الطاف حسین کے خلاف بغض وعناد رکھنے والے اپنا زور ستم آزمارہے ہیں وہاں حالات کے جبراورآزمائش کے مراحل میں ایسے مرد جری بھی ہیں جو چند سکوں کی جھنکار کے بجائے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا پسند کرتے ہیں ، ظرف وضمیر کا سودا نہ کرنے والے بعض ایسے صحافی ، دانشور، کالم نگار اور اینکرپرسنز بھی ہیں جنہوں نے بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کی زحمت تک گوارا نہیں کی ، لاکھ دباؤ کے باوجود انہوں نے ایم کیوایم کے خلاف زہریلے الزامات عائد کرنے کے بجائے پیشہ وارانہ ذمہ داری کا مظاہرہ کیااورنفرتوں کے اس بھنور میں بھی حتی الامکان خود کو غیرجانبدار رکھا ایسے ہی لوگوں کو دیکھ کر انسانیت پر یقین پختہ ہونے لگتا ہے۔انگلیوں پر گنے جانے والے یہ وہ صحافی ، کالم نگار، دانشور اور اینکرپرسنز ہیں جنہیں اس بات سے قطعی غرض نہیں کہ مارکیٹ میں کونسا برانڈ شہرت کی بلندی کوچھورہا ہے ، انہیں غرض ہے تو صرف اس بات سے کہ پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران سچائی اور ایمانداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔
جناب الطاف حسین کے پیروکار ہم تمام کارکنان پر لازم ہے کہ وہ سانپ ، نیولے ، گرگٹ، طوطے اور دیگر چرند پرند کی خصوصیات رکھنے والے خواتین وحضرات کے سیاہ کارنامے ، نفرتوں سے بھرے لہجے ، غلاظتوں سے بھری باتیں اور تعصب زدہ چہروں کو یاد رکھیں یا نہ رکھیں۔۔۔ کم ازکم ایسے مخلص، ایماندار اور دیانتدار صحافیوں، کالم نگاروں ، دانشوروں اور اینکرپرسنز کواپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد رکھیں جو اپنے ظرف وضمیر کا سودا کرنے اور زبان وقلم کی حرمت کو داغدار دیکھنا ہرگز گوارا نہیں کرتے۔