سندھ میں 1979ء کے بلدیاتی ایکٹ کی بحالی اور نفاذ کا نوٹیفکیشن عوام کے حقوق پر ڈاکا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے
متحدہ قومی موومنٹ 1979 کے بلدیاتی نظام کو مسترد کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ سندھ میں فرسودہ بلدیاتی نظام ختم کرکے 2001ء کا لوکل گورنمنٹ سسٹم دوبارہ رائج کیا جائے، رابطہ کمیٹی ایم کیوایم
خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آباد میں رکن رابطہ کمیٹی کنور نوید جمیل کی اراکین رابطہ کمیٹی کے ہمراہ پر ہجوم پریس کانفرنس
کراچی ۔۔۔2، جولائی 2013ء
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ ایم کیوایم ،پیپلزپارٹی کی حکومت کی جانب سے سندھ میں ایک بار پھر 1979ء کا فرسودہ بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے کے خلاف اپنے آئینی ، قانونی اور جمہوری حق کے مطابق صوبائی اسمبلی اور ہر سطح پر پرامن انداز میں اپنا احتجاج رجسٹرڈ کرائے گی اور آئین سے متصادم اس اقدام پر قانونی چارہ جوئی کرے گی ۔ رابطہ کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ سندھ میں فرسودہ بلدیاتی نظام ختم کرکے 2001ء کا لوکل گورنمنٹ سسٹم دوبارہ رائج کیاجائے ۔ رابطہ کمیٹی نے حکومت سندھ کی جانب سے لوکل گورنمٹ ایکٹ 1979ء کے نفاذ کے نوٹی فکیشن کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا یہ اقدام منتقمانہ ، متعصبانہ اور عوام دشمنی پر مبنی ہے ، یہ فرسودہ نظام سیاسی اختیارات کو غیر سیاسی اور غیر منتخب افراد یعنی بیورو کریسی کے سپرد کرتا ہے جو آئین کے آرٹیکل 140Aکی خلاف ورزی ہے ۔ ان خیالات کااظہار منگل کے روز ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے رکن کنو نورید جمیل نے ارکان رابطہ کمیٹی احمدسلیم صدیقی،یوسف شاہوانی اوراسلم آفریدی کے ہمراہ خورشید بیگم سیکریٹریٹ عزیز آباد میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔کنور نوید جمیل نے کہا کہ اکیسویں صدی ڈی سینٹرلائیزیشن یعنی عدم مرکزیت اور اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کی صدی ہے ، آج دنیابھرمیں لوکل گورنمنٹ یعنی مقامی حکومتوں کانظام رائج ہے ،کہیں یہ ٹاؤن کی شکل میں ہے اورکہیں Borough (ضلع) کی شکل میں ہے جنہیں میئرچلاتے ہیں جو عوام کے روزمرہ کے مسائل حل کرنے میں بااختیار ہوتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ آئین پاکستان کی شق 140A کے مطابق
140-A... Local Government Each province sall by law establish a Local Government System and Devolve, Political, Administrative and Financial Responsibilty and Authority to elected Representatives of the Local Government. آئین پاکستان اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے اور منتخب مقامی حکومتوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر ذمہ دار اور بااختیار بنانے کا پابند کرتا ہے جبکہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979 میں اس طرح کوئی اختیارات سرے سے موجود نہیں بلکہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے اور عوام کے منتخب مئیر کو بااختیار بنانے کے بجائے اس میں سٹی مئیر کو انتظامیہ کے ماتحت کردیا ہے یعنی اگر منتخب کونسل کوئی قرارداد پاس کرتی ہے تو وہ منظوری کیلئے کمشنر کے پاس جاتی جائے گی جس میں وہ بااختیار ہے کہ پاس شدہ قرارداد کو منظور کرے یا نہ کرے۔ اس طرح یہ نظام سیاسی اختیارات کو غیر سیاسی اور غیر منتخب افراد یعنی بیوروکریسی کے سپرد کرتا ہے جو صریحاً آئین کے آرٹیکل 140-A کی خلاف ورزی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح 1979 کے بلدیاتی نظام میں منتخب بلدیاتی نمائندوں اور اداروں کے پاس اتنے بھی بلدیاتی اخراجات کی ذمہ داری اور اختیارات نہیں ہوتے کہ جس سے وہ شہروں اور قصبوں میں صفائی اور صاف پانی کی فراہمی جیسی بنیادی سہولتوں کو بھی پورا کرسکیںیہاں تک کہ انتظامی طور پر پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی اور بنیادی صحت کے مراکز سے لے کر سول ہسپتال کو چلانے گلی اور محلے سے لے کر پورے شہر کے امن و امان کے قیام کی ذمہ داری اور اختیارات منتخب بلدیاتی افراد اور اداروں کے بجائے صوبائی حکومتوں اور بیورو کریسی کے پاس ہونگے جو آئین پاکستان کی بھی خلاف ورزی ہے۔انھوں نے کہا کہ 1979 ء کے بلدیاتی نظام کے تحت منتخب بلدیاتی اداروں کے لئے آکٹرائے ہی ایک ایسا قابل ذکر ذریعے تھا جس سے وہ اپنے لئے ریونیو حاصل کرنے کے اختیارات رکھتے تھے لیکن پچھلی حکومتوں نے آکٹرائے کو بھی وفاق کے سپرد کردیا اور اس کی جگہ GST نافذ کردیا گیاجسکے بعد ان بلدیاتی اداروں کے پاس مالی اختیارات کا یہ واحد قابل ذکر ذریعہ بھی موجود نہیں رہا لہٰذا اب 2013 میں 1979 کا بلدیاتی نظام نہ ہی قابل عمل رہا اور نہ ہی قابل نفاذ۔ انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے کامیاب ترین نظاموں میں عدم مرکزیت کی پالیسی ہی بنیادی اور مرکزی نقطہ رہی ہے، پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے کس طرح کا بلدیاتی نظام بہتر ہوگا اس کے لئے کسی تحقیق اور تجربے کی ضرورت نہیں ہے، سویڈن، ناروے، کینیڈا ، امریکا اور تیزی سے ابھرتے ہوئے جنوبی ایشیاء کے ترقی پذیر ممالک میں جن میں فلپائن، تھائی لینڈ اور سری لنکا بھی شامل ہیں مضبوط مقامی حکومتوں کے ذریعے اپنی عوام کو صحت و تعلیم، امن و عامہ اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کرکے ملک کو تیزی سے ترقی دینے میں مصروف ہیں۔ یہاں تک کہ بنگلہ دیش نے بھی 1982 ء میں ایک زیادہ ارتقاء یافتہ جدید اور متحرک Vibrat مقامی حکومتوں کا نظام "یونین پریشاد" کے ذریعے عام انسان کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 2001ء میں پاکستان میں لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا تھا جو جدیددنیامیں رائج لوکل گورنمنٹ سسٹم سے کافی قریب تھااوراختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کیلئے شہروں کوکئی کئی ٹاؤنزاوریونین کونسلوں میں تقسیم کردیاگیاتھا اور اسی نظام کے تحت ہی حق پرست سٹی اورڈسٹرکٹ ناظمین اورٹاؤن ناظمین نے 2005ء سے 2008ء کے درمیان کراچی،حیدرآباداور سندھ کے دیگر شہروں میں اس بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام کرائے جو نہ صرف پاکستان کے عوام نے تسلیم کیے بلکہ بین الاقوامی دنیانے بھی اس کابرملااعتراف کیااور کراچی سے تعلق رکھنے والے حق پرست سٹی ناظم مصطفےٰ کمال کودنیا کے تین بہترین میئرزمیں شامل کیاجس سے صرف کراچی اورایم کیوایم نہیں بلکہ پورے پاکستان کانام روشن ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیوایم نے سابقہ دورحکومت میں بھی بہت کوشش کی کہ 2001ء کایہ لوکل گورنمنٹ سسٹم چلتارہے تاکہ عوامی خدمت اورتعمیروترقی کا یہ سفرجاری رہے اورلیکن ایسا نہ ہوسکا۔ انھوں نے کہا کہ کسی نقطے پر کسی کے درمیان تحفظات یا خامی پائی جائے تواسے بات چیت کے ذریعے دورکرلیاجاتا ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی نظام خامیوں سے پاک نہیں ہوتااوردنیاکاکوئی بھی قانون حرف آخرنہیں ہوتابلکہ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضو ں کے تحت اس میں تبدیلیاں اور ترامیم وتنسیخ کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے جو ضروری بھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں سابقہ دورحکومت میں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان کئی دنوں کی سخت محنت کے نتیجے میں ’’سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ آرڈیننس ‘‘ تشکیل پایا۔ ہم نے کوشش کی کہ قانون بننے کے بعداس نظام کانفاذ ہوسکے لیکن پیپلزپارٹی نے اپنے سابقہ دور حکومت میں ایم کیوایم کے مخلوط حکومت سے باہرنکلتے ہی اپنے ہی بنائے ہوئے سندھ پیپلزلوکل گورنمنٹ کے قانون کومنسوخ کردیااورگزشتہ روزایک مرتبہ پھرپیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے سندھ میں1979ء کابلدیاتی نظام نافذ کردیاجو اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کانہیں بلکہ مقامی حکومتوں اور بلدیاتی نمائندوں سے ان کے اختیارات سلب کرنے اور خودپیپلزپارٹی کے اس منشورکی نفی کرتاہے جومحترمہ بینظیربھٹوشہیدنے تیار کیاتھااورجس میں لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذکرنے کی بات کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اس نظام کے تحت اختیار جمہور سے چھین کر غیر جمہوری افراد کے قبضے میں دینا چاہتی ہے جس کے تحت عوام کو کمزور اور عوام دشمن قوتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ اس طرح کے فیصلے دراصل جاگیردارانہ مزاج کی عکاس ہے کہ عوام کو مجبور ، محکوم اور محروم رکھا جائے تاکہ ان پر آسانی سے حکومت کی جاسکے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ میں 1979ء کے بلدیاتی ایکٹ کی بحالی اور اس کے نفاذ کا نوٹی فکیشن عوام کے حقوق پر ڈاکا اور جمہوریت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے جبکہ خود مختار پاکستان کا خواب بااختیار عوام کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ، پاکستان کی خوشحالی پاکستانی عوام کی خوشحالی سے مشروط ہے اور مستحکم پاکستان انتظام حکومت میں عوام کی شرکت کے بغیر ناممکن ہے لہذا لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ کرکے جلدازجلدبلدیاتی انتخابات کرائے جائیں تاکہ عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے گلی گلی عوام کے نمائندے موجودہوں بصورت دیگر ایم کیوایم ہرسطح پر ہر فورم پر اس کے خلاف احتجاج کرے گی اور آئین سے متصادم اس اقدام پر قانونی چارہ جوئی کرے گی ۔