Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

الطاف حسین: ’فوج واپسی کی اجازت دے اور تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے‘ BBC Urdu


الطاف حسین: ’فوج واپسی کی اجازت دے اور تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے‘ BBC Urdu
 Posted on: 6/1/2023 1

الطاف حسین: ’فوج واپسی کی اجازت دے اور تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم ایک حقیقت ہے‘

الطاف حسین
  • مصنف,حسین عسکری
  • عہدہ,بی بی سی اردو، لندن

یہ 26 جنوری 1990 کی بات ہے، کراچی میں ایم کیو ایم کا جلسہ ہو رہا تھا۔ یہ کراچی شہر کی تاریخ کے بڑے جلسوں میں سے ایک تھا جس میں شریک ایم کیو ایم کے پُرجوش حامی نعرے لگا رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔

اسی دوران الطاف حسین لاکھوں کے اس نعرے لگاتے اور شور مچاتے مجمعے کو سٹیج سے ہدایت جاری کرتے ہیں ’خاموش۔۔۔‘ اور وہاں مکمل خاموشی چھا جاتی ہے۔

ناظم آباد کے رہائشی جمیل احمد (فرضی نام) بھی ایم کیو ایم کے ایک کارکن کی حیثیت سے وہاں موجود تھے اور اپنے قائد الطاف حسین کا خطاب سننے آئے تھے۔

میں نے چند روز قبل کراچی میں اپنے ایک پرانے دوست کی مدد سے جمیل احمد سے رابطہ کیا۔ وہ بہت مشکل سے مجھ سے اس شرط پر بات کرنے پر تیار ہوئے کہ اُن کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔

جمیل احمد آج بھی الطاف حسین کو اپنا لیڈر مانتے ہیں لیکن، بقول ان کے، وہ ’پولیس اور رینجرز کے خوف‘ کی وجہ سے کسی سے بات نہیں کرتے۔

میں نے جمیل سے پوچھا کہ اُن کے خیال میں کیا آج بھی وہ وقت دوبارہ آ سکتا ہے کہ الطاف حسین ’خاموش‘ کہیں اور پورا شہر خاموش ہو جائے؟

جمیل احمد نے جواب دیا کہ ’اگر الطاف بھائی کراچی آ جائیں اور انھیں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت مل جائے تو ایم کیو ایم دوبارہ ایک سیاسی قوت بن سکتی ہے۔ آج بھی کراچی میں میرے جیسے ہزاروں کارکن موجود ہیں لیکن ہم ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے نام پر سیاست نہیں کر سکتے۔ ہمیں پارٹی کے دفتر کھولنے نہ ہی کسی قسم کی میٹنگ کرنے کی اجازت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میری زندگی بڑی مشکل سے کچھ بہتر ہوئی ہے۔ میرے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور میرے پاس ایک اچھی نوکری ہے۔ ظاہر ہے میں یہ نہیں چاہتا کہ یہ سب ختم ہو جائے۔ اسی لیے میں کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتا ہو نہ ہی کسی سے اس بارے میں بات کرتا ہوں۔‘

جمیل احمد کے مطابق عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے کراچی میں تحریکِ انصاف کی حمایت میں کافی اضافہ ہوا ہے اور ان کے کئی جاننے والوں نے تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن وہ خود آج بھی الطاف حسین والی ایم کیو ایم کو ہی پسند کرتے ہیں۔

الطاف حسین

،تصویر کا ذریعہPICTORAL BIOGRAPHY OF ALTAF HUSSAIN

واضح رہے کہ الطاف حسین نے 22 اگست 2016 کو ایک متنازع تقریر کی تھی جس میں پاکستان کے خلاف نعرے لگائے گئے تھے اور اس تقریر کے بعد پاکستان میں الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

اور اس بعد یہ ہوا کہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت اتنے حصوں اور دھڑوں میں تقسیم ہوئی جس کا اگست 2016 سے قبل کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

جلد ہی ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے ایک نئی جماعت سامنے آئی، پاکستان میں رہنے والے پارٹی رہنماؤں نے فیصلہ کن قدم اٹھایا اور بالآخر پارٹی کے سینیئر رہنما فاروق ستار کو اعلان کرنا پڑا کہ ملک اور فوج کے خلاف الطاف حسین کی تقاریر اور خطابات کا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں۔

ایم کیو ایم پاکستان نے بطور تنظیم اپنے بانی سے نہ صرف علیحدگی کا اعلان کر کیا بلکہ نئی ایم کیو ایم نے الطاف حسین کے خلاف قومی اسمبلی میں قراردادِ مذمت بھی پیش کی۔

نائن زیرو

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

’فوج مجھے واپسی کی دعوت دے‘

متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین سے ایک خصوصی انٹرویو میں جب میں نے یہ سوال ان کے سامنے رکھا کہ کیا وہ آج بھی کراچی میں سنہ 1990 جیسا بڑا جلسہ کر سکتے ہیں تو الطاف حسین نے دعویٰ کیا کہ وہ آج بھی کراچی اور حیدرآباد میں سب سے مقبول رہنما ہیں اور اگر ’فوج‘ کی جانب سے انھیں ’فری ہینڈ‘ دیا جائے تو وہ کراچی میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے۔

بی بی سی نے فوج کی جانب سے کسی سیاسی جماعت یا رہنما کو سیاست کرنے کی اجازت سے متعلق الطاف حسین کے دعوے پر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے رابطہ کیا تاہم اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم 23 نومبر 2022 کو اپنے الوداعی خطاب میں سابق آرمی چیف نے کہا تھا کہ فوج پر تنقید اس لیے ہوتی ہے کیونکہ فوج گذشتہ 70 سال کے دوران سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے جو ’غیرآئینی‘ تھا تاہم فروری 2021 میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ فوج آئندہ سیاست میں کسی صورت مداخلت نہیں کرے گی۔

الطاف حسین نے اپنی مقبولیت کے دعوے کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی کے گذشتہ ضمنی انتخابات میں ان کی بائیکاٹ کی اپیل بہت کامیاب رہی اور ووٹنگ کی شرح صرف سات سے آٹھ فیصد رہی۔

’لوگوں نے میری اپیل پر انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ثابت کر دیا کہ الطاف حسین آج بھی لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔ عوام کی حمایت پہلے بھی الطاف حسین کو حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ اگر ہمیں موقع دیا جائے تو ایم کیو ایم آج بھی انتخابات میں سوئپ کرے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’فوج ایک حقیقت ہے لیکن جس طرح وہ فوج کو تسلیم کر رہے ہیں فوج بھی اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ الطاف حسین کی قیادت میں ایم کیو ایم بھی ایک حقیقت ہے اور فوج مجھے واپسی کی دعوت دے۔‘

تصویر

،تصویر کا ذریعہMQM ORG.

،تصویر کا کیپشن

کراچی یونیورسٹی میں الطاف حسین اور دیگر رہنما اے پی ایم ایس او کے جھنڈے کے ہمراہ

الطاف حسین نے الزام عائد کیا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ دار فوج ہے کیونکہ ملک میں موجود جاگیردارانہ نظام کو فوج ہی نے برقرار رکھا ہوا ہے اور بہت سے سیاستدان بھی اس کام میں فوج کے ساتھ ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے الطاف حسین کے اس الزام کی بابت بھی بی بی سی کی جانب سے سوال کیا گیا تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ تاہم ماضی میں فوج ہمیشہ سے مختلف حلقوں اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اوپر سیاست اور سیاسی معاملات میں مداخلت جیسے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

الطاف حسین سوشل میڈیا پر اکثر فوج پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ سکیورٹی کے ادارے ان کی جماعت کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتے۔ گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر اپنے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا کہ ’ملٹری ایلیٹ مسلسل سیاست میں مداخلت کرتی آ رہی ہے: فوجی اشرافیہ ملک کی سیاست کو کنٹرول کرتی ہے اور سیاسی جماعتوں میں دراڑیں ڈالتی ہے اور گروپ بناتی ہے۔‘

آئی ایس پی آر کی جانب سے اس متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دیا گیا تاہم 25 اپریل 2023 کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا فوج کو سیاست سے جوڑنا کسی صورت نہ تو افواج پاکستان اور نہ ہی قوم کے مفاد میں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان کی فوج قومی فوج ہے، ہمارے لیے تمام سیاست دان، تمام سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں، پاک فوج کسی خاص جماعت، سوچ یا نظریے کی حامی نہیں۔‘

الطاف حسین نے مزید الزام عائد کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ’اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار‘ ہے اور اس کی عوام میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی رابطہ کمیٹی کے ارکان کرپشن میں ملوث ہو گئے تھے۔ تاہم ایم کیو ایم پاکستان کی موجودہ قیادت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

الطاف حسین نے کہا کہ ’میں نے سنہ 2013، 2014 اور 2015 میں تین مختلف جنرل ورکرز اجلاسوں میں کھل کر کہا کہ میری پوری رابطہ کمیٹی کرپٹ ہو گئی ہے۔ یہ چھتیں بیچ رہی ہے، یہ پلاٹ بیچ رہی ہے، چائنا کٹنگ کر رہی ہے۔ اس موقع پر مجمع غصے میں آ گیا اور نائن زیرو میں گھس گیا تھا اور یہ لوگ (رابطہ کمیٹی کے رہنما) پچھلے دروازے سے بھاگ گئے تھے۔ بعد میں ان لوگوں نے مجھ سے معافی مانگی تھی کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔‘

ایم کیو ایم پر الزامات اور الطاف حسین کا جواب

تصویر

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے سابق کنوینر ندیم نصرت نے، جو سنہ 1992 میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہونے سے پہلے الطاف حسین کے ساتھ برطانیہ آ گئے تھے، گذشتہ دنوں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ الطاف حسین مسلسل سمجھانے کے باوجود سوشل میڈیا پر اپنی غیر سنجیدہ ویڈیوز جاری کرتے رہتے تھے جس سے پارٹی کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

اس بارے میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ ’ہر شخص کا اپنا ایک سٹائل ہوتا ہے اور یہ ان کا سٹائل ہے جسے لوگ پسند کرتے ہیں اور اگر لوگ یہ پسند نہیں کرتے تو اُن کی بائیکاٹ کی اپیل کامیاب نہیں ہوتی۔‘

لیکن ماضی میں ان پر اپنی جماعت کے کارکنوں کو مسلح کرنے اور کراچی میں تشدد کا ماحول جنم دینے جیسے الزامات تواتر سے لگتے رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آٹھ اگست 1986 کو الطاف حسین نے نشتر پارک میں اپنے پہلے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مہاجروں وی سی آر اور فریج بیچ کر اسلحہ خریدو۔‘

اسی وجہ سے ان پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ انھوں نے ایک ایسی کمیونٹی کے نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ پکڑا دیا جس کے بارے میں پاکستان بھر میں پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ ہونے کا تاثر تھا۔

الطاف حسین نے مجھ سے بات چیت میں اس تقریر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاں میں نے اپنی تقریر میں یہ کہا تھا اور غلط نہیں کہا تھا۔ پاکستان کے جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرے میں عزت سے زندہ رہنے کے لیے یہ ضروری تھا۔‘

الطاف حسین نے الزام عائد کہ 80 کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے فسادات میں بھی اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی جس کا مقصد ’اردو بولنے والوں اور پشتونوں اور دوسری قومیتوں کو آپس میں لڑانا تھا۔‘ تاہم سندھ کی سابقہ حکومتیں اور فوج ہمیشہ سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کراچی میں ہونے والا آپریشن جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کے خلاف تھا نا کہ کسی سیاسی جماعت کے خلاف۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ نوے کی دہائی میں ہونے والے سکیورٹی فورسز کے آپریشن ایسے افراد کے خلاف تھے جو ریاست پاکستان کے خلاف کام کر رہے تھے اور جنھیں بیرونی عناضر کی امداد اور حمایت حاصل تھی۔

یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں سینکڑوں افراد مارے گئے جن میں سب ہی قومیتوں اور نسلی گروہوں کے لوگ شامل تھے۔ اس زمانے میں ہلاک ہونے والے پشتونوں، سندھیوں اور پنجابیوں کی ہلاکت کا الزام ایم کیو ایم پر لگایا جاتا ہے۔

الطاف حسین اس الزام سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کو سبق سکھانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے پنجابی پختون اتحاد (پی پی آئی) نامی تنظیم بنائی۔ لیکن اس دور کے سیاسی مبصرین اور صحافیوں کے خیال میں ایم کیو ایم کے ردعمل میں پی پی آئی وجود میں آئی تھی۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس ضمن میں بی بی سی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جواب نہیں دیے۔

الطاف حسین کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم بننے کی وجہ سے متوسط طبقے اور غریب گھرانوں کے لوگ مہاجر شناخت پر بڑی تعداد میں منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔ ایم کیو ایم بننے اور مقبول ہونے کا جواز دیتے ہوئے الطاف حسین نے سوال کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف صوبہ سندھ میں کوٹہ سسٹم کیوں نافذ کیا جبکہ وہی صورتحال صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی تھی اور اس وجہ سے اردو بولنے والوں میں احساس محرومی پیدا ہوا۔

الطاف حسین اب بھی پاکستان کی سیاسی صورتحال پر اکثر سوشل میڈیا پر تبصرے کرتے رہتے ہیں۔

انھوں نے گذشتہ دنوں تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے تناظر میں اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ کسی بھی جماعت کے فرد یا رہنما کو گرفتار کرنا آئین اور قانون کے مطابق جائز ضرور ہے لیکن کمرۂ عدالت کے دروازے توڑ کر کسی کو بھی گرفتار کرنے کا عمل آئین و قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

50 سال کی سیاست سے الطاف حسین کو کیا ملا؟ اس سوال کے جواب میں الطاف حسین کا کہنا تھا کہ انھیں یہ ملا کہ آج اُن کا پیغام پورے پاکستان میں پھیل چکا ہے۔ ’آج پورے پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو نعرے لگ رہے ہیں‘ یہ اُن ہی کے پیغام کی وجہ سے ہے۔

کراچی کا ووٹر کہاں کھڑا ہے؟

تصویر

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

کراچی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار پروفیسر توصیف احمد کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان پر بظاہر پابندی نہیں ہے لیکن پھر بھی ان کے دفاتر نہیں کھل سکے۔ ’ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اسے کھڑا کیا ہے لیکن اس جماعت کو کام کرنے کا موقع بھی نہیں دیا۔‘

’ان کے کارکن رہا نہیں ہو سکے، ان کے جو لوگ بے روزگار ہوئے وہ ان کو روزگار نہیں دلا سکے۔ اس کے علاوہ اردو بولنے والوں میں بہت سے لوگ اب بھی الطاف حسین کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ الطاف حسین کی اپیلوں کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان کا پیغام غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے۔‘’

پروفیسر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم پاکستان پہلے عمران خان اور اب پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی شامل ہے لیکن اپنے حامیوں کو کوئی ریلیف نہیں دلوا سکی۔ تو جو جماعت عوام کو ریلیف نہ دلوا سکے اس کی حیثیت نہیں رہتی اور اس کے مقابلے میں اس کے اپنے ہی سابق قائد الطاف حسین کا پیغام زیادہ موثر ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں ایم کیو ایم پاکستان بہت مشکل میں ہے اور تنظیمی طور پر تقریباً ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ تحریک انصاف لے چکی ہے۔ اردو بولنے والا ووٹر یا تو تحریک انصاف کی طرف چلا گیا یا پھر الطاف حسین کی اپیلوں کی وجہ سے مایوس ہو کر گھر بیٹھ گیا۔ ‘

تو الطاف حسین کا ووٹر کہاں گیا؟ پروفیسر توصیف کہتے ہیں کہ ’ان ووٹروں کا ایک حصہ تو گھر میں بیٹھ گیا، ایک حصے نے گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت کی اور حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اس ووٹ بینک کا ایک حصہ جماعت اسلامی کے پاس چلا گیا۔‘

تاہم وہ مانتے ہیں کہ ’اکثریت نے کسی کو بھی ووٹ نہیں دیا اور یہی وجہ ہے کے ووٹنگ کی شرح کم رہی۔‘

پروفیسر توصیف کے مطابق ’اگر الطاف حسین واپس آ جائیں، ان پر پابندی ختم ہو جائے، ان کے دفاتر کھل جائیں اور ان کے گرفتار ورکر رہا ہو جائیں تو وہ ایک موثر گروپ کے طور پر کراچی کی سیاست میں واپس آ سکتے ہیں۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس نے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کراچی کی سیاست کو ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ایک سیاسی خلا پیدا ہوتا ہے تو اسے کسی نہ کسی نے تو پُر کرنا ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم کے خلا کو کسی حد تک تحریکِ انصاف نے پورا کیا۔‘

مظہر عباس کے مطابق ’کراچی کے میمن ووٹر، جو روایتی طور پر ایم کیو ایم کے ووٹر تھے یا جو شہر کے امیر علاقوں کے ووٹر تھے، یہ ووٹ بینک تقسیم ہوا خاص طور پر میمن ووٹ تحریک لبیک کی طرف گیا اور باقی تحریک انصاف میں گیا۔‘

مظہر عباس کہتے ہیں کہ سنہ 2013 میں بھی تحریک انصاف نے کراچی سے تقریباً آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے اور 2018 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ ہوا۔

’اسی طرح 2018 کے انتخابات میں تحریک لبیک کو بھی ووٹ پڑا اور اس نے بہت سے حلقوں سے بیس اور پچیس ہزار ووٹ حاصل کیے۔ اس میں کافی اردو سپیکنگ ووٹ تھا۔ ایم کیو ایم سنہ 2016 کے کے بعد تتر بتر ہو گئی تھی اس لیے اس کا ووٹ بینک مختلف جماعتوں میں تقسیم ہو گیا۔‘

مظہر عباس بھی پروفیسر توصیف سے متفق ہیں کہ ایم کیو ایم الطاف کے بہت سارے ووٹر خاموش ہیں۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ بہت سے ووٹروں کو جب یہ نظر آیا کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم لندن کی سیاست میں واپسی مشکل ہے تو ان میں سے بہت سوں نے جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کا رخ کیا اور کچھ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف لوٹ گئے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر الطاف حسین کو اجازت مل جاتی ہے یا ایم کیو ایم لندن سیاسی میدان میں آ جاتی ہے تو ووٹ بینک کی اس تقسیم میں تبدیلی آ سکتی ہے۔‘

لیکن مظہر عباس کو الطاف حسین کی واپسی کا کم از کم مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت تحریکِ انصاف کی جو صورتحال ہے وہ بھی کراچی کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہو گی۔

’تحریکِ انصاف کا ووٹر بھی کنفیوژن کا شکار ہے۔ اگر تحریکِ انصاف اسی طرح عتاب کا شکار رہتی ہے اور اسے بھی اجازت نہیں ملتی تو امکان ہے کہ اس کا ووٹر بھی اگلے انتخابات میں یا تو ووٹ نہیں دے گا یا ان میں سے کچھ جماعتِ اسلامی میں چلے جائیں یا ہو سکتا ہے کچھ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف چلے جائیں۔‘

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ اس وقت کراچی کا ووٹ بینک جو تقریباً سارے کا سارا کبھی الطاف حسین والی ایم کیو ایم کا ہوا کرتا تھا اب مجموعی طور پر تقسیم نظر آتا ہے۔

link: https://www.bbc.com/urdu/articles/ckk90lkz3qzo

12/30/2024 9:26:33 AM