Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

’’ہوئے تم دوست جس کے ‘‘۔۔۔تحریر۔۔۔قاسم علی رضاؔ

 Posted on: 3/24/2014   Views:1947
’’ہوئے تم دوست جس کے ‘‘
تحریر۔۔۔قاسم علی رضاؔ 
جماعت اسلامی کے امیر سید منورحسن فرماتے ہیں کہ طالبان ہمارے بھائی ہیں، اس سے قبل موصوف نے ہزاروں مسلم پاکستانیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود کو شہید، دہشت گردوں سے نبردآزما پاک فوج اور دیگرقانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران وجوانوں کوہلاک قراردیاجبکہ حضرت امام حسین ؑ اور معاذاللہ یزید ملعون کوصحابی قراردیکر ایک صف میں کھڑا کرنے کی شعوری کوشش کی ۔ ناقدین کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کسی نہ کسی طرح خبروں میں رہنے کافن اچھی طرح جانتی ہے اور موصوف منورحسن تو اس فن کے مشاق کاریگر تصورکیے جاتے ہیں لہٰذا کوئی نہ کوئی ایسی پھلجڑی چھوڑدیتے ہیں کہ میڈیا میں کئی دن تک انکا تذکرہ رہے ۔ گویا’’بدنام نہ ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے چند سنجیدہ عناصر اس گُرکی اہمیت وافادیت سے واقف نہیں ہیں اوروہ اپنے امیر کے متنازعہ بیانات کے باعث شدیدترین ذہنی دباؤ اورتذبذب کا شکار ہیں۔محترم منورحسن کے ارشادات سے جماعت اسلامی کی صفوں میں اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے اور بسا اوقات جماعتی رہنماؤں کیلئے میڈیا پراپنے امیر منورحسن کی لن ترانیوں کی وضاحت کرنا انتہائی مشکل ترین ہوجاتا ہے اور یقیناًوہ دل ہی دل میں اپنے امیر کوکوستے ہوں گے اورکہتے ہوں گے کہ ٹھیک ہے جماعت اسلامی اپنی منافقت اور سیاہ کرتوت کے باعث راندہ درگاہ ہورہی ہے ، تیزی سے زوال پذیری کاشکارہے اور اب جماعتی رہنماؤں کو ان کے اپنے گھروں میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے پھر بھی منورحسن کو ایسے خیالات سے گریز کرنا چاہیے جو جماعت اسلامی کی تباہی میں عمل انگیز کا کردارادا کریں۔
دروغ برگردن راوی۔۔۔ جہاں تک راقم کی معلومات کا تعلق ہے تو ماضی میں جماعت اسلامی کے افکارونظریات مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان تک پھیلے ہوئے تھے اوراس جماعت کے کارکنان اسلام اور وطن دشمنوں کے دانت کھٹے کرنے کیلئے ہمہ وقت تیاررہا کرتے تھے ۔ اس جماعت نے البدر اور الشمس نامی تنظیمیں بناکرمشرقی پاکستان میں دین اسلام کا پرچم بلند کیا، اسلام کی نشاۃ الثانیہ کیلئے سرگرم عمل ہوگئی ، دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان سے نبرد آزمارہی۔ البدراور الشمس کے مسلح جتھوں نے مشرقی پاکستان میں بنگالی عوام کو ایسا سبق سکھایا کہ الاامان والحفیظ۔یہ تو حالات کی ستم ظریفی تھی کہ 1971ء میں پاکستان کا مشرقی باز وٹوٹ گیا، اسلامی نظریاتی ملک دولخت ہوگیااورسابقہ مشرقی پاکستان ، بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشہ میں آگیا ورنہ جماعت اسلامی کے کارکنان کاجذبہ ایمانی وہ رنگ لاتا کہ دنیا دیکھتی۔ قابل غوربات تو یہ ہے کہ پاکستان دولخت ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کا جذبہ ایمانی سرد نہیں پڑا اوراسکی جانب سے دین اسلام کی نشاۃ الثانیہ کا سلسلہ جاری رہا ، جنرل ضیاء الحق کے دورمیں پاکستان کے تعلیمی اداروں میں کلاشنکوف کلچر متعارف کرایا گیا تاکہ دشمنان اسلام کا ڈٹ کر اورجدید آلات حرب کے ذریعہ مقابلہ کیاجاسکے ، کشمیر کی آزادی کا مسئلہ ہو یا جہاد افغانستان، جب جب موقع ملا جماعت اسلامی نے حسب توفیق اپنا کردار ادا کیا اوریہ کردار مالی وسائل کے بغیرکیسے ادا کیاجاسکتا ہے لہٰذا اگر جماعت کے رہنماؤں نے امریکہ سے بوریاں بھربھر کے ڈالرز حاصل کرلیے تو کونسا گناہ کرلیا؟
مجھے اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ جماعت اسلامی کو ہمیشہ اپنی صفوں سے مخالفت کاسامناکرنا پڑا ۔جماعت اسلامی کی مجاہدانہ راہ میں ڈاکٹراطہرقریشی نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی لیکن اللہ بھلاکرجماعت اسلامی کے تھنڈراسکواڈ کاجنہوں نے ڈاکٹراطہر قریشی کو راستے سے ہٹادیا گیا، اللہ غریق رحمت کرے ، پروفیسر غفوراحمد نے جماعت کی غیردانشمندانہ پالیسیوں سے بغاوت کا سوچا توانہیں، ڈاکٹراطہرقریشی کا انجام دکھاکرخاموش کرادیا گیا۔ مخالف سیاسی ومذہبی جماعتوں اوراپنی پرائی طلباء تنظیموں کے رہنماؤں اورکارکنوں کو ٹھکانے لگانے میں بھی جماعت اسلامی کا کوئی ثانی نہیں ہے ۔ اس کی تربیت حاصل کرنا اور اس حوالہ سے تعلقات بنانا جماعت اسلامی کا خاصہ ہے ، القاعدہ اور طالبان کے بین الاقوامی دہشت گرد جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھروں اور ہاسٹل کے کمروں سے گرفتارہوئے اور جماعت اسلامی کے سرگرم کارکنان امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بنے لیکن پاکستان کے عوام بھی عجیب ہیں کہ جماعت اسلامی کے ان گرانقدر کارناموں کو کسی خاطرمیں ہی نہیں لاتے اور ہرعام انتخابات میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کو عبرتناک شکست سے دوچارہونا پڑتا ہے۔جماعت اسلامی کے ناقدین کہتے ہیں کہ اگرچہ جماعت اسلامی کوکسی بھی دورمیں عوامی پذیرائی حاصل نہیں رہی اور جماعت اسلامی نے ہمیشہ ’’طفیلی‘‘کاکرداراداکرنے میں فخر محسوس کیا ہے تاہم سید منورحسن کے ارشادات اور اقدامات سے جماعت اسلامی کی یہ رہی سہی ساکھ بھی قصہء پارینہ بننے جارہی ہے اورجماعت اسلامی کی جگ ہنسائی الگ ہورہی ہے ۔پہلے دبے دبے لہجے میں سرگوشی کی جاتی تھی کہ خدارا !! منورحسن کو عقل سلیم عطاہوجائے اور اب کھلے عام کہاجارہا ہے کہ جماعت اسلامی کو جتنا نقصان سید منورحسن نے پہنچایا ہے اتنا نقصان کبھی نہیں پہنچا۔ جوعناصر یہ بات کہتے ہیں کہ منورحسن نے جماعت اسلامی کو نقصان پہنچایا ہے مجھے ان کی بات سے قطعی اختلاف ہے ۔ میرا استدلال ہے کہ جماعت کو اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم یا ان سے قبل جماعت کی امارت پرفائز رہنے والی معزز شخصیات کے دور میں عوام کی جانب سے کونسی پذیرائی ملتی تھی جوآج عوامی حمایت سے محرومی پرمحترم منورحسن کوتنقید کا نشانہ بنایاجارہا ہے؟کیاماضی میں ہونے والے انتخابات میں جماعت اسلامی کسی بھی صوبے کی واضح اکثریت رکھنے والی جماعت بن کرابھری ہے جو آج یہ شکوہ کیاجارہاہے کہ منورحسن کے دور میں عوام، جماعت اسلامی کے نمائندوں کو ووٹ نہیں دیتے؟ ماضی میں جماعت اسلامی نے کونسی عزت کمائی تھی جو منورحسن کے بیانات کو جماعت اسلامی کی ذلت کا شاخسانہ قراردیا جارہا ہے ۔میری تو دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ، محترم منورحسن کو خوش رکھے ، اپنی امان میں رکھے ، ذہنی ، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے بھی محفوظ رکھے اور جماعت اسلامی کی امارت پر ان کا سایہء جلیلہ قائم ودائم رہے کیونکہ جس طرح محترم منورحسن ، جماعت اسلامی اور’’ جماعتین‘‘کی ’’خدمت‘‘میں مشغول ومامور ہیں اورجماعت کے’’اصل‘‘ نظریات ، خیالات ، اغراض ومقاصد اور سوچ وفکرکی تبلیغ وترویج کررہے ہیں وہ صرف انہی کا وطیرہ ہے۔ لیکن کیاکریں کہنے والوں کی زبان تو نہیں پکڑی جاسکتی ۔منورحسن صاحب کے ناقدین کاوہی گھسا پٹا اصرار کہ وہ جماعت اسلامی کا جس طرح باضابطہ بیڑا غرق کررہے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی اور’’ حلقہ ء جماعت‘‘ میں بھی یہ بازگزشت سننے کو مل رہی ہے کہ 
ہوئے تم دوست جس کے 
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو