Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

مذہبی رہنماؤں کا دہرامعیار

 Posted on: 10/12/2013   Views:2690
تحریر۔۔۔قاسم علی رضاؔ 
عجیب بات ہے ، آج جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے اکابرین عزیزی مولانا فضل الرحمان اورمنورحسن بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں جس کی نشاندہی کئی برسوں قبل ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین کرچکے ہیں۔ یہاں مخالفین کو بھی یہ بات کھلے دل اور دماغ سے تسلیم کرلینی چاہئے کہ جناب الطاف حسین نہ صرف دوراندیش ہیں بلکہ حالات وواقعات کے تجزیہ کی روشنی میں مستقبل بینی کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں جس کا ہمارے سیاسی ومذہبی رہنماؤں کو زرا برابربھی ادراک نہیں ہے۔ماضی قریب میں جناب الطاف حسین نے طالبانائزیشن کے خطرے کی نشاندہی کی تو بعض سیاسی ومذہبی رہنماؤں ، دانشوروں، کالم نگاروں اور اینکرپرسنز نے ان کے خدشات پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کے بجائے جناب الطاف حسین کامذاق اڑایا اوران پر بہتان تراشی کی ۔ آج کون ہے جو طالبائزیشن کے عفریت کو ملک وقوم کی سلامتی وبقاء کو خطرہ نہ گردانتا ہو۔مگر چونکہ یہ بات جناب الطاف حسین کی جانب سے کہی گئی تھی لہٰذا ہرایک مخالفین پر لازم ہوگیا کہ وہ ان کی مخالفت کرے سومخالفت ہی کی گئی ۔ تاہم سچ سچ ہوتا ہے ،سچ کو کسی ثبوت وشواہد کی ضرورت نہیں ہوتی۔سچ ، جلد یابدیر ظاہرہوہی جاتا ہے جیسا کہ اب ہورہا ہے ۔آج ہمارے ’’معززین ‘‘ کی جانب سے دہرامعیار اپناتے ہوئے اور دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہی بات کہی جارہی ہے جو جناب الطاف حسین کہتے رہے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے، کفری نظام یعنی جمہوریت کے مخالف ہیں، پارلیمنٹ کو نہیں مانتے ، حکومت ، ڈرون حملے بند کرائے ، طالبان قیدیوں کو رہا کرے اور فاٹا سے فوج کو واپس بلایا جائے۔تحریک طالبان پاکستان اور حکومت پاکستان کے مابین مذاکرات کے تناظر میں طالبان کی شرائط اورملک میں دہشت گردی کے المناک واقعات کی روشنی میں مولانافضل الرحمان صاحب اور منورحسن صاحب کو غالباً اب سمجھ میں آیا ہے کہ طالبان کیا چاہتے ہیں لہٰذا یہ معزز حضرات فرماتے ہیں کہ ’’بندوق کے زور پرشریعت نافذ نہیں کی جاسکتی ‘‘جبکہ اس سے قبل یہی حضرات یہ ارشاد فرماتے رہے ہیں کہ خودکش حملے اور بم دھماکے ، امریکی ڈرون حملوں کا ردعمل ہیں مگرپاکستان کے دانشوروں ،کالم نگاروں اور اینکرپرسنز کی جانب سے کبھی دریافت نہیں کیا گیا کہ مساجدوامام بارگاہوں کے نمازی، اسکولوں کے طلبا و طالبات، بزرگان دین کے مزارات کے زائرین اور بازاروں میں خریداری کرنے والے افراد کیا ڈرون حملوں کے ذمہ دارہیں؟ آج کہا جارہا ہے کہ بندوق کے زور پر شریعت نافذ نہیں کی جاسکتی جبکہ یہی بات جناب الطاف حسین کئی برسوں سے اپنے خطابات، تقاریراور بیانات میں تسلسل کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ دین میں کوئی جبرنہیں ہے ، دین اسلام ،اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے ، انتہاء پسندی سے روکتا ہے ، بندوق کے زور پرکسی پر اپنے عقائد مسلط کرنے کا عمل اسلامی تعلیمات کی نفی ہے ، دین اسلام بے گناہ کے قتل کی ممانعت کرتا ہے اور مذہب کی آڑمیں دہشت گردی اور قتل و غارتگری سے باز رہنے کا حکم دیتا ہے ۔ جناب الطاف حسین نے صرف زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ ایم کیوایم ، پاکستان کی واحد جماعت تھی جس نے ڈنڈابردار اور کلاشنکوف بردار شریعت کے خلاف لاکھوں افراد کی ریلی نکالی اوردنیا پر واضح کردیا کہ دین اسلام میں انتہائی پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس وقت کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کے رہنماء نے جناب الطاف حسین کے مؤقف کی تائید نہیں کی، طالبانائزیشن کے خلاف ان کے حق پرستانہ مؤقف کی کسی بھی جانب سے پذیرائی نہیں کی گئی۔ اگر جناب الطاف حسین کے خدشات کو سنجیدگی سے لیاجاتااور مخالفت برائے مخالفت کے بجائے حق بات کی حمایت کی جاتی اور طالبانائزیشن کے خلاف جناب الطاف حسین کی آواز میں آواز ملائی جاتی تو شائد ملک وقوم کو اس گھمبیر صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ وقت کاتقاضا ہے کہ ریاست کی رٹ قائم کی جائے ، جولوگ مذاکرات پرآمادہ ہوں ان سے پروقار مذاکرات کیے جائیں اور جو طاقت کے ذریعہ اپنے عقائد مسلط کرنے کی کوشش کریں توان پرواضح کردیا جائے کہ ریاست کی رٹ کیا ہوتی ہے تاکہ پاکستان کی سلامتی وبقاء پر لاحق خطرات سے نمٹا جاسکے۔