Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

قدرت کا عظیم تحفہ ۔۔۔الطاف حسین (تحریر: خالدہ اطیب)

 Posted on: 9/17/2013   Views:2549
الطاف حسین کی ساٹھویں سالگرہ پر خصوصی تحریر

قدرت کا عظیم تحفہ ۔۔۔الطاف حسین 

تحریر: خالدہ اطیب

کہتے ہیں کوئی ایک نکتہ بعض اوقات انقلاب کی بنیاد بن جاتا ہے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنا الطاف حسین کی سوچ کو ایک نئی راہ دکھا گیا اور انہوں نے تمام طلباء کی حق تلفیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ایک طلباء تنظیم کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح 11جون 1978ء کو اے پی ایم ایس او کا قیام عمل میں آیا۔ یہ رویہ گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پہلا پتھر تھا جس کے ارتعاش سے سارے دروبام ہل کر رہ گئے۔ فرسودہ نظام کی تبدیلی کی یہ ہوا اپنے ساتھ ہر چیز کو بہا کر لے گئی۔ وہ لوگ من مانی کرنے کے عادی تھے۔ انگشت بدنداں رہ گئے۔ الطاف حسین کی جرأت اور ہمت کو توڑنے کے لیے ظلم و ستم کا ہر حربہ آزمایا، لیکن الطاف حسین کے پایہ استقامت میں لرزش نہ لاسکے۔ انتہائی نامساعد حالات، جبر و تشدد کو سہتے ہوئے نوجوان الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ناانصافی صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا سلسلہ عام لوگوں تک دراز ہے۔ اس لیے گلی محلوں میں شعور کی بیداری کا عمل شروع کیا۔ 18مار چ1984ء کو ایم کیو ایم مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد ڈالی۔ سندھ کے شہری علاقوں میں بے سروسامانی کے عالم میں اپنی جدوجہد کو پھیلانے کے کام کا آغاز کیا۔ 98فیصد قوم کو بتایا کہ 2فیصد مراعات یافتہ طبقے کے ظلم سہنا گویا ظالم کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ مجبور و بے بس عوام جو آواز اُٹھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہ ہونے کی بناء پر سر جھکا کر ظلم سہہ رہے تھے۔ ان کے تن مردہ میں جان پڑ گئی اور دیکھتے دیکھتے مٹھی بھر نوجوانوں کا یہ ٹولہ بھرپور کارواں بنتا گیا۔ 8اگست 1986ء کو ایم کیو ایم نے اپنا پہلا جلسہ نشتر پارک میں منعقد کیا اور 31اکتوبر1986ء کو حیدر آباد کے پکا قلعہ میں دوسرا جلسہ منعقد کیا۔ جدوجہد میں تیزی آتی گئی۔ حوصلے بلند ہوتے گئے۔ پر خار راستے پر چلتے ہوئے پیر لہو لہان ہوئے مگر توانائیوں میں کمی نہ آئی۔ بلکہ مصائب کی زیادتی نے جوش و جذبے کو مزید مہمیز کیا۔ یہ قدرت کی عطا کی ہوئی خصوصی صلاحیت تھی کہ نہ کوئی بڑا نام پشت پناہی پر موجود تھا نہ مال و دولت کی فراوانی تھی۔ لیکن جذبہ صادق اور کچھ کرنے کی لگن کے بل بوتے پر یہ معرکہ سر کیا۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے وڈیرے ، سردار، جاگیردار اور ان کے حواری یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک وقت کے ساتھ وسائل نہ ہونے کی بنا پر اپنی موت آپ مر
 جائے گی لیکن جسے اللہ رکھے، اُسے کون چکھے کے مصداق یہ شعر صادق آتا ہے:

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

برسوں کی چھپی ہوئی گھٹن، ناامیدی اور مایوسی نے جب خوشگوار جھونکے کی طرح امید کا روپ دھارا تو ہر چیز تبدیل ہو گئی اور تبدیلی کی یہ ہوا بادِ نسیم کا جھونکا بنتی ہوئی سارے ملک میں پھیل گئی۔ سندھ کے شہری علاقوں سے گاؤں اور دیہاتوں میں پنجاب، سرحد اور بلوچستان میں موجود 98فیصد عوام نے 2فید مراعات یافتہ طبقے کے شکنجے سے نکلنے کے لیے پر تولنا شروع کردئیے۔ یہی نہیں ، کشمیر، گلگت اور بلتستان میں بھی حق پرستی کی شمع روشن ہو کر اپنی کرنیں بکھیرنے لگی۔ ایک ایسے معاشرے میں یہ معجزاتی عمل ہوا جہاں کی سیاسی، سماجی اور معاشی اقدار پر جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کا قبضہ تھا۔ لیکن الطاف حسین نے اس سوچ کو اپنے پیروں تلے مسل دیا اور یہ ثابت کردیا کہ قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کوئی بھی شخص ایوانوں کی نشستوں پر براجمان ہوسکتا ہے اور عوامی نمائندگی کا حق رکھتا ہے۔ انہوں نے عملی طور پر یہ ثابت کرکے دکھایا کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ ، قابل اور باصلاحیت افراد کو عوامی نمائندگی کا حق دیتے ہوئے ایوانوں کی زینت بنایا اور اس سوچ کی نفی کی کہ دولت اور خاندانی پس منظر کے بل پر ہی حکومت کی جاسکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے قیام سے آج تک ہر الیکشن میں بھرپور کامیابی حاصل کی۔ پہلا بلدیاتی الیکشن جو 1987ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوا، عظیم الشان کامیابی حاصل کی اور یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ذرا نہ بھایا۔ ا ور 1992ء میں اس کے خلاف بد ترین آپریشن کا آغاز ہوا۔ 15,000سے زائد نوجوانوں کو بد ترین تشدد کے بعد شہید کردیا گیا۔ ہزاروں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ زیر زمین ہزاروں کارکنان روز جیتے اور مرتے رہے۔ خوف کے عالم میں زندگی گزارنے سے ذہنی مریض بن گئے مگر آفرین ہے ان کے عہدِ وفا پر جو انہوں نے اپنے قائد الطاف حسین سے کیا کہ کوئی جبر و تشدد اور کوئی بھی ہتھکنڈہ ان کے پایہ استقامت میں لرزش نہ لاسکا۔ حتیٰ کہ قائد تحریک کے باپ جیسے بڑے بھائی اور جواں سال بھتیجے کو بد ترین تشدد کے بعد شہید کردیا گیا۔ لیکن ہر سانحہ دل و دماغ کو تو ہلا کر رکھ دیتا تھا لیکن توانائیوں اور جذبوں کو جلا بخشتا تھا۔ پے درپے ملنے والی کامیابیاں، ان ہی شہداء کی قربانیوں کی مرہونِ منت ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ کی دوسری اور پاکستان کی تیسری بڑی پارٹی بن کر اُبھری ہے۔ کامیابیوں کا سفر جاری ہے۔ ساتھ ہی دیوار سے لگانے کی کوششوں میں بھی کمی نہیں آئی لیکن قائد تحریک الطاف حسین بھائی اور اُن کے جانثار ساتھی اور کارکنان فکر و فلسفے کی مضبو ط ڈور کے ساتھ بندھے ہیں جو حقیقت پسندی اور عملیت پسندی پر مبنی ہے۔ مشن او رمقصد سے وابستگی کامیابیوں کی راہ دکھاتی ہے۔ یقیناًوہ وقت قریب قریب ہے جب 98فیصد مظلوموں کو ان کے جائز حقوق ملیں گے اور اُن قربانیوں کا ثمر ملے گا جو اُن کے بزرگوں نے پاکستان بنانے میں دیں۔ آج جبکہ 17ستمبر 2013 ؁ء کو ہم اپنے عظیم قائد، رہبر و رہنما قائد تحریک الطاف حسین کی 60ویں سالگرہ منارہے ہیں تو ہمیں اجتماعی طور پر یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اپنے قائد کے بازو، ان کی طاقت و قوت بنیں گے اور تمام مشکلات و مصائب کو خندہ پیشانی سے جھیلتے ہوئے اپنے جذبوں کو جواں اور ہمتوں کو سر بلند رکھیں گے۔ منزل قریب ہے اور وہ دن دور نہیں جب ہم سوچ اور فکر کا ایک ایسا انقلاب برپا ہو تا ہوا دیکھیں گے کہ دنیا انگشت بدنداں رہ جائے گی۔ 98فیصد مظلوموں کی حکمرانی ہوگی اور قائد تحریک جناب الطاف حسین کا نام تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے قائد کو عمر خضر عطا فرمائے اور ان کو حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے (آمین)۔