Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

روایت شکن شخصیت کا یومِ پیدائش (تحریر: ارشاد کمالی )

 Posted on: 9/17/2013   Views:2701
قائد تحریک جناب الطا ف حسین کی 60ویں سالگرہ کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون

روایت شکن شخصیت کا یومِ پیدائش

تحریر: ارشاد کمالی 

دُنیا کے کسی بھی معاشرے اور سماج کی ترقی میں قیادت اور رہنما کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرہ اگر تہذیبی، روایتی اورعلمی سطح پر تنزلی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے کو ٹھیک کرنے کے لیے ایک منظم، پر عزم اور راست باز رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہماری طبعی دنیا کا معاشرتی طریقہ نہیں۔ یہ خالق کائنات کے خدائی طریقے کی طرف اشارہ بھی ہے جو کائنات کا خالق ہے۔ تمام انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں بھیجا تاکہ وہ دنیا میں امن، خوشحالی سے زندگی گزار نے کا راستہ بتا کر مخلوق کو سمجھائیں کہ وہ کیسے ابدی دُنیا میں کامیاب ہوں۔ آپ ذرا سی دیر کے لیے دُنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو آپ جان جائیں گے کہ آج کا واحد سپر پاور امریکا بھی سماجی برائیوں مثلاً غلامی، نسل پرستی ، بنیادی مساوات اور آزادی کا احترام نہ کرنے جیسے افعال سے لبریز تھا۔ لیکن جب اسے ابراہم لنکن جیسے رہنما ملے جو جانتے تھے کہ غلامی موت اور ذلت ہے، نسل پرستی زہر قاتل ہے جو معاشرے اور قوم کو ارتقاء اور تہذیب سے روکے گا، اور امریکی ایک قوم بھی نہیں بن سکیں گے۔ لنکن سے پہلے 15دیگر لیڈر بھی امریکا کے صدر بنے لیکن ان میں سے ایک بھی ٹھیک طور سے ان برائیوں سے نہیں لڑ سکا، نہ ان مسائل اور برائیوں کے خطرات کو محسوس کرکے ان کے خلاف کھڑا ہوا۔ ابراہم لنکن نے گیٹس برگ کے میدان جنگ میں امریکی فوج سے خطاب کیا تاکہ امریکی یونین کو بچائے۔ یہ خطاب بھی دُنیا کی تاریخ میں تقریر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس خطاب نے فوجیوں میں جیت کا جنون بھر دیا اور انہیں کنفیڈریٹ کے مقابلے میں فتح حاصل ہوئی۔ اس نے غلامی کو دائمی طور پر ختم کرنے کے لیے 13ویں ترمیم کی کھل کر حمایت کی۔ لنکن ایک خود ساختہ پڑھا لکھا تھا۔ وہ بائبل اور شیکسپیئر کا حافظ تھا۔ اُس نے اپنی جان قربان کی لیکن امریکا کو ایک آزاد، خودمختار قوم اور مساوات والا معاشرہ دیا۔ آپ جنوبی ایشیاء سے رہنمائی کی مثال لیں تو موہن داس کرم چندر گاندھی جو ہندوستان کے بابائے قوم ہیں اور باپو کے لقب سے مشور ہیں۔ گاندھی دُنیا کی تاریخ کے چند عظیم لیڈروں میں سے ایک اہم لیڈر ہیں اور اُن کا جنم دن دنیا بھر میں عدم تشدد کے دن کے طور پر منایاجاتا ہے۔ گاندھی عظیم لیڈر کیسے بنے؟ گاندھی عظیم لیڈر اس وجہ سے نہیں بنے کہ انہوں نے ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کیا یا اُسے آزاد کرایا۔ وہ عظیم اس لیے ہوئے کہ ایک ریاستی وزیر اعظم کے بیٹے ہوتے ہوئے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کے قائد ہونے کے باوجود ساری زندگی وہ اپنا آفس نہ بنا سکے۔ وہ ایک وکیل تھے مگر ساری زندگی وکالت نہ کرسکے۔ جب وہ قتل ہوئے تو ان کے پاس ذاتی جائیداد کوئی نہیں تھی۔ انہوں نے ساری زندگی کوئی شہرت اور بڑائی نہیں لی۔ ساؤتھ افریقہ اور یورپ دنیا بھر میں جہاں وہ گئے انہیں تعصب اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑا۔ ہندوستانی ہونے کے سبب ہر جگہ وہ تیسرے درجے کے شہری ہی کہلائے۔ ان سب ناانصافیوں اور امتیازات نے انہیں پوری انسانیت کے لیے بلا امتیاز رنگ و نسل، قوم و مذہب سیاست کرنے پر اُبھارا۔ وہ اکثریت اوراقلیت کے جمہوری طریقے سے زیادہ صلاحیت کے اصول کے قائل تھے۔ دُنیا بھرکے غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرنے کے لیے انہوں نے اپنا نیا سوشل آرڈر ٹرینٹی بنایا تاکہ غریبوں کی خدمت کرسکیں۔ انہوں نے دُنیا بھر کے غریبوں ، حقوق کے پر امن اور عدم تشدد کے طریقے سے حاصل کرنے کا راستہ بتایا۔ جنوبی ایشیاء میں محمد علی جناح گاندھی کے ہمعصر تھے۔ گاندھی نے ملک آزاد کرایا اور قوم بنا ڈالی۔ جناح نے ملک حاصل کیا مگر اپنی جلد طبعی موت کے باعث قوم نہ بنا سکے۔ آپ لنکن اور دوسرے عظیم لیڈروں کی مثالیں اپنے سامنے رکھیں اور جناح کے پاکستان پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی دیکھیں۔ 17ستمبر 1953ء کو اُس نے ہمیں الطاف حسین جیسی قیادت عطا کی جو ابراہم لنکن اور دوسرے عظیم رہنماؤں کی وژن کا علمدار ہے جو بکھری ہوئی پاکستانی آبادی کو ایک متحد قوم بنا سکتا ہے۔ الطاف حسین عملیت اور حقیقت پسندی کے جدید نظریات پر ایمان رکھنے والے رہنما ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آج معاشرے کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے یہ نظریات بہت اہم ہیں۔ الطاف حسین 35برس سے سیاست میں ہیں لیکن آج تک اپنی یا اپنے خاندان کے لیے کچھ فائدہ حاصل نہیں کیا۔ آپ پاکستان کے اہم ترین مسائل کی فہرست بنائیں اور آپ دیکھیں الطاف حسین نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا حل تجویز کیے ہیں تو آپ کو اُن کے موازنے میں کوئی لیڈر نہیں ملے گا۔ مثال کے طور پر جاگیردارانہ ، وڈیرانہ سوچ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے پڑھے لکھے غریب نوجوانوں کو اقتدار کی باگ ڈور دی تاکہ وہ استحصال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے ہمیشہ اقلیت پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ طالبان اور دہشت گردی کے متعلق وہ ایک عشرے سے قوم اور قوم کے بڑے اختیارات والوں کو آگاہ کرتے رہے ہیں۔ یہ الطاف حسین کی تعلیمات ، فکر اور فلسفہ ہے۔ شیعہ سنی، امیر غریب سب متحدہ کے پلیٹ فارم پر جمع ہیں۔ الطاف حسین نے بلوچستان کے مظلوم عوام کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کی اور جاری استحصال کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ الطاف حسین کے کارکنان سیلاب ہو یا زلزلہ یا کوئی قدرتی آفات، کروڑوں روپے سے اُن کی امداد کرتے ہیں اور وہاں جا کر اُن کی خدمت بھی کرتے ہیں۔ آپ یہ سچائی بھی سامنے رکھیں کہ گزشتہ چند سالوں سے ہمارا ملک جو کہ 18کروڑ لوگوں کا وطن ہے، ناقابل برداشت لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے بحران سے دوچار ہے، لیکن پیشہ ور سیاستدان اور روایتی سیاسی جماعتیں سوائے باتیں بنانے اور لفظی جمع خرچ کے ، کچھ نہیں کر رہیں۔ یہ الطاف حسین جیسے رہنما ہی ہیں جنہوں نے عوام کی اس پریشانی کو محسوس کیا اور اپنے کارکنان کو ہدایت کی کہ وہ توانائی کے دیگر ذرائع، سولر انرجی، ونڈ انرجی اور ہائیڈرو کاربن سے توانائی حاصل کرنے کے تجربات کریں تاکہ عوام کی پریشانی اور مہنگی بجلی ، لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو کم کیاجاسکے۔ ملک میں توانائی کی کمی سے جو صنعتی ، اقتصادی اور معاشی بحران آیا ہوا ہے، اس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری جو کہ کئی گنا بڑھ جانے سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، اسے بچایاجاسکے۔ الطاف حسین جیسے عظیم رہنما ہی وہ سیاسی بصیرت اور فہم و فراست رکھتے ہیں جو صورتحال کو سمجھتے ہیں، جو صحیح فیصلے اور سمت کا تعین کرتے ہیں اور بکھرے ہوئے لوگوں کو متحدکرکے ایک قوم بناتے ہیں۔ اسے تعمیری سوچ اور فکر و عمل کی تعلیم دیتے ہیں۔ الطاف حسین بھائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوموں کی رہنمائی کے لیے جاری رکھے جانے والے رہنمائی کے عمل کا ہی تسلسل ہیں۔ وقت تاریخ بنائے گا۔ جب الطاف بھائی کا نام اور سترہ (17)ستمبر کی تاریخ اور انسانیت کے لیے ان کی خدمات عظیم لیڈروں کے ساتھ لکھی جائیں گی۔  *****