Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

ایم کیو ایم کے اکتیسویں یوم تاسیس کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون تاریکیوں کی دشمن ۔۔۔ایم کیو ایم ...تحریر: سیّد تیمور علی

 Posted on: 3/18/2015   Views:2405
بشکریہ جنگ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی جماعتوں کا قیام اور ان کا انہدام ایک ایسا عمل ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اس کے برعکس مہذب دنیا میں سیاسی جماعتوں کا استحکام ہی ان کے نظام کی مضبوطی کا مظہر ہوتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ، بلوچستان نیشنل موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی سمیت جتنی بھی جماعتیں ہیں، ان میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری و ساری رہا اور اب تو ایک سیاسی جماعت ببانگ دہل وکٹیں گرانے کی بات کر تی ہے۔ ایسے میں کسی سیاسی جماعت کا اکتیس سال تک برقرار رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ اس کو معجزہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تیس برس کی عمر میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالی اور پھر ہر طرف سے جو سنگ باری شرو ع ہوئی وہ آج بھی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر لحظہ اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ یا تو ایم کیو ایم کو منقسم کردیا جائے یا پھر مائنس الطاف حسین فارمولا منطبق کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں اور یہ کوشش آج بھی جاری ہے۔ ایم کیو ایم اپنے مضبوط تنظیمی ڈھانچے کے بل پر عوام سے مسلسل جڑی ہوئی ہے اور مختلف سطحوں پر ہونے والے آپریشنز کی ترجیحات یہ ہیں کہ عوام کا رابطہ ایم کیو ایم سے منقطع کرکے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جائیں۔ 
ایم کیو ایم پر عدم برداشت کا الزام عائد ہوتا ہے لیکن یہ زندہ حقیقت ہے کہ جتنی سیاسی جماعتیں شہر کراچی اور حیدر آباد میں کام کر رہی ہیں پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہ تو اتنی سیاسی اکائیاں موجود ہیں اورنہ ہی اتنی سیاسی سرگرمیاں کسی اور شہر میں برپا ہوتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ یہاں کالعدم تنظیمیں بھی اپنے جلسے اور پروگرام باقاعدگی سے منعقد کرتی ہیں۔ مساجد کے باہر علی الاعلان چندہ وصول کرتی نظر آتی ہیں۔ حیرت ہے کہ ایم کیو ایم پر عدم برداشت کا الزام لگانے والوں کی نگاہیں اس طرف کیوں نہیں جاتیں ۔ حقیقت میں یہ ایم کیو ایم کی عدم برداشت کا مظہر نہیں بلکہ الزامات کی یہ سیاست اس شکست کا زخم ہے جو ایم کیو ایم نے سیاسی جماعتوں کو سندھ کے شہری علاقوں میں دی تھیں۔ آج بھی وہ سیاسی جماعتیں اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہیں اور ایم کیو ایم کو برا بھلا کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہیں۔ ان کے پاس عوام کو دینے کے لیے نہ کل کچھ تھا، نہ آج ہے۔ ایم کیو ایم اقتدار میں ہو یا نہ ہو، وہ عوام سے اپنے تعلق کو استوار رکھتی ہے۔ اور ان تمام ترکامیابیوں کا سہرا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے سر جاتا ہے جو آج ان نامساعد حالات میں بھی ایم کیو ایم کی قیادت کر رہے ہیں اور عوام کی رہنمائی کا فریضہ بھی بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ماضی میں ایم کیو ایم پر علیحدہ ملک جسے جناح پور کا نام دیا گیا، کا الزام عائد کیا گیا۔ ٹارچر سیلز اور تشدد کا الزام بھی لگایا گیا لیکن ان الزامات کو کسی بھی عدالت میں ثابت نہ کیا جاسکا۔ آج وہی شکاری ایک نیا جال لے کر جسے وہ ٹارگٹ کلنگ کانام دیتے ہیں، پھر ایم کیو ایم کو شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقیناًیہ کوشش بھی ناکام ہوگی کیونکہ ایم کیو ایم آج بھی اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور عوام اس کے ساتھ موجود ہیں۔ یہ سازشیں ایم کیو ایم کے کارکنان اپنے عزم، حوصلے اور قربانی دینے کے جذبے کے ساتھ ناکام بنا دیں گے۔ آج ایم کیو ایم اپنا اکتیسواں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ الطاف حسین اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کہ ملک میں مختلف طالع آزما اور سیاسی جماعتیں ایم کیو ایم کے خلاف منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہیں اور وہ اس کے توڑ کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق کوشاں رہتے ہیں۔ اراکین قومی اسمبلی و سینٹ ہوں یا تنظیمی ذمہ داران، وہ اپنی شبانہ روز کوششوں سے اس سازش کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ الطاف حسین کی زندگی کے پینتیس سال سیاسی میں گزرے جس میں بائیس سالہ جلا وطنی بھی شامل ہے۔ ملک اور بیرون ملک مقدمات کا سامنا کیا لیکن اس میں سرخرو رہے اور الزامات عائد کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی ۔ آج جب ہم ایم کیو ایم کا یوم تاسیس منا رہے ہیں تو ہم کارکنان کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم تحریک میں شمولیت کے اغراض و مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنے حلف، اپنی وفا اور اپنے عہد کی تجدید کریں او رماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے قائد تحریک الطاف حسین کی ہدایات کی روشنی میں اپنے راستے کی گندگیوں کو صاف کرنے کی کوشش کریں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ ہم تنظیم کے نظم و ضبط کو اپنی زندگی کے نصب العین میں تبدیل کر لیں، جب ہی جا کر ہم باوفا کارکن ہونے کی اہلیت کو ثابت کرسکیں گے اور باطل قوتیں اس تحریک کا بال بھی بیکا نہیں کر پائیں گی۔ تحریک میں قربانیوں کی ایک طویل تاریخ موجود ہے اور یہی قربانیاں ہیں جنہوں نے اس تحریک کو ہر عہد میں جلا بخشی ہے۔ کارکنان نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی ہے تو وہیں قائد تحریک الطاف حسین نے اپنے بڑے بھائی اور بھتیجے کے خون سے اس تحریک کو سینچا ہے۔ ہر مشکل دور میں یہ تحریک ایک تناور درخت کی مانند کھڑی رہی اور سازشوں کا مقابلہ کیا۔ آج بھی جو سازشیں سر اُٹھا رہی ہیں وہ بھی کل ناکام ہوں گی اور یہ سازشیں کرنے والے بھی ماضی کے سازشی عناصر کی مانند شرمسار ہوں گے۔ یہی یقین ہے، یہی ایمان ہے کہ حق آنے کے لیے ہے اور باطل مٹنے کے لیے۔