بلوچستان میں ماضی میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے مظالم اورزیادتیوں نے بلوچستان میں اس شورش کوجنم دیاہے۔تازہ ترین صورتحال اور حالات وواقعات سے لگتاہے کہ اب بلوچستان میں مسلح مزاحمت کے یہ واقعات رکنے والے نہیں ہیں، اب معاملہ بلوچ مردوں کےہاتھوں سے نکل کربلوچ خواتین کے ہاتھ میں آگیاہے اوراب وہ بلوچ مزاحمت کا حصہ بن چکی ہیں۔
میں ارباب اختیارکوبتاناچاہتاہوں کہ اگراس قسم کی مزاحمت کوطاقت سے روکاجاسکتا توامریکہ جیسی طاقت کو ویتنام سےنہ نکلنا پڑتا اورسوویت یونین جیسی طاقت کےٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتے۔
جعفرایکسپریس کےواقعے میں عوام کواصل حقائق سے آگاہ کرنےکے بجائے گمراہ کن خبریں پھیلائی جارہی ہیں جیسے 1971ء میں سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت مغربی پاکستان میں بڑے بڑے تجزیہ نگار گمراہ کن دعوے کررہے تھے جبکہ مشرقی پاکستان میں فوج ہتھیارڈال چکی تھی۔
جعفرایکسپریس کے واقعے میں مزاحمت کاروں نے انسانیت کامظاہرہ کرتے ہوئے سویلین یرغمالی مسافروں کو رہاکردیا لیکن میڈیاپر عوام کوگمراہ کرنے کےلئے کچھ اور بتایاجارہا ہے۔
ملک انتہائی نازک حالات سے گزررہاہے لیکن یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ ایسے شورش زدہ اورنازک حالات میں بھی حکومت کے مخالفین کوگرفتارکرکے لاپتہ کیاجارہاہے، انہیں قید کیاجارہاہے، الیکشن میں دھاندلیاں کی جارہی ہیں۔ میں پنجاب کے عوام سے پوچھتاہوں کہ جب کسی مطلوبہ فرد کے نہ ملنےپر اس کے باپ یا بھائی یادیگررشتہ داروں کوگرفتارکیاجائے ، اہل خانہ پر تشدد کیاجائے تویہ ظلم دیکھ کرآپ کے کیاجذبات ہوں گے؟
یہ تاریخی حقیقت ہےکہ بلوچستان ہمیشہ سے الگ اورآزادریاست تھی، اس کی الگ کرنسی ،الگ اسمبلی اوراپنی حکومت تھی ، قیام پاکستان کے وقت بھی بلوچستان پاکستان کاحصہ نہیں تھااسے طاقت کے ذریعے جبراًپاکستان میں شامل کیاگیاتھا۔ بلوچستان کواس کے حقوق سے محروم رکھا گیا، اس کے وسائل پر قبضہ کیا گیا، آج بلوچ اپنی آزادی کی جدوجہد کررہے ہیں۔ جب میں یہ حقائق بیان کرتاہوں تومجھے غداراور ملک دشمن قراردیدیا جاتا ہے۔خداکی قسم میں بات چیت کے ذریعے صلح کراسکتا تھا، میں نے فوج کے جرنیلوں سے اپنی ملاقاتوں میں، انہیں خطوط لکھ کراور گفتگوکرکے ان سے درخواست کی کہ مجھے موقع دیں کہ حالات کی بہتری کےلئے اپناکردار ادا کروں لیکن فیصلہ کرنے والی قوتوں نے میری بات نہیں مانی۔میرے نواب اکبر بگٹی سے اچھے تعلقات تھے، لندن میں سردارعطاء اللہ مینگل اورمحمودخان اچکزئی صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئی، ہم نے کئی باراس پر طویل اجلاس کئےکہ بلوچستان کامسئلہ کیسےحل کیاجائے۔ میں نے نواب اکبربگٹی کی شہادت سے قبل ہاتھ جوڑکر ایک سال تک بلوچستان میں آپریشن کوروکے رکھا لیکن ضرورت سے زیادہ طاقت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کومفلوج کردیتی ہے، بعد میں بلوچستان میں آپریشن کاآغازکیاگیااورآج صورتحال اس نہج پر آ گئی ہے۔
پنجاب کے لوگو! میں آپ سے کہتاہوں کہ اب آپ کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری آگئی ہے، خداراحالات کی سنگینی کااحساس کیجئے،وقت بہت کم ہے،پاکستان بچائیے اور کچھ کیجئے، آوازاٹھائیے،خداکے واسطے ظلم بند کرائیے ورنہ پھر آپ کے پاس فاتحہ پڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔
میں نوجوانوں سے بھی کہتاہوں کہ ملک کامستقبل آپ کے ہاتھوں میں ہے، آپ آگے بڑھیے ۔کچھ کیجئے۔
میں اہل پنجاب سمیت ملک بھر کے عوام سے اپیل کرتاہوں کہ وہ بلوچستان کے بارے میں میری کتاب ''مسئلہ بلوچستان…تاریخ کے آئینے میں '' ضرورپڑھیں، یہ کتابPDF فارمیٹ میں بھی جاری ہوچکی ہے۔ خدارا اسےپڑھیے تاکہ آپ کوبلوچستان کی تاریخ اوراصل حقائق سے آگاہی ہوسکے۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پرفکری نشست 221 سے خطاب
11مارچ 2025