ترامیمی بل منظور کرکے ملک میں رہی سہی جمہوریت، قانون کی بالادستی اور عدلیہ کی خودمختاری ختم کردی گئی ہےالطاف حسین
آج مقننہ ،عدلیہ کی خودمختاری،آئین، قانون، جمہوریت انسانی حقوق اورمیرٹ کی موت واقع ہوگئی ہے
میں آمرانہ ، جابرانہ، فسطائیت ، بادشاہت اورڈکٹیٹرشپ پر مبنی آمرانہ ترامیم کومکمل طورپر مسترد کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21، اکتوبر2024ء کو 26 ویں آئینی ترمیم کرکے پاکستان میں آئین وقانون اورعدلیہ کی آزادی کو وینٹی لیٹر پر ڈالاگیا تھا ۔آج حکومت اوراس کے اتحادیوں نے اہم قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے قومی اسمبلی اورسینیٹ میں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 3سال سے بڑھاکر5 سال کرنے، سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر 34 کرنے ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی تعداد 9 سے بڑھا کر 12کرنے اورسپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجربل 2024 سمیت 6 ترمیمی بل منظور کرکے ملک میں رہی سہی جمہوریت، قانون کی بالادستی، عدلیہ کی خودمختاری ختم کردی گئی ہے اوراب مقننہ ،عدلیہ کی خودمختاری،آئین، قانون، جمہوریت انسانی حقوق کی آزادی اورمیرٹ کی موت واقع ہوگئی ہے ۔ جس پر انا للہ وانا الیہ راجعون ہی پڑھاجاسکتاہے۔ میں ان ترامیم کوآمرانہ ، جابرانہ، فسطائیت ، بادشاہت اورڈکٹیٹرشپ قراردیتاہوںاوران آمرانہ ترامیم کومکمل طورپر مسترد کرتاہوں۔
سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی اورفاضل عدالت ہے جس کے چیف جسٹس کی تقرری کے لئے سینیارٹی کا قانون رائج تھالیکن حکومت نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزاد ی اورخودمختاری پر حملہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کاسینیارٹی کے مروجہ اصول اورقواعد کو ختم کردیاہے اوراب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کااختیار وزیراعظم کے ہاتھ میں آگیاہے۔اس طرح سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے طریقہ کارکاجنازہ نکال دیاگیا ہے، اب سپریم کورٹ کاچیف جسٹس وزیراعظم کی مرضی کاہو گا اور وہی چیف جسٹس بنے گا جو چوراچکے حکمرانوں کی حمایت اور اپوزیشن کو نقصان پہنچانے کیلئے کام کرے گا اور آئین وقانون کے مطابق فیصلے دینے کے بجائے شریف خاندان اوراس کے ہمنواؤں کی خواہشات کے مطابق فیصلے دے گا۔
حکومت نے عدلیہ کے حوالے سے قانون میں جونئی ترمیم کی ہے اس کے تحت سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی تعداددگنی کردی گئی ہے ۔اب یہ سپریم کورٹ اوراسلام آباد ہائیکورٹ میںبھی اپنی مرضی کے نئے ججزلائیں گے اورججز بھی اپنی تقرری کے لئے درخواستیں لیکر وزیراعظم ہاؤس کے چکرلگائیں گے اورتقرری کے بعد یہ ججز حکمرانوں کی خوشنودی اورمرضی ومنشا کے مطابق فیصلے دیں گے۔اب حکمراں سرکاری خزانے پرڈاکہ ڈالیں یا ان کے خلاف کوئی''لیکس'' آجائے تو بھی عدالتیں انہیں بے گناہ قراردیدیں گی۔ اس طرح قانون اورانصاف کاجنازہ نکالاجارہاہے۔اپنی مرضی کے ججز لاکرعدلیہ کوخصّی(نامرد) بنایاجارہاہے۔
حکمرا ں اتحادنے فوج کی خواہشات پر قومی اسمبلی اورسینیٹ سے آرمی، نیوی اورایئرفورس کے ایکٹ میں جوترمیم منظورکی ہے اس کے تحت اب آرمی چیف ، نیول چیف اورایئرفورس چیف کی مدت ملازمت 3سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے ۔ آرمی چیف پر ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد کااطلاق بھی نہیں ہوگا۔ اس طرح حکومت انہیں ایکسٹینشن پر ایکسٹینشن دیتی رہے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ایک خطرناک ترمیم یہ لائی گئی ہے جس کے تحت فوج، آئی ایس آئی ، ایم آئی ،آئی بی، ایف آئی اے، نیب اورقانون نافذ کرنے والے دیگراداروں کو یہ اجازت دیدی گئی ہے کہ کسی بھی شخص کو بغیرکسی الزام کے گرفتارکرنے کے بعدمجسٹریٹ یا عدالت میں پیش کئے بغیر تین ماہ تک زیرحراست رکھا جاسکتا ہے ۔اس طرح حکومت نے جبری گمشدگیوں کو جائز قراردیدیا ہے ، آج جویہ ظالمانہ قانون پاس کررہے ہیں، مکافات عمل کے تحت کل انہیں اوران کی اولادوں کو بھی اس کاسامنا کرنا پڑے گا۔
کراچی اورحیدرآبادکے عوام جبری گمشدگیوںکا کرب 1992ء سے بھگت رہے ہیں ، سینکڑوں مہاجروں کو لاپتہ کیاگیا،انہیں کئی کئی برس لاپتہ رکھاگیا،بیشترلاپتہ مہاجرنوجوانوں کی تشدد زدہ اور مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئیں۔ اسی طرح بلوچوں اور پشتونوں پر بھی مظالم ڈھائے جارہے ہیں ،انہیں جبری لاپتہ رکھاجارہاہے ، لاپتہ افراد کومارائے عدالت قتل کیا جارہا ہے ۔بلوچ اورپشتون خواتین اوربزرگوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ، چادرو چہار دیواری کا تقدس پامال کیاجارہا ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ پنجاب میں بھی وہی مظالم ہوں جوسندھ ، بلوچستان اورخیبرپختونخوا میں ہوئے لیکن سچ یہی ہے کہ اس طرح کے مظالم صوبہ پنجاب میں نہیں ڈھائے گئے۔ پنجاب سے عمران خان کے وکیل انتظارحسین پنجوتھا اور صحافی عمران ریاض خان اوردیگرگرفتارشدگان کو تشددکانشانہ بنانے کے بعد زندہ سلامت واپس کردیاگیا، ابھی تک صوبہ پنجاب میں کسی ایک بھی لاپتہ فرد کو ماورائے عدالت قتل نہیں کیا گیا ہے مگرPTI کے لیڈران کہتے ہیں کہ جوظلم پنجاب میں ہورہا ہے ایسا ظلم کہیں نہیں ہوا ۔ اس طرح وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچوں ، پشتونوں اور مہاجروں پر کوئی ظلم ہوا ہی نہیں ہے، آخراتنی عصبیت اور نفرت کیوں ہے ؟کیا انہوں نے کبھی بلوچستان ، خیبرپختونخوا ،کراچی اور شہری سندھ میں مہاجروں، بلوچوں ، پشتونوں کے گھروں میں جاکر پوچھا ہے کہ ان پر کیا کیا مظالم ڈھائے گئے ہیں؟ حال ہی میںPTM کے تحت پشتون قومی امن جرگہ منعقد کیاگیا تو فوج نے جلسہ گاہ کی تیاری کرنے والوں پر گولیاں چلاکرمتعدد پشتونوں کو شہید وزخمی کردیا۔ لہٰذا پی ٹی آئی کے رہنماؤںکومصلحت سے بالاتر ہوکران مظالم کی بھی کھل کرمذمت کرنی چاہیے۔
عمران خان کی زندگی کو جیل میں خطرات لاحق ہیں ، عمران خان کی رہائی کیلئے پنجاب کے لوگوں کو اپنا فرض سمجھنا چاہیے اور گھروں سے باہر نکل کر قربانیاں دینی چاہئیں۔
مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے انتظارپنجوتھا ایڈوکیٹ کواغواء کیاگیا لیکن پی ٹی آئی نے ان کی بازیابی کیلئے ایک دن بھی مظاہرہ نہیں کیا۔یہ کہاگیا کہ جنہوں نے انتظارپنجوتھا کو اغواء کیاتھا وہ پشتو اسپیکنگ تھے ، آخرپی ٹی آئی والوں نے اس جھوٹے بیانیے کو تسلیم کیوں کیا؟ کیااس کاالزام پشتونوں پر ڈالنا جائز ہے ؟ کیا وہ اس طرح پشتون پنجابی فساد کراناچاہتے ہیں جس طرح فوج اورآئی ایس آئی کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات کراتی رہی ہے؟پی ٹی آئی کے کارکنان اس پر غور کریں کہ آئی ایس آئی کے ایجنٹس PTI میں داخل کردیئے گئے ہیں جو MQM-P کی طرح فوجی پی ٹی آئی بنانا چاہتے ہیں؟
پی ٹی آئی کی موجودہ کمپرومائز لیڈرشپ تومصلحت سے کام لے رہی ہے جبکہ عمران خان نے اپنی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خان کے ذریعے یہ پیغام دیاہے کہ لوگوںکو ملک میں انقلاب کے لئے باہرنکلناچاہیے۔
میں سمجھتاہوں کہ پاکستان میں آئین اورقانون میں آمرانہ ترامیم کے ذریعے جس طرح میرٹ، اہلیت اورسینیارٹی کاقتل کیا جارہاہے، جس طرح ملک میں آمریت مسلط کی جارہی ہے اورآئین، قانون، جمہوریت، عدلیہ کی آزادی وخودمختاری اورانسانی حقوق کاگلا گھونٹاجارہاہے، اس کے پیش نظر اب شہری آزادیوں کے لئے ملک میں عوامی انقلاب کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے ۔ تمام جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں، سیاسی کارکنوں، وکلاء ، صحافیوں اورانسانی حقوق کے احترام پر یقین رکھنے والے تمام عوام کوباہرنکلنا چاہیے اورملک کوجبروستم اورگھٹن کے ان ہتھکنڈوں سے نجات اوراپنی آزادیوں کے لئے عملی جدوجہد کاآغازکرناچاہیے اوراپنے آپ کوہرقسم کی قربانی دینے کے لئے تیاررہناچاہیے۔
الطاف حسین
ٹک ٹاک پر147ویں فکری نشست سے خطاب
4، نومبر2024ئ