سانحہ 31،اکتوبر1986ء کی کہانی
ایم کیوایم کے بانی وقائد جناب الطاف حسین کی زبانی
ترتیب وتدوین :
قاسم علی رضا(مرکزی انفارمیشن سیکریٹری ایم کیوایم )
پاکستان میں مہاجروں کاقتل عام کیاجاتارہا ہے لیکن31، اکتوبر1986ء کو سہراب گوٹھ کراچی اور مارکیٹ چوک حیدرآباد میں ایک سانحہ رونما ہوا جس میں پاکستان کی فوج اورآئی ایس آئی نے باقاعدہ مہاجروںکا اعلانیہ قتل عام کاآغاز کیا ۔بدقسمتی سے اس سانحے کے بارے میں صوبہ پنجاب ، صوبہ خیبرپختونخوا، صوبہ بلوچستان اور اندرون سندھ کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کو سرے سے علم ہی نہیں ہے کہ 38 سال قبل کس طرح کراچی اورحیدرآباد میں باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے مہاجروں کو قتل کیاگیا۔اس سانحہ کی المناک اور دردناک تفصیلات سے قبل نوجوان نسل کو تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنا ضروری ہے ۔
جامعہ کراچی میں 11 ، جون1978ء کو آل پاکستان مہاجراسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی گئی پھر یہ تحریک سندھ کے شہری علاقوں کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکول میں پھیل گئی اور ہر تعلیمی ادارے میں اے پی ایم ایس او کے یونٹس قائم ہوگئے ۔
اے پی ایم ایس او کے قیام کو ابھی تین برس ہی گزرے تھے کہ جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او کو ختم کرنے کی سازش پر عملدرآمد شروع کردیا گیا۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں جماعت اسلامی کی بغل بچہ طلباء تنظیم اسلامی جمعیت طلباء کو ریاست کی مکمل سرپرستی حاصل تھی ۔ ملک بالخصوص صوبہ پنجاب اور سندھ کے تقریباً تمام تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلباء (IJT) کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا ایسا راج ہواکرتاتھاکہ کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ وہ جمعیت کے خلاف اپنے نظریات کاپرچارکرسکے۔جامعہ کراچی میں پروگریسیو اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنان کو جمعیت کے تھنڈراسکواڈ یا تو شہید وزخمی کردیاکرتے تھے یا انہیں خاموش کرادیا جاتا تھا۔ پنجاب میں جمعیت کی غنڈہ گردی کاراج قائم تھا جوکہ آج بھی قائم ہے ۔
جامعہ کراچی میں اے پی ایم ایس او کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے اسٹیبلشمنٹ شدید بوکھلاہٹ کا شکارتھی ،آئے دن اے پی ایم ایس او کے کارکنان کو ہراساں کیاجاتا تھا۔3 فروری1981ء کو جامعہ کراچی میں نئے طلباء کی رہنمائی کیلئے لگائے گئے اے پی ایم ایس او کے اسٹالوں پر اسلامی جمعیت طلباء کے تھنڈراسکواڈ کے دہشت گردوں نے مسلح حملہ کردیا،تمام اسٹالوں کو توڑکرآگ لگادی اور اے پی ایم ایس اوکے بہت سے کارکنان کو تشددکرکے زخمی کردیا۔ اس کے بعد بندوق کی نوک پرجامعہ این ای ڈی اور جامعہ کراچی سمیت کراچی کے تمام تعلیمی اداروںسے باہر نکال دیاگیا۔ جمعیت کی جانب سے مہاجرطلباء پر یہ شرط عائد کی گئی کہ اگر وہ اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ اے پی ایم ایس او سے علیحدگی اختیار کرکے جمعیت میں شمولیت اختیارکریں اورجمعیت کیلئے کام کریں ورنہ انہیں تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
جب ہمیں طاقت کے ذریعے شہری سندھ کے تمام تعلیمی اداروں سے نکال دیا گیا تو ہم سرجوڑ کر بیٹھے اور طے کیاکہ اب ہم گلیوں ، محلوں میں اپناپیغام ، فلسفہ ، نظریہ اور سیاسی سوچ وفکر کوپھیلائیں گے ، اس طرح ہم نے گلی گلی اور محلہ محلہ اپنا کام شروع کردیا، کراچی اورحیدرآباد کی کوئی گلی اورمحلہ ایسا نہ تھا جہاں ہم نے دن رات کام کرکے اپناپیغام نہ پھیلایا ہو۔ اس طرح اے پی ایم ایس او کے ساتھ ساتھ ایم کیوایم کے یونٹس بھی قائم ہونے لگے اور 18، مارچ1984ء کو ایم کیوایم کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیاگیا ۔ اے پی ایم ایس او کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے مہاجرقومی موومنٹ کی شکل میں ایک عوامی سیاسی تنظیم یعنی اپنی مدرآرگنائزیشن کو جنم دیا ۔ اس سے قبل سیاسی جماعتیں اپنی اپنی طلباء تنظیم قائم کیاکرتی تھیں۔
1986ء تک ہم گلیوں ، میدانوں ، گھروں اور عمارتوں کی چھتوں پر دس ہزار سے زائد چھوٹے بڑے اجتماعات کرچکے تھے اورشادی ہالوں میں اے پی ایم ایس او کا یوم تاسیس منایاکرتے تھے جبکہ کراچی ، حیدرآباد اور لاڑکانہ تک تنظیم سازی کی جاچکی تھی ۔ پھر فیصلہ کیاگیا کہ اے پی ایم ایس او کا 8 واں کنونشن عوامی سطح پر منایاجائے لہٰذا 8، اگست1986ء کو ہم نے کراچی کے تاریخی نشترپارک میں اے پی ایم ایس او کے آٹھویں یوم تاسیس اور ایم کیوایم کے پہلے عوامی جلسے کے انعقاد کااعلان کردیا ۔
ایم کیوایم سے قبل پیپلزپارٹی ، جمعیت علمائے پاکستان ، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں اپنے عوامی جلسے نشترپارک کراچی میں منعقد کیاکرتی تھیں لیکن 8، اگست1986ء کو ایم کیوایم کاپہلا عوامی جلسہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے نشترپارک کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ثابت ہوا اور اس جلسہ عام میں نظم وضبط کاایسا مظاہرہ دیکھنے میں آیاجس کی کوئی مثال آج تک کوئی پیش نہ کرسکا۔ نشترپارک کراچی میں ایم کیوایم کے پہلے عوامی جلسہ عام کی کوریج کرنے والے صحافی اس جلسہ عام کے مثالی نظم وضبط کی گواہی دے سکتے ہیں ۔ نہ صرف جلسہ گاہ بلکہ اطراف کی سڑکوں پر بھی دوردور تک انسانوں کا سمندردیکھنے میں آیا۔اس جلسہ سے پہلے شہرمیں موسلا دھار بارش ہوئی ۔ جب جلسہ عام سے میری تقریر شروع ہوئی توایک بارپھربارش شروع ہوگئی اور بونداباندی طوفانی بارش میں تبدیل ہوگئی ۔جیسے جیسے میرا خطاب آگے بڑھتارہا ویسے ویسے بارش کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ میری تقریرکے دوران پورانشترپارک پانی میں ڈوب گیا لیکن شرکاء نے مثالی نظم وضبط کا مظاہرہ کیا ،اس بارش کی وجہ سے نہ میں اسٹیج سے اترکرگیااورنہ میرے ساتھی جلسہ چھوڑ کرگئے۔ ہم بھی بارش میںبھیگتے رہے اورمیرے ساتھی بھی بارش میں بھیگتے رہے اور آخروقت تک بیٹھے رہے ۔
اس جلسہ عام کی عظیم الشان کامیابی کے بعد ایم کیوایم کے خلاف سازشیں تیز ہوگئیں ، ایک طرف مبارکباد ملنے کا سلسلہ جاری تھا تو دوسری طرف میں نے مرکزی کمیٹی کے ساتھیوں کو ہوشیار کرتے ہوئے کہاکہ اللہ مبارک کرے لیکن آپ کو مزید خطروں کیلئے خود کوتیار رکھنا ہوگا اور بہت ہوشیار اوردانشمندی کے ساتھ تنظیمی کام کوجاری رکھنا ہوگا کیونکہ اب اسٹیبلشمنٹ ہمارے خلا ف سازشیں کرے گی ، فوج اورآئی ایس آئی نے ایم کیوایم پر جو الزامات لگائے تھے ان کو مزید تقویت دینے کیلئے صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد (KPK) کے لوگوںمیں ایم کیوایم کودہشت گرد تنظیم بناکر پیش کیاجائے گا۔
کراچی میں ایم کیوایم کے پہلے جلسہ عام کی کامیابی کے بعد سندھ کے دوسرے بڑے شہرحیدرآباد ، جہاں مجھ سے پیار کرنے والے لوگ بستے ہیں اورمیں آج بھی فخر سے کہتا ہوں کہ حیدرآبادآج بھی میرے چاہنے والوں کا شہر ہے، ان کی جانب سے یہ مطالبہ شدت اختیارکرنے لگا کہ اب جلدسے جلد دوسرا بڑا جلسہ حیدرآباد میں منعقد کیاجائے ۔ ان مطالبات کی روشنی میں مرکزی کمیٹی کے ارکان کے اجلاس اور صلاح ومشوروں کا سلسلہ تین ماہ تک جاری رہا ، بلا خر یہ طے کیاگیا کہ31، اکتوبر1986ء کو حیدرآبادکے پکا قلعہ گراؤنڈ میں ایم کیوایم کا دوسراعوامی جلسہ منعقد کیاجائے گا۔ اس دن منعقد ہونے والا جلسہ عام حیدرآباد کی تاریخ کاسب سے بڑا جلسہ ثابت ہوا اور 31، اکتوبر کو خواتین اورمردوں نے اپنے گھروں پر رہنے کے بجائے جلسہ گاہ میں شرکت کو ترجیح دی ۔پکاقلعہ گراؤنڈ عوام سے کھچاکھچ بھراہواتھا اور پکاقلعہ اوراطرف کی سڑکوں پر میلوں میل تک عوام پھیلے ہوئے تھے ۔ پورے شہرکے لوگ جلسہ گاہ اوراطراف کی سڑکوںپرتھا۔
پکاقلعہ حیدرآبادکے جلسہ عام میں شرکت کرنے والے کراچی سے جانے والے کارکنان کو ہدایت کردی گئی تھی کہ وہ نظم وضبط کامظاہرہ کریں گے اور کراچی سے جانے والے زیروپوائنٹ سے حیدرآبادشہر میں داخل ہونے تک کوئی نعرے بازی نہیں کرے گا اور جب قافلے حیدرآباد میں داخل ہوجائیں تووہ بے شک نعرے لگاسکتے ہیں۔ کراچی سے حیدرآبادجانے والے کارکنان وعوام کی سہولت کیلئے کراچی میں جگہ جگہ استقبالیہ کیمپس لگائے گئے تھے جہاں کارکنان وعوام کی رہنمائی کی جارہی تھی کہ کب اور کس طرح حیدرآباد کیلئے روانہ ہونا ہے ۔ان استقبالیہ کیمپوں پر ایم کیوایم کے تنظیمی ترانوں سے علاقوں مین جشن کاسماں دیکھنے میں آرہا تھا ۔ایم کیوایم کے تنظیمی ترانوں نے شہربھرمیں عوامی جوش وخروش کاماحول پیداکردیاتھا۔ ایم کیوایم واحد سیاسی جماعت تھی جس نے سیاسی جلسوں میں تنظیمی ترانوں کا رواج ڈالا اس سے قبل کسی بھی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ترانوں کا رواج نہیں تھا۔
پکاقلعہ کے جلسہ سے ایک دن قبل یعنی 30 اکتوبر1986ء کو شام 5 یا6 بجے نائن زیروپر ڈپٹی کمشنر ایسٹ اشفاق میمن نے فون کرکے مرکزی کمیٹی کے ارکان سے کہاکہ ڈی سی ایسٹ کے آفس میں ایک میٹنگ ہے اپنے نمائندوں کو بھیج دیں ، ہمارے ذہن میں سوال آیا کہ یہ اچانک میٹنگ کیوں رکھی گئی ہے لیکن چونکہ ہمارے دل میں کوئی چور نہیں تھا لہٰذا ہم نے اپنے دس ارکان اس میٹنگ میں بھیج دیئے ۔ اس میٹنگ میںشرکت کرنے والے ساتھیوں نے واپس آکر بتایاکہ ڈپٹی کمشنراشفاق میمن کے دفترمیں سہراب گوٹھ کے پشتون عمائدین بھی شریک تھے اور ان کی جانب سے خدشہ ظاہرکیاگیا ہے کہ کراچی سے حیدرآبادجانے والاجلوس سہراب گوٹھ پرحملہ کرے گا۔ یہ سن کرہمیں بہت تشویش ہوئی کہ ہم کراچی سے 100 میل دور اپنے جلسے میں شرکت کیلئے جارہے ہیں ،ہم کسی علاقے پر حملہ کرکے اورکسی سے لڑائی جھگڑا کرکے اپنا جلسہ کیوں خراب کریں گے ؟
اب پنجابی ، پختون اور بلوچ بھائی جواب دیں کہ جب کوئی اپنی مائیں ، بہنیں ، بزرگ اور معصوم بچے لیکر جلسہ میں شرکت کے لئے جارہاتووہ کسی قسم کا کوئی ہنگامہ کرکے اپنا جلسہ کیوں خراب کرے گا؟
ایم کیوایم کی جانب سے اخبارات میں یہ اعلان ہوچکاتھا کہ 31، اکتوبر کو صبح 11 بجے ایم کیوایم کے قافلے عائشہ منزل فیڈرل بی ایریاسے واٹرپمپ چورنگی کے راستے روانہ ہوں گے اورسپرہائی وے کے راستے حیدرآباد جائیںگے۔ الطاف حسین اس جلوس کی قیادت کریں گے اور تمام بسیں اوردیگر گاڑیاں عائشہ منزل سے کریم آباد تک قطارمیں اس طرح کھڑی کی جائیں گی کہ ٹریفک کی روانی متاثرنہ ہو۔ جلوس کی قیادت کیلئے مجھے ایسی گاڑی میں جانا تھا جس میں ، میں کھڑے ہوکر عوام کو نظرآسکوں۔
ڈسٹرکٹ ایسٹ کا ڈپٹی کمشنر اشفاق میمن جوکہ آئی ایس آئی کاایجنٹ تھا اور اس نے آئی ایس آئی کی سازش کے تحت یہ منصوبہ بندی کررکھی تھی اور اسی منصوبہ کے تحت وہ میٹنگ بلائی گئی تھی ۔آئی ایس آئی کا منصوبہ یہ تھا کہ سہراب گوٹھ پر حملے کے خدشے کی آڑ میں مجھ پر اورجلوس کے شرکاء پرقاتلانہ حملہ کرکے شہرمیں پختون مہاجرفسادات کرائے جاسکیں ۔ میٹنگ میں ڈپٹی کمشنراشفاق میمن اورسہراب گوٹھ کے پشتون عمائدین کی جانب سے کئے جانے والے اس خدشے کے بعد کہ کل سہراب گوٹھ پرحملہ کیاجاسکتا ہے، میں نے مرکزی کمیٹی کے ارکان کو تاکید کردی کہ فوری طورپر شہربھرمیں ایم کیوایم کے تمام ذمہ داران اورکارکنان تک سینہ بہ سینہ یہ پیغام پہنچادیں کہ سہراب گوٹھ سے گزرتے ہوئے کسی بھی قسم کی کوئی نعرے بازی نہ کی جائے اور سب بہت چوکنا رہیں ۔ ایم کیوایم کا سینہ بہ سینہ پیغام رسانی کاطریقہ پہلے بھی بہت منظم تھا آج بھی قائم ہے ۔
رات 2 بجے تک مجھے بے چینی رہی اور میں سوچتا رہا کہ اس سازش کو کس طرح ناکام بنایاجائے ، پھر قدرت نے میرے ذہن میں یہ خیال ڈالا کہ سہراب گوٹھ کے مقام پر جلوس پر حملے کی سازش کی گئی اور مجھے کھلی گاڑی میں گولی مارکرخدانخواستہ قتل بھی کیاجاسکتا ہے یا جلوس میں گڑبڑ کرکے ہمارا جلسہ خراب کیاجاسکتا ہے لہٰذا میں نے اسی وقت مرکزی کمیٹی کی رکن زرین مجید باجی کو پیغام بھیجا کہ جلسہ میں پہننے کیلئے کپڑوں کاایک جوڑا لیکر فوری نائن زیروپہنچ جائیں ، اس دوران حیدرآباد کے ساتھیوں کو پیغام دیا کہ فوری طور پر حیدرآباد میں واقع ہوٹل میں پانچ چھ کمرے بک کرالیں۔اس کے بعدمیں ،زرین مجید باجی اور ڈاکٹرعمران فاروق کے ہمر اہ صبح 5 بجے خاموشی سے حیدرآباد کیلئے روانہ ہوگیا ۔ صبح 7 بجے کے قریب ہم حیدرآباد پہنچے اورہوٹل میں قیام کرلیا۔ وہاں ہم نے آپس میں مشورہ کرکے روزنامہ جنگ اورروزنامہ ڈان سمیت چارپانچ سینئر صحافیوں کو بلوالیا تاکہ وہ بھی گواہ رہیں کہ ہم کب سے حیدرآباد میں ہیں اور انہیں جلسہ عام میں پیش کی جانے والی قراردادوں کی کاپیاں فراہم کردیں۔ اسکے بعد ہم جلسہ گاہ میں جانے کیلئے تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
دوسری طرف جب کراچی سے حیدرآبادجانے والا ایم کیوایم کے جلوس کی گاڑیاں سہراب گوٹھ پہنچیںاور سازشی عناصر کو کسی بھی گاڑی میں الطاف حسین نظرنہیں آئے لیکن اسی دوران ایک کار تیزی سے نکلی تو آئی ایس آئی کے ایجنٹوں نے یہ سمجھ کر کہ اس گاڑی میں الطاف حسین ہوسکتے ہیں، اس کاراوربسوں پر فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں ہمارے سات نوجوان موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ درجنوں ساتھی شدیدزخمی ہوگئے ۔ سہراب گوٹھ پر فائرنگ کی اطلاع حیدرآباد میں پہنچ چکی تھی ۔جلسہ گاہ میں ساتھی مجھ سے ملنے آئے تو کافی فکرمند تھے اور بعض ساتھیوں کی آنکھوں میں نمی تھی میرے پوچھنے پر انہوںنے بتایاکہ سہراب گوٹھ پر ہمارے جلو س پرفائرنگ ہوگئی ہے ۔ میں نے تمام رہنماؤں کو سختی سے تاکید کردی کہ فائرنگ کے واقعے کا کوئی ذکر نہیں کرے گا ۔ ابھی مقررین کی تقاریر جاری تھیں کہ پتہ چلاکہ کراچی سے آنے والے جلوس پر حیدرآبادمیں مارکیٹ چوک پربھی ایک پٹھان کے ہوٹل سے فائرنگ کی گئی ہے اور یہاں بھی6 ساتھی شہید اورکئی زخمی ہوگئے ہیں ۔ یہ پٹھان مہاجر فسادات کی سازش کامنصوبہ تھا، اسی لئے حیدرآبادمیں فائرنگ کیلئے ایک پٹھان کے ہوٹل کو چنا گیا۔ جب میں جلسہ سے خطاب کرنے ڈائس پر پہنچا تو میں نے اپنی تقریر میں سہراب گوٹھ کراچی اور مارکیٹ چوک حیدرآباد میں جلوس پر فائرنگ کا تذکرہ تک نہیں کیا، مجمع سے آوازیں آنے لگیں کہ سہراب گوٹھ اور مارکیٹ چوک پر فائرنگ ہوگئی ہے جس پر میں نے کہاکہ ہمارے پاس کچھ اطلاعات آرہی ہیں اور ہم تحقیقات کررہے ہیں آپ لوگ صبروتحمل کامظاہرہ کریں اورپرامن رہیں ۔ اگر میں جلسہ عام میں یہ کہہ دیتا کہ کراچی میں سہراب گوٹھ اورحیدرآباد میں مارکیٹ چوک پرہمارے جلوس پر پٹھانوں نے فائرنگ کی ہے تو کراچی اورحیدرآباد میں پختون مہاجر فسادات پھوٹ پڑتے ۔
جلسے کے بعدہم طے شدہ مقام پر پہنچے اور مرکزی کمیٹی کااجلاس بلایا ۔اس دوران کراچی میں ہنگامے شروع ہوگئے تھے اور آئی ایس آئی والوں نے کراچی میں پٹھان مہاجر فسادکی جھوٹی خبریں پھیلانی شروع کردیں تھیں ۔ ہم نے طے کیاکہ ان فسادات کو رکوانا بہت ضروری ہے لہٰذا فیصلہ کیاگیاکہ چیئرمین عظیم احمدطارق میرپورخاص جائیںگے، مرکزی کمیٹی کے ارکان سندھ کے مختلف شہروں میں بھیجاگیا اورمیں کراچی کیلئے روانہ ہوا تاکہ کراچی جاکر صورتحال کو کنٹرول کیاجائے اور فسادات کوروکاجاسکے ۔ میں نے ساتھیوں کو تاکیدکردی تھی کہ ہرصورت پٹھان مہاجر فسادات رکوانے ہیں ۔ نہ تو مہاجروںنے فائرنگ کی ہے اورنہ ہی پٹھانوں نے ہم پر حملہ کیاہے۔ فائرنگ کے یہ واقعات آئی ایس آئی نے پختون مہاجرفسادات کیلئے کرائے ہیں۔
علی الصبح میں، نیشنل ہائی وے کے راستے حیدرآباد سے کراچی کے لئے روانہ ہوا ۔صبح 5 بجے جب ہماری گاڑیاں گھگھرپھاٹک پہنچیں تو وہاں پہلے سے موجود پولیس نے ہمیں روک لیا ، میں اپنی گاڑی سے باہر نکلاتوپولیس نے مجھے گرفتارکرلیا۔ مجھے پہلے ملیرپولیس اسٹیشن لے جایاگیا۔ وہاں ڈی سی ایسٹ نے مجھے ایک کمرے میں بلاکرکہا کہ حیدرآباد جانے والے آپ کے جلوس میں شامل لوگوںنے کراچی اور حیدرآبادمیں پختونوںپر فائرنگ کی ہے ، آپ اس جلوس کی قیادت کررہے تھے اور آپ ہی نے اپنی جیپ رکواکر فائرنگ کرنے کا اشارہ کیاتھا۔ میں حیرت سے انہیں دیکھتارہا اور انہیں بتاتارہا کہ میں تو گزشتہ روزصبح پانچ بجے ہی حیدرآبادکیلئے روانہ ہوگیا تھااورصبح سات بجے حیدرآبادپہنچ چکاتھا اوروہیں موجود تھا جس کے گواہ بھی موجود ہیں لیکن انہوں نے میری بات پر کوئی توجہ نہیں دی اورمجھے گرفتارکرلیاگیا۔ میرے خلاف مقدمہ بنایاگیا کہ جلوس کی قیادت الطاف حسین کررہے تھے اورجلوس کے شرکاء نے اشتعال انگیز نعرے لگائے ، یہ نعرے بھی آئی ایس آئی کے بنائے ہوئے تھے کہ'' سندھی مہاجربھائی بھائی… دھوتی نسوار کہاں سے آئی''…مجھے گرفتارکرکے پہلے کلاکوٹ تھانے میں رکھاگیا پھر وہاں سے بلدیہ کمپلیکس سینٹرمیں شفٹ کردیاگیا۔ اب میں نہ شہداء کے گھروں پرتعزیت کیلئے جاسکتاتھا اورنہ ہی فسادات رکوانے کیلئے کوششیں کرسکتاتھا۔اس دوران ایم کیوایم کے ذمہ داران
مجھے تلاش کرتے رہے۔انہوں نے تمام پولیس اسٹیشن، اسپتال حتیٰ کہ اسپتالوں کے مردہ خانے تک چیک کئے ، تمام تھانے اورڈی سی آفس انکارکرتے رہے کہ ہم نے الطاف حسین کو گرفتارنہیں کیاہے ۔انہوں نے مجھے لاپتہ کردیاتھا۔مجھے17 دن تک ایک جنگل بیابان میں آئیسولیشن میں رکھاگیا ،وہاں مجھ پر17دن تک بدترین ٹارچرکیاجاتارہا ۔اس وحشیانہ تشدد کی تکالیف میں آج تک محسوس کرتاہوں، تشدد کے باعث اندرونی چوٹوں سے کئی بیماریوں کا شکارہوگیا۔جب میری بڑی بہن محترمہ سائرہ بیگم اورچھوٹے بھائی اسرارحسین نے ہائی کورٹ میں میری گرفتاری اور گمشدگی کے خلاف پٹیشن دائر کی تو 17دن بعدمیری گرفتاری ظاہر کرکے مجھے کراچی سینٹرل جیل منتقل کیاگیا۔ جب میں مجھے جیل منتقل کیا گیا تو وہاں مجھے پتہ چلاکہ ایم کیوایم کے پانچ ہزار سے زائد کارکنان کو گرفتارکرکے جیل میں قید کیا گیا تھا۔
میں، کراچی سینٹرل جیل میں اسیر تھاکہ اس دوران 14 دسمبر1986ء کو سانحہ قصبہ علیگڑھ رونماہوگیا۔ اس وقت ہمارے پاس ایک چھوٹا ساریڈیوتھا جس پر ہم بی بی سی نیوز سناکرتے تھے ۔ سانحہ قصبہ علیگڑھ کی خبرمجھے بی بی سی کے ذریعے ملی کہ کس طرح قصبہ کالونی اورعلی گڑھ کالونی کی پہاڑیوں سے مسلح افراد اترے ،جنہوں نے گھروں
کو لوٹ کرآگ لگائی اوروہاں قتل وغارتگری کابازارگرم کیا۔چھ گھنٹے تک قصبہ کالونی اورعلی گڑھ کالونی میں مہاجروںکا قتل عام ہوا لیکن کوئی انہیں بچانے نہیں آیا۔ مہاجروں کے اس وحشیانہ قتل عام کوبھی ایک سازش کے تحت پختون مہاجر فساد کارنگ دینے کی کوشش کی گئی۔
جیل میں اسیری کے دوران میری کوشش رہی کہ کسی طرح پختون قیادت سے میرا رابطہ ہوجائے تاکہ پختون مہاجر فساد کی سازش کوناکام بنایا جاسکے ۔ ان دنوں جیل میں اے این پی کے ایک رہنما ڈاکٹر اسلم جان سے میری ملاقات ہوئی ،میں نے ان سے پوچھا کہ خان عبدالولی خان صاحب سے کس طرح ملاقات ہوسکتی ہے ، انہوں نے مشورہ دیاکہ آپ ان کے نام ایک خط تحریرکریں اوراپنا وفد تیارکرلیں ، میں خود بھی ولی خان صاحب سے رابطہ کرکے ان سے کہتاہوں کہ ایم کیوایم کاوفد پشاورمیں ان کی رہائش گاہ ولی باغ آناچاہتا ہے ۔جس پر میں نے عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ خان عبدالولی خان صاحب کے نام ایک تفصیلی خط لکھاجس میں ،میں نے پختون مہاجرفساد کی سازش کی پوری داستان لکھ دی ۔میں نے یہ خط ایم کیوایم کی مرکزی کمیٹی کوپہنچایا کہ اسے فوری طورپر خان ولی خان صاحب تک پہنچائیں۔ چنانچہ مرکزی کمیٹی کے ارکان چیئرمین عظیم احمد طارق کے ہمراہ ولی باغ پہنچے ، انہوںنے میرا خط ولی خان صاحب کو دیا اوران سے درخواست کی تھی کہ میراخط پڑھ کرپھاڑدیںتاکہ قیام امن کیلئے ہماری مشترکہ کاوشوں کاآئی ایس آئی کوعلم نہ ہوسکے ۔میرے اس خط کوپڑھ کرخان عبدالولی خان صاحب آبدیدہ ہوگئے اورپختون مہاجر فساد کی سازش کی تفصیلات سن کرسرپکڑ کربیٹھ گئے ۔ان دنوں ولی خان صاحب پر غداری کامقدمہ چل رہا تھا اور ان کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پرپابندی لگ چکی تھی ۔ ولی خان صاحب اچھی طرح واقف تھے کہ آئی ایس آئی کس طرح سازشیں کرتی ہے ، وہ پٹھان مہاجرفسادات کی سازش کو سمجھ گئے اورہماری مشترکہ کوششوں سے پختون مہاجر فساد کی سازش ناکام ہوگئی۔
اس کے بعد اے این پی کے سربراہ خان ولی خان نائن زیرو تشریف لائے ، ہم نے ان کے اعزاز میں جناح گراؤنڈعزیزآباد میں استقبالیہ دیا تھا، بزرگ رہنما اجمل خٹک صاحب بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ اس موقع پر خان ولی خان صاحب نے تاریخی جملے ادا کرتے ہوئے کہاتھا کہ ''اگر کوئی کسی مہاجرکو مارے گا تو ولی خان اس گولی کو اپنے سینے پر گولی سمجھے گا اسی طرح اگر کوئی کسی پختون کومارے گا تو اس کو لگنے والی گولی الطاف حسین اپنے سینے پر گولی سمجھے گا۔
ولی خان صاحب اور اجمل خٹک صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ (آمین)
23، مارچ1990ء میں اپوزیشن جماعتوں کے متحدہ حزب اختلاف (COP) کا جلسہ مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہوا تھا، میں نے اس جلسے میں شرکت کی تھی اوراپنے خطاب میں پنجاب کے عوام کو پیغام دیا تھا کہ جاگیرداروں ، زمینداروں ، وڈیروں اورسرمایہ داروں کی طر ف دیکھنے کے بجائے اپنی صفوں سے قیادت نکالیں اورانہیں منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجیںتاکہ ایوانوں میں غریب ومتوسط طبقہ کے عوام کے مسائل پر بات کی جاسکے ۔اس کے بعد پشاور میں بھی COP کاجلسہ ہونا تھا اور اس جلسے میں شرکت کیلئے مجھے بھی جاناتھا ، اس سلسلے میں تمام تیاریاں ہوچکی تھیں کہ اے این پی سینئر رہنما حاجی غلام احمد بلور صاحب کا فون آیا ، انہوں نے کہاکہ ہم نے کسی کے ہاتھ آپ کیلئے پیغام بھیجاہے ، وہ آپ سے ملنے آئیں گے آپ ان سے مل لیجئے اور جیسا وہ کہیں ویسا ہی کرلیجئے ۔ اس کے بعد اے این پی کے ایک ذمہ دار میرے پاس آئے اورانہوںنے بتایاکہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ پشاور میں آپ پر قاتلانہ حملہ کیاجائے گالہٰذا آپ وہاں نہ جائیں ۔ اس اطلاع کے بعد مرکزی کمیٹی نے مجھے پشاور کے جلسے میں شرکت سے روک دیا۔
میں تحریک کے شہداء کے صدقے مہاجرنوجوانوں سے اپیل کرتاہوں کہ اگرکوئی لسانی فسادات کرانے کی کوشش کرے تو اسے روکیں، کسی بھی قسم کے فساد ات کی آگ بجھائیں ، اس قسم کی سازش کو اپنے اتحاد سے ناکام بنادیںاورآپس میں بھائی چارہ برقراررکھیں۔یہ آپ کے قائد الطاف حسین کا آپ کو حکم ہے۔
آج سانحہ سہراب گوٹھ کراچی اورمارکیٹ چوک حیدرآبادکے شہداء کی 38 ویں برسی ہے ۔میں تحریک کے تمام شہداء کوخراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور دعا گوہوں کہ اللہ تعالیٰ تمام شہداء کو اپنی جوار رحمت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے ،ان کے درجات بلند فرمائے اورشہداء کے لواحقین کوصبرجمیل عطا کرے ۔) آمین ثمہ آمین(
ٹاک ٹاک پر144 ویں فکری نشست سے خطاب
31، اکتوبر2024ئ
٭٭٭٭٭