جس جبراورغنڈہ گردی کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم کرائی گئی ہے اس سے ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی رہی سہی حرمت وتقدس کاجنازہ نکل گیاہے ۔ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کو بانجھ بنادیا گیا ہے.الطاف حسین
آئینی ترامیم کے لئے 20اور 21اکتوبر کی درمیانی شب صبح پانچ بجے تک پارلیمنٹ کے ارکان جاگتے رہے کیونکہ موجودہ حکومت ، شہباز شریف ،میاں نواز شریف، آصف زرداری اور بلاول زرداری کووہ آئینی ترمیم کرانی تھی مزے کی بات یہ ہے کہ آئینی ترامیم کااصل مسودہ 99.9 فیصد پارلیمنٹرین نے نہ تو دیکھا تھا اورنہ ہی پڑھا تھالیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے سینیٹرز اورارکان قومی اسمبلی کو شریف برادران ، آصف زرداری اورمولانافضل الرحمان نے ایک جگہ جمع کیا ، دوتہائی اکثریت کیلئے آٹھ سے دس ارکان کی کمی تھی تو PTI ، مولانافضل الرحمان اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمنٹرین کو اغواء کیا گیا ۔ 20 اکتوبر 2024ء کو اچانک کالے شیشے والی گاڑیوں میں سوار ان مغوی ارکان کو پارلیمنٹ کے پچھلے دروازوں سے پولیس ، رینجرز ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکاروں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس لایا گیا ، صحافیوں نے ان ارکان پارلیمنٹ سے سوالات کیے کہ کیا آپ اپنی مرضی سے ووٹ دے رہے ہیں یا کسی دباؤ کے تحت ووٹ دے رہے ہیں اور آپ 10 روز سے کہاں غائب تھے ؟ لیکن وہ ارکان پارلیمنٹ صحافیوں کے سوالات کے جواب دیئے بغیرمنہ چھپاکرجاتے رہے کیونکہ اغواکئے گئے ان ارکان پارلیمنٹ میں سے کسی کی ماں ، کسی کی بہن ، کسی کی بہو ، کسی کے بچوں کو اٹھایاگیا، انہیں اذیت پہنچاکر فون پر ان کی چیخیں سنوائی گئیں تاکہ ارکان پارلیمنٹ کو خوف زدہ کیاجاسکے ۔ انہیں سرکاری حراست میں ایوانوں میں لاکر ان سے آئینی ترامیم کیلئے زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے ۔ ایک سینیٹرگردے کے مریض ہیں ، انہیں حراست میں رکھاگیا اور اغواء کرنے والے انہیں خود ڈائیلائسز کرانے لیکر گئے تھے کیونکہ ان کیلئے ایک ایک ووٹ قیمتی تھا۔ اس طرح 26 ویں آئینی ترمیم پاس ہوگئی ۔ کون ساباضمیر فرد ہوگا جو اس طرح کے عمل کو جائز قراردے گا؟
جنہیں اغواء کیاتھا تھا انہیں انتہائی غلیظ ماحول میں رکھا گیا، اذیت دی گئی اورپھر ان سے زبردستی ووٹ ڈلوائے گئے۔ اب وہ مظلوم ارکان پارلیمنٹ انصاف مانگنے کہاں جائیں؟ جو اغواء کیے گئے ، ان کے ساتھ ، انکی ماں ، بہن ، بیٹیوں کے ساتھ جوسلوک کیاگیا ، اب وہ انصاف کیلئے کہاں جائیں ؟وہ انصاف کے حصول کیلئے عدالت کا رخ بھی کریں تو 26 ویں آئینی ترمیم لاکر حکومت نے تو سپریم کورٹ کو بانجھ کردیا ہے تو پھروہ انہیں انصاف کیسے دے سکتی ہے؟
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹرقاسم رونجھو جنہیں اغواء کرکے زبردستی ووٹ ڈلوایا گیا تھا ،وہ 22 اکتوبرکو اپنی پارٹی کے سربراہ اخترمینگل کی ہدایت پر انکے ہمراہ سینیٹ کی رکنیت سے استعفےٰ دینے پہنچے توسینیٹ کاعملہ وہاں سے غائب ہوگیا۔ سینیٹر قاسم رونجھو نے اخترمینگل اوردیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے میڈیاکوتمام تفصیلات سے آگاہ کیاکہ کس طرح انہیں اغوا کیاگیا، ان کے فون قبضے میں لے لئے گئے، گھروالوں سے رابطہ منقطع کردیاگیا۔ وہ سات دن تک قید میں رہے، انہیں جس جگہ رکھاگیا وہاں بہت مچھرتھے جس کی وجہ سے انہیں ملیریاہوگیا، وہ پہلے سے ہی بیمار ہیں اور ڈائلاسسز پر ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ طبیعت خراب ہوجانے کے باوجود انہیں گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، وہ انہیں اسپتال لے کرگئے اوراسی بیماری کی حالت میں لاکران سے ووٹ ڈلوایا گیا۔
میں، سرداراخترمینگل صاحب کوسلام پیش کرتاہوں کہ انہوں نے اس معاملے میں ہمت کامظاہرہ کیااور نتائج کی پرواہ کئے بغیرپریس کانفرنس کرکے اس پوری سازش کوبے نقاب کیااورپورے ملک کے عوام کو یہ بات معلوم ہوگئی۔ آئی ایس آئی کی غنڈہ گردی کی انتہایہ ہے کہ اس پریس کانفرنس میں حقائق بیان کرنے کے بعد سینیٹرقاسم رونجھوکودوبارہ اٹھایا گیا اور ان پر دوبارہ دباؤڈالاگیا کہ وہ اپنی پریس کانفرنس کوجھوٹا ثابت کرنے کے لئے وڈیولاگ نکالیں ورنہ انہیں سنگین نتائج بھگتناہوں گے۔ آئی ایس آئی کے دباؤ پر سینیٹرقاسم رونجھو نے وڈیوبیان ریکارڈ کرایا کہ انہوں نے پریس کانفرنس سردار اختر مینگل کے دباؤمیں آکر کی تھی۔
میراسوال ہے کہ جہاں فوج اورآئی ایس آئی اپنی مرضی کی آئینی ترامیم کرنے کے لئے ظلم وجبر کے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرے، آئین میں من مانی ترامیم کرکے عدلیہ سے اس کی آزادی اورخودمختاری چھین لی جائے،عدالتوں کوبانجھ بنادیا جائے، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کاتقرر سینیاریٹی کے مروجہ اصول کے تحت کرنے کے بجائے اپنے مفادات کے لئے اپنی مرضی کاچیف جسٹس مقررکیاجائے ، سینئر ترین ججوں کو روندتے ہوئے تیسرے نمبر کے جج کوسپریم کورٹ کاچیف جسٹس مقررکردیاجائے، جس ملک میں عدلیہ کی آزادی وخودمختاری اور انصاف کااس طرح کھلا قتل کیاجائے اورظلم وجبر کاایساننگا کھیل کھیلاجائے اس ملک کے لئے زندہ باد کا نعرہ کون لگائے گا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں نے مارچ 2024ء میں سپریم جوڈیشل کونسل کومشترکہ طورپرخط لکھا تھا اور تحریری طورپر شکایت کی تھی کہ آئی ایس آئی ان کے عدالتی معاملات میں دباؤ ڈالتی ہے، ان کے فون ٹیپ کئے جاتے ہیں، بچوں اوررشتہ داروں کوہراساں کیاجاتاہے،ہمارے گھروں حتیٰ کہ بیڈرومز تک میں خفیہ کیمرے لگائے گئے اورہماری وڈیوفلمیں بناکرہمیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی اورہم پر دباؤڈالاگیاکہ ہم آئی ایس آئی کی مرضی کے فیصلے دیں۔ آج کئی ماہ گزرجانے کے باوجود ان ججوں کی اس شکایت پر کاروائی نہ ہوسکی بلکہ شکایت کرنے والے ججوں کوہی الٹااتنا ہراساں کیاگیا کہ ان میں سےایک جج توملک چھوڑ کرچلے گئے۔ جہاں ہائیکور ٹ کے ججوں کوانصاف نہ مل سکے وہاں عام آدمی کو انصاف کیاخاک ملے گا؟
جس ملک میں مقتول کے لواحقین کوہی انصاف مانگنے پرقتل کردیاجائے،کسی بھی ماں،بہن بیٹی کی عزت محفوظ نہ ہو، کالجوں اوراسپتالوں میں بچیوں کوریپ کردیاجائے، انہیں موت کی نیند سلادیا جائے، اس کے خلاف پرامن احتجاج کرنے وا لوں کوہی گرفتارکیاجائے،مطلوبہ شخص کے نہ ملنے پر اس کے بیوی بچوں، بزرگ والدین اوربھائیوں کو گرفتارکرکے غائب کردیاجائے، ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جائیں وہاں زندہ باد کے نعرے کس منہ سے لگائے جائیں؟
عدلیہ کی آزادی وخودمختاری کوسلب کئے جانے اورظلم وجبر کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کواحتجاج کرنا چاہیے مگرافسوس کہ اس کی موجودہ لیڈرشپ پہلے ہی کمپرومائز ہوچکی ہے اورعمران خان کی ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی لائن پر چل رہی ہے، یہ باہرمزے کررہے ہیں جبکہ عمران خان جیل میں اذیتوں کاشکار ہیں۔ عمران خان کی بہنیں محترمہ علیمہ خان اورڈاکٹرعظمیٰ ،جوعمران خان سے ملاقات کے بعد ان کا صحیح پیغام باہر آکرعوام کو بتایاکرتی تھیں انہیں بھی گرفتارکرکے جیل میں ڈال دیاگیا ہے۔ عمران خان کواپنی بہنوں کی گرفتاری تک کاعلم نہیں تھا۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کااس طرح عمران خان کوتنہاچھوڑ دینا کہاں کی شرافت ہے؟پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی اورسینیٹرزکوسوچناچاہیے کہ وہ عمران خان کے نام پر ہی منتخب ہوئے تھے ۔انہیں اپنے لیڈر کاساتھ دیناچاہیے۔ کیاپی ٹی آئی کے رہنما، منتخب نمائندے اورکارکنان عمران خان کی موت کاانتظارکررہے ہیں؟
میں سمجھتاہوں کہ عدلیہ کی آزادی اورخودمختاری کے حصول کے لئے اور ریاستی جبرکے ہتھکنڈوں کے خلاف وکلاء اور پاکستان کے عوام کوباہرنکلناہوگااورملک کوحقیقی معنوں میں اس ظلم وجبر سے نجات دلانے کے لئے جدوجہد کرنی ہوگی۔
الطاف حسین
138ویں فکری نشست سے خطاب
23اکتوبر2024ئ