عصبیت کیا ہے ؟
مہاجروں نے تعصّب کیا یامہاجروں کے ساتھ تعصّب کیاگیا؟
کیاظلم اورمظلوموں میں تفریق کرنادرست ہے ؟
قائدتحریک الطاف حسین
(کارکنوں کی فکری نشست سے خطاب)
( 3جولائی 2024ئ)
ظلم ظلم ہوتاہے چاہے کسی پر بھی کیاجائے، اگرآپ ظلم کے خلاف ہیں توآپ کو ظلم کوظلم کہنا چاہیے خواہ وہ کسی بھی قوم پر ہو یاکسی بھی سیاسی جماعت پر کیاجائے ۔ اگر کسی قوم یاسیاسی جماعت پر ریاست یاکسی بھی جانب سے کوئی ظلم ڈھایاجائے تو محض اس بنیاد پر کہ جس پر ظلم کیا جارہاہو وہ آپ کی قوم یاقومیت یامذہب یاعقیدہ ومسلک سے تعلق نہیں رکھتا، اس پرہونے والے مظالم کی مذمت نہ کرنااوراس مظلوم کا ساتھ دینے کے بجائے ظالموں کے ساتھ شامل ہوجاناسراسر زیادتی، منافقت اورتعصّب کے زمرے میں آئے گا۔
اس حوالے سے نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفےٰ ۖ کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ ایک بار کسی شخص نے حضور ۖ سے دریافت کیا کہ عصبیت کیا ہے ؟ کیااپنی قوم سے محبت کرنا، اس کی حمایت کرنا، اس کاساتھ دینا تعصّب ہے؟ اس پر حضور ۖ نے فرمایا، '' اپنی قوم یاقبیلے سے محبت کرنایااس کی حمایت کرنا عصبیت نہیں، البتہ تمہاری قوم یا قبیلے کی جانب سے کسی دوسری قوم یاقبیلے پر کوئی ظلم کیاجائے اورایسی صورت میں تمہارا اپنی قوم یاقبیلے کے ظالموں میں شامل ہوجانااوراسکے ظلم کودرست اور جائز قرار دینا عصبیت ہے '' ۔
مہاجرقوم کسی بھی قوم یاقبیلے سے نفرت یاعصبیت نہیں رکھتی ، اگرہم دوسروں سے تعصّب کرنے پر یقین رکھنے والے ہوتے توہمارے آباواجداد ایسے پاکستان کے لئے ہرگزہرگز جدوجہدنہ کرتے جس پاکستان کے جغرافیے میں ان کے علاقوں کو شامل نہیں ہوناتھا بلکہ پاکستان جن علاقوں میں بن رہا تھا اس کے جغرافیے میںوہ علاقے شامل تھے جہاں دوسری قوموں کے لوگ آباد تھے،جن کی زبان، ثقافت اورمعاشرت مہاجروں سے مختلف تھی۔
ہمارے بزرگوں کاقصوریہ تھاکہ انہوں نے انگریزوں کی سازش کاشکار ہو کر دوقومی نظریے پریقین کرلیا اور مسلمان ہونے کی بنیادپرپاکستان کے قیام کی جدوجہد میں لاکھوں کی تعداد میں جانی ومالی قربانیاں دیں اور پاکستان کی خاطراپناسب کچھ چھوڑ کر ہجرت کی ، پاکستان کا ابتدائی انتظامی ڈھانچہ کھڑاکیا لیکن تمام تر قربانیوں کے باوجود پاکستان میں مہاجروں کے وجودکوآج تک تسلیم نہیں کیا گیا ، ہمیں تلیر، مکڑ، مٹروے،بھیّا اور پناہ گیرجیسے توہین آمیزالقابات سے پکاراگیا،زندگی کے ہرشعبے میں ہمارے ساتھ ناانصافیاں اورحق تلفیاں کی گئیں ۔ ہم نے اپنے حقوق کے لئے مہاجرتحریک شروع کی توہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ،فوج کی تشکیل کردہ مختلف لسانی تنظیموں کواسلحہ دیکران کے ذریعے اردو اسپیکنگ مہاجرآبادیوں اوربستیوںپر حملے کرائے گئے، ہمارا قتل عام کیاگیا، مہاجروں اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیوایم کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے گئے اورمجھ پرمتعدد قاتلانہ حملے کرانے کے بعد بموں سے حملے کرواکر مجھے جلاوطن ہونے پر مجبورکیاگیا۔
پاکستان کی 76سالہ تاریخ میں فوج نے دوہی قو موں کے خلاف اعلانیہ بہت ہی بڑے آپریشن کئے، ایک بنگالی قوم اور دوسری مہاجرقوم۔
فوج نے19، جون 1992 کو مہاجروں اوران کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف دھوکے سے فوجی آپریشن کیا، قوم کوبتایاگیاتھا کہ یہ فوجی آپریشن صوبہ سندھ میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کرنے والے ڈاکوؤں اوران کی سرپرستی کرنے والے بڑے بڑے سیاستدانوں ،وڈیروں، جاگیرداروں اور پتھاریداروں کے خلاف کیاجائے گا، اس کے لئے قومی اسمبلی میں 72بڑی مچھلیوں کے ناموں کی ایک فہرست بھی پیش کی گئی جس میں سندھ کے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں ،جاگیرداروں ، وڈیروں اور پتھاریداروں کے نام شامل تھے ۔ ان ناموں میں آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو ، پیرپگارا، غلام مصطفی جتوئی ، ان کے پتھاریداروں کے علاوہ ان کی جماعتوں کے رہنماؤں ، ارکان قومی اسمبلی اورصوبائی اسمبلی کے نام بھی نمایاں تھے لیکن 72بڑی مچھلیوں کی فہرست میں شامل ان سیاسی رہنماؤں ، وڈیروں، جاگیرداروں اور پتھاریداروں کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے وہ فوجی آپریشن ایم کیوایم اورمہاجروں کے خلاف کیاگیا۔ اس فوجی آپریشن کے دوران ایم کیوایم کوملک دشمن جماعت ثابت کرنے کے لئے جناح پور کے جعلی نقشے بنائے گئے ، فوج کے بریگیڈیئرآصف ہارون نے پنجاب سے صحافیوں کوبلاکرایم کیوایم کوملک دشمن اورعلیحدگی پسندجماعت ثابت کرنے کی بھونڈی کوشش کی ، اس مہاجرکُش آپریشن میں ایم کیوایم کے رہنماؤں اور کارکنوں سمیت 25ہزار مہاجر نوجوانوں کودہشت گردقراردے کرانہیں انتہائی سفاکانہ اور بہیمانہ طریقوں سے ماورائے عدالت قتل کردیاگیا، سینکڑوں کولاپتہ کیاگیا، ہزاروں کوگرفتارکرکے جیلوں میں بدترین اذیتیں دی گئیں، ہمارے سینکڑوں کارکنان آج بھی مختلف جیلوں میں قید ہیں، فوجی آپریشن کے دوران ہماری بستیوں کے محاصرے کرکے نوجوانوں اوربزرگوں کوگھروں سے نکال کربرہنہ کیاگیا،ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کرانہیں کھلے میدانوں میں جنگی قیدیوںکی طرح بٹھایاگیا، پھرمردحضرات کی غیرموجودگی میں گھروں میں گھس کرہماری ماؤں بہنوں کی بے حرمتیاں کی گئیں،تلاشی کے نام پر گھروں میں لوٹ مار کی گئی ۔ میرے 73سالہ بزرگ بڑے بھائی ناصر حسین،جواں سال بھتیجے عارف حسین اوربزرگ بہنوئی اسلم ابراہانی کوشہیدکردیا گیا، ہمارے تمام دفاتر کو مسمار کیاگیا،میری رہائش گاہ اور ایم کیوایم کے مرکزالمعروف'' نائن زیرو''کوsealکیا گیا، پھراسے نذرِآتش کرکے بلڈوز کردیاگیا،ہم پر اس قدرسفاکانہ مظالم ڈھائے گئے اورآج تک ڈھائے جارہے ہیں لیکن یہ انتہائی شرم اورافسوس کی بات ہے کہ کسی سیاسی جماعت یااس کے رہنمائ، کسی اینکر، صحافی یالکھاری نے مہاجروں اوران کی منتخب نمائندہ جماعت ایم کیوایم پر ہونے والے مظالم کی کوئی مذمت نہیں کی بلکہ ان مظالم کودرست اورجائزقراردیا۔
دوسری جانب جب کبھی سندھیوں، بلوچوں، پشتونوں، پنجابیوں، کشمیریوں،سرائیکیوں،ہزاروال، بلتستانیوں یا گلگتیوں پر بحیثیت قوم یاکسی سیاسی جماعت پر کوئی ظلم ہواتومیں نے اورمیری جماعت ایم کیوایم نے ہمیشہ اس ظلم کوظلم کہااورمظلوموں کی کھل کر حمایت کی ، بینظیربھٹوہوںیانوازشریف، جب اُن کی جماعت کے ساتھ زیادتی ہوئی تو میں نے ان کے لئے بھی آوازاٹھائی، عمران خان نے میرے بارے میں ہمیشہ منفی باتیں کیں ، حتیٰ کہ لندن میں مجھ پر ڈرون سے حملہ کرنے کی باتیں بھی کیں لیکن جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا اور 9مئی 2023 کے واقعے کے بعدجب تحریک انصاف کے رہنماؤں، خواتین اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پرگرفتاریاں کی گئیں توپورے پاکستان کے لیڈروں میں الطاف حسین وہ واحد لیڈرتھاجس نے ان زیادتیوں کی کھل کرمذمت کی اورمیں آج بھی مذمت کرتاہوں۔جب بیرون ملک مقیم صحافیوں اوراینکرز کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے تومیں نے اس کی بھی کھل کرمذمت کی ۔ہم نے کسی کے ساتھ نفرت و عصبیت نہیں کی ،نفرت و تعصّب ہمیشہ ہمارے ساتھ کیا گیااورآج تک کیا جارہا ہے۔ دوسرے لوگ آج بھی مہاجروں کے وجودکو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ فوج کے مظالم کاشکار دیگر قوموں کے ناموں کاتو ضرور ذکر کرتے ہیں لیکن مہاجروں کالفظ ان کے منہ سے نہیں نکلتا۔
ملک اوربیرون ملک مقیم صحافی، اینکرپرسنز، بلاگرز اوریوٹیوبرزاپنے پروگراموں، تبصروں اورتجزیوں میں فوج کی زیادتیوں کاذکرتوکرتے ہیں مگرانہوں نے کبھی مہاجروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا ذکر نہیں کیاجبکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1971 میں بنگالیوں کے خلاف بھیانک فوجی آپریشن اورمشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد فوج نے دوسرا بڑافوجی آپریشن موجود ہ پاکستان میں 1992 میں مہاجروں اوران کی نمائندہ سیاسی جماعت ایم کیوایم کے خلاف کیا، ہزاروں مہاجر نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل کیا اورمہاجروں پربدترین مظالم ڈھائے لیکن یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ملک اوربیرون ملک مقیم صحافی، اینکرپرسنز، بلاگرز اوریوٹیوبرزنے فوج کی زیادتیوں کا ذکرکرتے ہوئے مہاجروں پر ڈھائے گئے مظالم کا کبھی کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
ملک اوربیرون ملک مقیم سینئر وجونئیر پاکستانی صحافی حضرات، اینکرپرسنز، بلاگرز، یوٹیوبرز اور دانشورحضرات ماضی میں فوج اورآئی ایس آئی کی خوشنودی کیلئے ان کے ناجائز اقدامات ،غلط پالیسیوں اور مہاجروں کے خلاف فوجی آپریشنوں کادفاع کرتے رہے ہیں۔ یہ لکھاری حضرات ،فوج کے جرنیلوں اورآئی ایس آئی کے افسران کے ظالمانہ اور سفاکانہ اقدامات پر میری جانب سے بیان کردہ حقائق پرمجھے اورمیری جماعت ایم کیوایم کوہی نہ صرف دہشت گرد، ملک دشمن اورغدار قراردیتے رہے بلکہ مجھے سیاست سے مائنس کرنے کے فوجی اشرافیہ کے سازشی منصوبے کوبھی جائز قرار دیتے رہے ۔
قدرت کامکافاتِ عمل تودیکھئے کہ آج وہ خود فوجی جرنیلوں اورآئی ایس آئی کی سازشوں کا شکارہیں اور بیرون ملک جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبورہیں ۔ آج جب انہیں خود ریاستی مظالم کاسامنا کرنا پڑا اور اپنی جانیں بچاکر بیرون ملک پناہ لینی پڑی تو انہیں اندازہ ہوا کہ فوجی جرنیل اور آئی ایس آئی عالمی قوتوں کے مفادات اور اپنیذاتی فائدے کیلئے کس طرح اپنے ہی ملک کے لوگوں پر ریاستی مظالم کے پہاڑ توڑتی ہے، ملک کی منتخب سیاسی جماعتوں اور عوامی رہنماؤں کے خلاف کیاکیا سازشیں کرتی ہے اور اپنے ہی ملک کے عوام کا کس طرح قتل عام کرتی ہے ۔
انصاف اوراخلاقیات کاتقاضا تو یہ تھا کہ حقائق بیان کرنے پر میرے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرنے والے سینئر وجونیئر صحافی،اینکرپرسنز، بلاگرز اور یوٹیوبرز اپنا اپنا احتساب کرکے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس حقیقت کااعتراف کرتے کہ 46 برسوں سے ایم کیوایم کے بانی وقائد الطاف حسین، فوج اور آئی ایس آئی کے بارے میں جوباتیں کیاکرتے تھے آج وہ حرف بہ حرف سچ اور درست ثابت ہوئی ہیں اور قوم کو سچائی سے آگاہ کرنے کی قیمت الطاف حسین اورمہاجر قوم آج تک چکارہی ہے مگر افسوس کہ ایسا نہ کیاگیا اورآج بھی سینئر وجونیئر صحافی،اینکرپرسنز،بلاگرز اور یوٹیوبرز کی اکثریت مختلف قوموں پرریاستی مظالم کاتذکرہ توکرتی ہے لیکن نجانے کیوں مہاجروں پر ڈھائے جانے والے انتہائی خوفناک ، المناک اور بہیمانہ مظالم کا تذکرہ کرنے سے دانستہ کتراجاتی ہے ،اُن کے منہ سے مہاجروں پر ڈھائے جانے والے ریاستی مظالم کے خلاف مذمت کے دولفظ بھی ادا نہیں ہوتے اورمہاجروں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پر اُن کی جانب سے مسلسل مجرمانہ خاموشی اختیارکی جارہی ہے۔
اگرمہاجرقوم بھی پاکستان کاحصہ ہے اورمہاجربھی دیگرقوموں کی طرح برابر کے پاکستانی ہیں تو پھر مہاجروں کے ساتھتعصّب، نفرت اور عصبیت کامظاہرہ کیوں کیاجارہا ہے؟ اگر مہاجروں کو پاکستانی نہیں سمجھا جاتا تو کیامہاجروں کو انسان بھی نہیں سمجھاجاتا؟آخر مہاجروں پر ڈھائے جانے والے سفاکانہ ظلم کو ظلم
کیوں نہیں کہاجاتا؟ کیا مہاجروں پر بدترین ریاستی مظالم پر چُپ سادھ لینے اور ان مظالم کونظرانداز کرنے کے اِس طرزعمل کومہاجروں کے ساتھ تعصّبنفرت اورعصبیت نہ کہاجائے تو پھر کیاکہاجائے گا ؟
میں سمجھتاہوں کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں، ٹی وی چینلز کے اینکرز، صحافیوں، لکھاریوں اوردانشوروں کوظلم اور مظلوموں میں تفریق نہیں برتنی چاہیے ، ظلم جس کسی کے ساتھ بھی کیاجائے ،اسے ظلم ہی کہناچاہیے ، تمام مظلوموں کی حمایت کرنی چاہیے ۔ انہیں نفرت اورتعصب کی عینک اتارکرپھینکنی ہوگی ، تاریخ کو درست کرنا ہوگااورمکمل تاریخ اورحقائق بیان کرنے ہوں گے۔میں صحافی اوراینکروجاہت سعید خان کاایک بارپھرشکریہ اداکرتاہوں کہ انہوں نے اپنے چینل پر مہاجروں اورایم کیوایم کے خلاف فوج کے مظالم کاذکرکیااورمجھے اپنا مقدمہ پیش کرنے کے لئے دومرتبہ اپنے چینل پر دعوت دی جس پر میں تہہ دل سے ان کا مشکوروممنون رہوں گا۔
٭٭٭٭٭