پاکستان کو کیسے بچایاجاسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان
جنرل عاصم منیر صاحب!
سلام وآداب
میں آپ کے سامنے چند ایسے زمینی حقائق پیش کررہا ہوں جو آپ اورآپ کے قریبی جرنیلوں کی توجہ کے طالب ہیں۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اپنے ملک کے عوام کے خلاف ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال سے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوتے ، اگر فوجی جرنیل ہرمسئلہ کا حل اپنے ملک کے عوام پر گنیں تان کر اور ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال کرکے تلاش کریں گے تو فوج کے اِ س عمل سے مسائل تو حل نہیں ہوں گے البتہ سانحات ضرور جنم لے سکتے ہیں۔ 1971ء کا سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اُس سانحے کے اسباب ووجوہات سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
آپ میرے بیان کردہ تاریخی حقائق کو مانیں یا نہ مانیں یہ آپ پر منحصر ہے لیکن میں یہ حقائق آپ اور آپ کے ساتھی جرنیلوں کے گوش گزار ضرور کرنا چاہوں گا۔
صوبہ بلوچستان:
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھصوبہ بلوچستان پربھی قبضہ کرنے کی کوششیں تو بہت کیں لیکن ہرطرح کی طاقت کااستعمال کرکے بھی جب انگریزوں نے دیکھ لیا کہ وہ بلوچستان پر اپنا مکمل قبضہ نہیں کرسکتے تو انگریزوں نے بلوچستان کے بڑ ے بڑے سرداروں سے معاہدہ کرکے یہ طے کیا کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے زندہ ضرور رہے گا مگر اس کی حیثیت برطانوی سلطنت میں Princely state کی ہوگی۔
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ جب 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو برطانوی سلطنت نے بلوچستان کو ایک علیحدہ ریاست کے طورپر آزاد کیا تھا اور اگست1947ء میں تاج برطانیہ کے نمائندے کی زیرصدارت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان ہونے والے اجلاسوں میں باقاعدہ تحریری معاہدہ طے پاگیا تھا کہ حکومت ِپاکستان ریاست قلات کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طورپر تسلیم کرتی ہے اُسی معاہدے کے تحت بلوچستان ،ریاست ِ قلات کے نام سے ایک آزاد ریاست تھی جس کی اپنی حکومت، اپنی پارلیمنٹ ، اپنا جھنڈا اور اپنی الگ کرنسی تھی۔ 1948ء تک ایک آزاد اور علیحدہ ریاست کی حیثیت سے ریاست ِ قلات کا کراچی میں اپنا سفارتخانہ بھی موجود تھا۔ 1948ء میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ریاست ِ قلات پر پاکستان میں شامل ہونے کیلئے دباؤ ڈالا گیا ، ریاست ِ قلات کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی تجویزکو قطعی طورپر مسترد کردیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی جانب سے بلوچستان پر فوج کشی شروع کردی گئی ۔ خان آف قلات کے محل پر حملہ کرکے انہیں ان کے اہل خانہ سمیت گرفتارکرلیا گیا اور مزاحمت کرنے والے بے شمار بلوچوں کو شہید کردیا گیا ۔ اِ س طرح فوج کشی کے ذریعے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کا یکطرفہ اعلان کردیا گیا لیکن بلوچ عوام نے اس جبری الحاق کو قبول نہیں کیااور خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم خان کی قیادت میں بلوچستان پر قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔ 1950 ء کی دہائی میں غیوربلوچ عوام نے بزرگ بلوچ رہنماء نواب نوروز خان زرک زئی کی قیادت میں دوسری مزاحمت کا آغاز کردیا اور پہاڑوں پر چلے گئے ۔ فوج پہاڑوں پر چڑھ کر جنگ لڑنے والے بلوچوں کو جب شکست نہ دے سکی تو پھر فوج نے قرآن مجید ہاتھوں میں اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ جانے والے بلوچوں سے فریادیں کیں اورانہیں قرآن مجید کے واسطے دیئے کہ تم لوگ پہاڑوں سے اُتر آؤ ، ہم آپس میں بات چیت کرکے مسئلہ حل کرلیں گے ۔ نواب نوروزخان، دیگر سردار اوران کے ساتھی قرآن مجید کے واسطے کودیکھ کرجیسے ہی پہاڑوں سے نیچے اُترے تو فوج نے سردار نواب نوروز خان زرک زئی اور ان کے تما م ساتھیوں کو گرفتارکرلیا۔ ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور نواب نوروز خان کے بیٹوں اور تمام ساتھیوں کو پھانسیاں دے دی گئیں جبکہ نواب نوروز خان کو عمرقید کی سزا دیکرقید میں ڈال دیا گیا ۔ ان کی شہادت بھی قید کے دوران ہی ہوئی۔
بلوچ عوام نے تمام ترریاستی آپریشن کے باوجود اپنے حقوق کے لئے آئین اور قانون کاراستہ اختیار کیا اور اپنے حق کیلئے جمہوری جدوجہد کی ۔ 1973ء میں بلوچستان میں بلوچوں کی منتخب حکومت قائم ہوئی اور سردار عطاء اللہ مینگل صوبہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے لیکن اس حکومت کوبھی چلنے نہیں دیا گیا اوربھٹوکے دورحکومت میں فوج نے محض8 ماہ بعد ہی بغاوت کا الزام لگا کر سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے تمام بلوچ رہنماؤں کو گرفتارکرلیا اور بلوچوں کی سیاسی جماعت پر پابندی لگاکر ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیاجس کے دوران سینکڑوں بلوچوں کو شہید کردیا گیا۔
بلوچستان میں یہ فوجی آپریشن حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود جاری رہا ۔ 1990ء کی دہائی میں سردار عطاء اللہ مینگل اور پھر نواب اکبر بگٹی نے مسلم لیگ (ن) کے میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین صاحب سے معاہدے کیے،اِن معاہدوں میں اُن بلوچ رہنماؤں سے بلوچستان کو اُس کے غصب شدہ حقوق دینے کیلئے باربار وعدے کیے گئے مگر کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیاگیا اوربلوچستان میں فوجی کارروائیاں جاری رہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوج نے بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے گھرواقع ڈیرہ بگٹی پر بمباری کردی جس میں کئی بلوچ شہید ہوئے۔ اس حملے کے بعد نواب اکبر بگٹی صاحب نے جدوجہد کاراستہ اختیارکرلیا اوروہ بھی اپنے خاندان اورساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں پر چلے گئے جہاں فوج نے بھاری ہتھیار استعمال کرکے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔
بلوچستان میں آج بھی فوجی آپریشن جاری ہے اوراپناحق مانگنے والے بے گناہ بلوچوں کو شہید اور لاپتہ کیاجارہا ہے
صوبہ خیبرپختونخوااورقبائلی علاقہ جات:
قبائلی علاقہ جات میں انگریزوں نے وہاں کے قبائلی عوام سے لڑ کر دیکھ لیاکہ وہ وہاں قبضہ نہیں کرسکتے توانگریزوں نے قبائلی علاقہ جات کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے وہاں کے مشرانوں سے معاہدہ کرلیا۔
صوبہ خیبرپختونخوااورقبائلی علاقہ جات میں فوج نے 1948ء میں قبائلی عوام میں جاکر انہیں جہاد کا درس دیاکہ آپ لوگ بہت بہادر اورنڈر ہیں اورہم کشمیر پر حملہ کرکے اُسے آزاد کراناچاہتے ہیں لہٰذا آپ فوج کا ساتھ دیں ہم ہرطرح کی مدد کیلئے کڑے سے کڑے وقت میں آپ کے ساتھ ہوں گے ۔قبائلی علاقے کے عوام تیار ہوگئے ۔ فوج نے تمام قبائلی جہادیوں کا لشکر تیار کرکے اُسے پہلی اور دوسری ڈیفنس لائن کے طورپر آگے رکھا اورفوج نے خود کو تیسری ڈیفنس لائن میں رکھا۔ قبائلی عوام کا لشکر بڑی بہادری سے لڑا اور کشمیر کے ایک بڑے حصے کو آزاد بھی کروالیالیکن یہ حملہ بھارت کیلئے ایک اچانک کیے جانے والے حملے سے کم نہ تھا لیکن بھارت نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی افواج کو تیار کرکے کشمیر میں لڑنے کیلئے بھیج دیا۔ بھارت کی فوج کے ساتھ بھی قبائلی عوام بڑی بے جگری سے لڑے لیکن وہ بھارت کی جانب سے استعمال کیے جانے والے بھاری اورجدید ہتھیاروں کامقابلہ نہ کرسکے ۔ اب انہیں(قبائلی لشکر) فوجی ہتھیاروں کی ضرورت پڑی وہ مدد کیلئے واپس پلٹے تو پاکستانی فوج وہاں سے واپس جاچکی تھی ۔ اس بدعہدی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے قبائلی عوام میں پاکستانی فوج کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔ دوسری طرف فوج نے70ء کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے ذریعے جناب ولی خان صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پر پابندی لگواکر (سابقہ صوبہ سرحد) میں فوج کشی کرواکر پشتونوں کا قتل عام کروایا اور NAP کے ہزاروں رہنماؤں اورکارکنوں کو گرفتار کرواکر مختلف جیلوں میں بند کردیا اور باقیماندہ ملک کے عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ پشتون عوام ملک توڑ کر علیحدہ '' پشتونستان '' بناناچاہتے ہیں اور اِس طرح نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین اورحامی پشتونوں کو ملک بھرمیں غدار قراردے دیاگیا۔ اس کے بعد امریکہ اورسوویت یونین کے درمیان جاری سرد جنگ (Cold war) میں ایک مرتبہ پھر فوج نے اسلام اور جہاد کا نعرہ لگا کر پشتون عوام خصوصاً قبائلی عوام کو اس جنگ کاحصہ بننے پرراضی کرلیا۔ اُس کے بعد پورے خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں میں مُلّاؤں کے ذریعے ہزاروں بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے وہاں افغان جہاد کیلئے پشتون نوجوانوں کی فوجی ٹریننگ شروع کروادی گئی جس میں خودکش حملوں کی تربیت بھی شامل تھی۔ اس طرح ''طالبان'' کے پرچم تلے ایک جماعت وجود میں لائی گئی جس نے افغانستان میں جم کرلڑائی کرکے وہاں سے روسی افواج کوشکست دلوادی جس کے بعد وہاں افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہوگئی۔ 9/11کے بعد جب امریکہ نے پاکستانی فوج کو طالبان کو ختم کرنے کا اگلا ہدف دیاتو طالبان پورے پاکستان میں پھیل گئے اور پھرطالبان ،پاکستانی افواج کے حساس اداروں اور دفاعی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ مساجد، امام بارگاہوں ،بزرگان دین کے مزارات، اسکولوں، بازاروں اور دیگر مقامات پر بھی حملہ آور ہونے لگے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے اربوں ڈالرز کے عوض امریکہ کو طالبان پرڈرون حملے کرنے کی اجازت بھی دے دی ۔ قبائلی علاقوں میں ایک طرف فوج طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کررہی تھی تو دوسری طرف امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے ہزاروں پشتون نہ صرف ہلاک وزخمی ہوئے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پشتون خاندان اپنے گھربار کوچھوڑنے پرمجبورہوکر
Internally Displaced Persons (IDPs) بنے جن میں سے بہت سے خاندان آج تک دربدر ہیں۔اِن دربدر خاندانوں میں سے تقریباً تین لاکھ سے زائد خاندان کراچی کے گردونواح میں رہائش پذیرہیں ۔
صوبہ سندھ:
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بزرگ قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد کی حمایت کی اورپاکستان کے حق میں اپنا فیصلہ کن ووٹ دیا تھا۔ سائیں جی ایم سید نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں صوبہ سندھ کواُس کے جائز حقوق نہیں مل رہے ہیں تو انہوں نے سندھودیش یعنی آزاد سندھ کا نعرہ عوام کو دیا۔ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں فوج کے ذریعے سائیں جی ایم سید اورجئے سندھ کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کروانا شروع کردیا اورجئے سندھ کے خلاف فوجی آپریشن بھی شروع کردیا جس سے سندھیوں میں مزید نفرتوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا دورمیںذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ کے عوام میں فوج کے خلاف پہلے سے موجود نفرت مزید اضافے کے ساتھ پورے سندھ کے چپے چپے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو کی پارٹی کے تقریباً تمام کے تمام رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کا ساتھ چھوڑ کر اپنی اپنی کئی پارٹیاں بنالیں جنہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
جب 1983ء میںMRD یعنی Movement for Restoration of Democracy (تحریک بحالی جمہوریت)کی تحریک کو کچلنے کیلئے فوج نے سندھ میں پوری قوت سے فوجی آپریشن شروع کیا اور ہتھیاروں کے علاوہ توپوں اوربھاری ہتھیاروں کا استعمال کرکے سندھ کی آبادیوں کو نقصان پہنچانا شروع کیاتو اُس کی وجہ سے ہزاروں لوگ شہید وزخمی ہوئے ۔ فوج کے اِ س عمل سے سندھی عوام کی اکثریت فوج کے خلاف ہوگئی ۔
صوبہ سندھ میں جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جئے سندھ قومی محاذ کی فوج سے جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب فوج نے ان جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیے تھے جس کی وجہ سے فوج نے سندھیوں کی آواز کو وقتی طورپر تو دبادیا لیکن آج بھی 80 فیصد سندھی عوام، فوج سے شدید نفرت کرتے ہیں اور وہ آج بھی آزاد سندھودیش چاہتے ہیں۔
ایم کیوایم اورمہاجر :
ایم کیوایم سے قبل زندگی کے ہرشعبے میں مہاجروں کے ساتھ تعصب اورناانصافیوں کاسلسلہ جاری تھا اور مہاجروں کی کوئی واحد نمائندہ آوازنہیں تھی۔ جب مہاجروں نے ایم کیوایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اپنے جائز حقوق کے حصول کی آوازبلند کی توفوج نے مہاجروں کے خلاف بھی فوجی آپریشن شروع کردیااور مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف ریاستی طاقت کابھرپوراستعمال کیا۔
یہ بات ملک بھر کے تمام اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ فوج نے 19، جون 1992ء کو مہاجروں کے خلاف جو آپریشن کلین اپ ''آپریشن بلیوفاکس'' کے نام سے شروع کیاتھا وہ آپریشن کسی نہ کسی شکل میں مہاجروں اور مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف آج تک جاری ہے ۔ اِس جاری فوجی آپریشن میں اب تک 25ہزار سے زائد مہاجروں خصوصاً مہاجرنوجوانوں کوبیدردی سے ماورائے عدالت قتل کیاگیا، ہزاروں کولاپتہ کیا گیا جن میں بیشتر کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں یا ویرانوں میں پھینک دی گئیں، ہزاروں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتارکیاگیا، جن میں سے آج تک سینکڑوں لاپتہ اور جیلوں میں اسیر ہیں۔
فوج کی جانب سے ایم کیوایم کو کمزور کرنے کیلئے ایم کیوایم میں دھڑے بندیاں کرانا شروع کردی گئیں جس کے تحت ایم کیوایم حقیقی(MQM-H) ، حاجی کیمپ گروپ، BACK گروپ ، پاک سرزمین پارٹی (PSP) ،ایم کیوایم پی آئی بی گروپ، ایم کیوایم بہادرآباد گروپ سمیت کئی گروپس اوربنائے گئے۔ 1992ء کے فوجی آپریشن کے آغاز سے لیکر آج تک تمام تر ریاستی مظالم کے باوجود اصل ایم کیوایم جس کی بنیاد میں نے 1978ء میں رکھی تھی اُسے ختم نہیں کیا جاسکا۔ یہاں یہ امر بتانا ضروری ہے کہ علم وہنرسے آراستہ مہاجرعوام جنگی لڑائی کاکوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے اِسی وجہ سے 31 برسوں کے فوجی آپریشن میں ایک بھی فوجی نہیں مارا گیا یعنی مہاجروں نے فوج پر کبھی بھی گولی نہیں چلائی ۔
اپنے حقوق کے حصول کے لئے جمہوری راستہ اختیارکرنے اور تمام ترپرامن جدوجہد کے باوجود آج بھی مہاجروں اوران کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے اورانہیں ان کے تمام بنیادی سیاسی ومعاشی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ان زیادتیوں کی وجہ سے مہاجروں میں برسوں سے پایا جانے والا احساسِ محرومی مزید شدت اختیارکرچکا ہے۔
میں (الطاف حسین) پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران میں وہ واحد لیڈر ہوں جس کے گھرنائن زیرو کو 22، اگست2016ء سے seal کیاہوا ہے ، بعد میں اُسے آ گ لگا کر بلڈوز بھی کردیا گیا۔ اِسی طرح 2015ء سے میری تحریر، تقریراور تصویر تک کو پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں دِکھانے پر پابندی عائد ہے ۔
جنرل عاصم منیر صاحب !
صوبہ بلوچستان ، خیبرپختونخوااورسندھ میں کی جانے والی ان تمام فوجی کارروائیوں پر صوبہ پنجاب میں نہ تو کوئی مؤثر آواز اُٹھی اورنہ ہی کوئی احتجاج کیاگیا۔ فوج کی جانب سے کنٹرولڈ میڈیا(پرنٹ والیکٹرانک) کے ذریعے صوبہ پنجاب کے عوام کو یہ تاثردیا گیا کہ بلوچ، پختون اور سندھی سب ملک دشمن اور بھارت کے ایجنٹس ہیں۔اسی طرح ایم کیوایم اورمیرے(الطاف حسین) کے خلاف کیے جانے والے فوجی آپریشن میں بھی تمام ترریاستی مظالم ، نقصانات ، تذلیل وتضحیک آمیز سلوک کے علاوہ وہی منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایم کیوایم ،الطاف حسین اورمہاجر غدار ، ملک دشمن اور انڈیا کے ایجنٹ ہیں۔ فوج کے مسلسل کیے جانے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پنجاب کے عوام ، ایم کیوایم،الطاف حسین اورمہاجروں کو بھی غداراورملک دشمن سمجھنے لگے۔
صوبہ پنجاب:
صوبہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں کے سیاسی قائدین سے تمام تر اختلافات کے باوجود فوج نے وہاں آج تک کوئی بھی فوجی آپریشن نہیں کیا جس کی وجہ سے پنجابی عوام ،فوج کی بھرپورحمایت کرتے تھے لیکن 9، مئی 2023ء کے واقعے کے بعد فوج اورآئی ایس آئی نے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (PTI ) کے رہنماؤں ، کارکنوں ، خواتین اورعام ہمدردوں کے خلاف جو غیرآئینی وغیرقانونی کارروائیاں کیں اورآج تک کررہے ہیں ، ان کارروائیوں کی وجہ سے اب پنجابی عوام میں بھی فوج کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی ہے اوراب وہ بھی فوج کے منفی اقدامات کے باعث فوج سے متنفّرہوچکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
1948ء سے لیکر آج کے دن تک فوج بلوچ، پشتون اور سندھی عوام کو اپنا ہمنوا نہیں بناسکی ہے اور اب وہ اپنے منفی اقدامات کی وجہ سے مہاجرعوام کی اکثریت کی بھی حمایت کھوچکی ہے ۔پنجابی عوام میں بھی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں آج تک لڑائی جاری ہے ۔ اسی طرح اب صوبہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بھی بغاوت شروع ہوچکی ہے ۔ 18، اگست2023ء کو اسلام آباد کے قریب ترنول کے علاقے میں ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ(PTM) کے جلسے میں عوام کے جذبات کا اندازہ آپ کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے ISPR اور دیگر فوجی ایجنسیوں کو خوب اچھی طرح ہوچکا ہوگا۔ اِسی طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے رہنماء بھی فوج کے خلاف جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں اور ان کے جلسوں میں بھی یہ نعرے کہ ''یہ جو دہشت گردی ہے …اِس کے پیچھے وردی ہے''بڑے پُرجوش انداز میں لگتے رہے ہیں ۔ اُن رہنماؤں کی جانب سے فوج کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اور جو نعرے لگتے رہے اُن سے بھی ISPR اور دیگر سیکوریٹی ایجنسیاں خوب اچھی طرح واقف ہیں۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
آج پاکستان میں تمام صوبوں، شہرشہر، گلی گلی،ہرطرف ، ہرجگہ ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے کہ ''آزادی''…''آزادی''…''آزادی''
جنرل عاصم منیر صاحب!
اب بھی وقت ہے کہ فوج کے جرنیل اپنے غیرآئینی وغیرقانونی اقدامات اورزیادتیوں پر قوم سے سرِعام معافی مانگیں اورایک Truth and Reconciliation Commission (TRC) بناکر ملک کے عوام کو ''ایک'' کرنے کا اقدام کریں اور قوم سے وعدہ کریں کہ اب فوج اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے کبھی بھی نہ صرف سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی بلکہ تاقیامت سیاست میں ذرّہ برابر بھی حصہ نہیں لے گی ، فوج اپنے بنائے جانے والے تمام کاروباری مراکز کو سول حکومت کو منتقل کردے گی اور فوج، پاکستان کے آئین وقانون کے تحت ملک پر عوام کا حق حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہے گی ۔اسی طرح ملک کو بچایا جاسکتا ہے اورملک کی بقاء ، سلامتی اوراستحکام کوممکن بنایاجاسکتاہے۔
والسّلام
خیراندیش
احقر
الطاف حسین (لندن)
21، اگست2023ئ
پاکستان کو کیسے بچایاجاسکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف آف آرمی اسٹاف پاکستان
جنرل عاصم منیر صاحب!
سلام وآداب
میں آپ کے سامنے چند ایسے زمینی حقائق پیش کررہا ہوں جو آپ اورآپ کے قریبی جرنیلوں کی توجہ کے طالب ہیں۔
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اپنے ملک کے عوام کے خلاف ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال سے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوتے ، اگر فوجی جرنیل ہرمسئلہ کا حل اپنے ملک کے عوام پر گنیں تان کر اور ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال کرکے تلاش کریں گے تو فوج کے اِ س عمل سے مسائل تو حل نہیں ہوں گے البتہ سانحات ضرور جنم لے سکتے ہیں۔ 1971ء کا سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے سامنے ہے اور ہمیں اُس سانحے کے اسباب ووجوہات سے سبق حاصل کرنا چاہیے ۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
آپ میرے بیان کردہ تاریخی حقائق کو مانیں یا نہ مانیں یہ آپ پر منحصر ہے لیکن میں یہ حقائق آپ اور آپ کے ساتھی جرنیلوں کے گوش گزار ضرور کرنا چاہوں گا۔
صوبہ بلوچستان:
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھصوبہ بلوچستان پربھی قبضہ کرنے کی کوششیں تو بہت کیں لیکن ہرطرح کی طاقت کااستعمال کرکے بھی جب انگریزوں نے دیکھ لیا کہ وہ بلوچستان پر اپنا مکمل قبضہ نہیں کرسکتے تو انگریزوں نے بلوچستان کے بڑ ے بڑے سرداروں سے معاہدہ کرکے یہ طے کیا کہ بلوچستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے زندہ ضرور رہے گا مگر اس کی حیثیت برطانوی سلطنت میں Princely state کی ہوگی۔
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ جب 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو برطانوی سلطنت نے بلوچستان کو ایک علیحدہ ریاست کے طورپر آزاد کیا تھا اور اگست1947ء میں تاج برطانیہ کے نمائندے کی زیرصدارت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور خان آف قلات کے درمیان ہونے والے اجلاسوں میں باقاعدہ تحریری معاہدہ طے پاگیا تھا کہ حکومت ِپاکستان ریاست قلات کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طورپر تسلیم کرتی ہے اُسی معاہدے کے تحت بلوچستان ،ریاست ِ قلات کے نام سے ایک آزاد ریاست تھی جس کی اپنی حکومت، اپنی پارلیمنٹ ، اپنا جھنڈا اور اپنی الگ کرنسی تھی۔ 1948ء تک ایک آزاد اور علیحدہ ریاست کی حیثیت سے ریاست ِ قلات کا کراچی میں اپنا سفارتخانہ بھی موجود تھا۔ 1948ء میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے ریاست ِ قلات پر پاکستان میں شامل ہونے کیلئے دباؤ ڈالا گیا ، ریاست ِ قلات کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے پاکستان میں شامل ہونے کی تجویزکو قطعی طورپر مسترد کردیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی جانب سے بلوچستان پر فوج کشی شروع کردی گئی ۔ خان آف قلات کے محل پر حملہ کرکے انہیں ان کے اہل خانہ سمیت گرفتارکرلیا گیا اور مزاحمت کرنے والے بے شمار بلوچوں کو شہید کردیا گیا ۔ اِ س طرح فوج کشی کے ذریعے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کرنے کا یکطرفہ اعلان کردیا گیا لیکن بلوچ عوام نے اس جبری الحاق کو قبول نہیں کیااور خان آف قلات کے بھائی پرنس کریم خان کی قیادت میں بلوچستان پر قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز کردیا۔ 1950 ء کی دہائی میں غیوربلوچ عوام نے بزرگ بلوچ رہنماء نواب نوروز خان زرک زئی کی قیادت میں دوسری مزاحمت کا آغاز کردیا اور پہاڑوں پر چلے گئے ۔ فوج پہاڑوں پر چڑھ کر جنگ لڑنے والے بلوچوں کو جب شکست نہ دے سکی تو پھر فوج نے قرآن مجید ہاتھوں میں اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھ جانے والے بلوچوں سے فریادیں کیں اورانہیں قرآن مجید کے واسطے دیئے کہ تم لوگ پہاڑوں سے اُتر آؤ ، ہم آپس میں بات چیت کرکے مسئلہ حل کرلیں گے ۔ نواب نوروزخان، دیگر سردار اوران کے ساتھی قرآن مجید کے واسطے کودیکھ کرجیسے ہی پہاڑوں سے نیچے اُترے تو فوج نے سردار نواب نوروز خان زرک زئی اور ان کے تما م ساتھیوں کو گرفتارکرلیا۔ ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور نواب نوروز خان کے بیٹوں اور تمام ساتھیوں کو پھانسیاں دے دی گئیں جبکہ نواب نوروز خان کو عمرقید کی سزا دیکرقید میں ڈال دیا گیا ۔ ان کی شہادت بھی قید کے دوران ہی ہوئی۔
بلوچ عوام نے تمام ترریاستی آپریشن کے باوجود اپنے حقوق کے لئے آئین اور قانون کاراستہ اختیار کیا اور اپنے حق کیلئے جمہوری جدوجہد کی ۔ 1973ء میں بلوچستان میں بلوچوں کی منتخب حکومت قائم ہوئی اور سردار عطاء اللہ مینگل صوبہ بلوچستان کے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے لیکن اس حکومت کوبھی چلنے نہیں دیا گیا اوربھٹوکے دورحکومت میں فوج نے محض8 ماہ بعد ہی بغاوت کا الزام لگا کر سردار عطاء اللہ مینگل کی منتخب حکومت کو برطرف کرکے تمام بلوچ رہنماؤں کو گرفتارکرلیا اور بلوچوں کی سیاسی جماعت پر پابندی لگاکر ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کردیا گیاجس کے دوران سینکڑوں بلوچوں کو شہید کردیا گیا۔
بلوچستان میں یہ فوجی آپریشن حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود جاری رہا ۔ 1990ء کی دہائی میں سردار عطاء اللہ مینگل اور پھر نواب اکبر بگٹی نے مسلم لیگ (ن) کے میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین صاحب سے معاہدے کیے،اِن معاہدوں میں اُن بلوچ رہنماؤں سے بلوچستان کو اُس کے غصب شدہ حقوق دینے کیلئے باربار وعدے کیے گئے مگر کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیاگیا اوربلوچستان میں فوجی کارروائیاں جاری رہیں۔جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوج نے بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے گھرواقع ڈیرہ بگٹی پر بمباری کردی جس میں کئی بلوچ شہید ہوئے۔ اس حملے کے بعد نواب اکبر بگٹی صاحب نے جدوجہد کاراستہ اختیارکرلیا اوروہ بھی اپنے خاندان اورساتھیوں کے ہمراہ پہاڑوں پر چلے گئے جہاں فوج نے بھاری ہتھیار استعمال کرکے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو شہید کردیا۔
بلوچستان میں آج بھی فوجی آپریشن جاری ہے اوراپناحق مانگنے والے بے گناہ بلوچوں کو شہید اور لاپتہ کیاجارہا ہے
صوبہ خیبرپختونخوااورقبائلی علاقہ جات:
قبائلی علاقہ جات میں انگریزوں نے وہاں کے قبائلی عوام سے لڑ کر دیکھ لیاکہ وہ وہاں قبضہ نہیں کرسکتے توانگریزوں نے قبائلی علاقہ جات کی آزادانہ حیثیت برقرار رکھتے ہوئے وہاں کے مشرانوں سے معاہدہ کرلیا۔
صوبہ خیبرپختونخوااورقبائلی علاقہ جات میں فوج نے 1948ء میں قبائلی عوام میں جاکر انہیں جہاد کا درس دیاکہ آپ لوگ بہت بہادر اورنڈر ہیں اورہم کشمیر پر حملہ کرکے اُسے آزاد کراناچاہتے ہیں لہٰذا آپ فوج کا ساتھ دیں ہم ہرطرح کی مدد کیلئے کڑے سے کڑے وقت میں آپ کے ساتھ ہوں گے ۔قبائلی علاقے کے عوام تیار ہوگئے ۔ فوج نے تمام قبائلی جہادیوں کا لشکر تیار کرکے اُسے پہلی اور دوسری ڈیفنس لائن کے طورپر آگے رکھا اورفوج نے خود کو تیسری ڈیفنس لائن میں رکھا۔ قبائلی عوام کا لشکر بڑی بہادری سے لڑا اور کشمیر کے ایک بڑے حصے کو آزاد بھی کروالیالیکن یہ حملہ بھارت کیلئے ایک اچانک کیے جانے والے حملے سے کم نہ تھا لیکن بھارت نے بڑی سرعت کے ساتھ اپنی افواج کو تیار کرکے کشمیر میں لڑنے کیلئے بھیج دیا۔ بھارت کی فوج کے ساتھ بھی قبائلی عوام بڑی بے جگری سے لڑے لیکن وہ بھارت کی جانب سے استعمال کیے جانے والے بھاری اورجدید ہتھیاروں کامقابلہ نہ کرسکے ۔ اب انہیں(قبائلی لشکر) فوجی ہتھیاروں کی ضرورت پڑی وہ مدد کیلئے واپس پلٹے تو پاکستانی فوج وہاں سے واپس جاچکی تھی ۔ اس بدعہدی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے قبائلی عوام میں پاکستانی فوج کے خلاف بدگمانیاں پیدا ہونا شروع ہوگئی تھیں ۔ دوسری طرف فوج نے70ء کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے ذریعے جناب ولی خان صاحب کی نیشنل عوامی پارٹی (NAP) پر پابندی لگواکر (سابقہ صوبہ سرحد) میں فوج کشی کرواکر پشتونوں کا قتل عام کروایا اور NAP کے ہزاروں رہنماؤں اورکارکنوں کو گرفتار کرواکر مختلف جیلوں میں بند کردیا اور باقیماندہ ملک کے عوام کو میڈیا کے ذریعے یہ بتایا گیا کہ پشتون عوام ملک توڑ کر علیحدہ '' پشتونستان '' بناناچاہتے ہیں اور اِس طرح نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین اورحامی پشتونوں کو ملک بھرمیں غدار قراردے دیاگیا۔ اس کے بعد امریکہ اورسوویت یونین کے درمیان جاری سرد جنگ (Cold war) میں ایک مرتبہ پھر فوج نے اسلام اور جہاد کا نعرہ لگا کر پشتون عوام خصوصاً قبائلی عوام کو اس جنگ کاحصہ بننے پرراضی کرلیا۔ اُس کے بعد پورے خیبرپختونخوا خصوصاً قبائلی علاقوں میں مُلّاؤں کے ذریعے ہزاروں بڑے بڑے مدرسے قائم کرکے وہاں افغان جہاد کیلئے پشتون نوجوانوں کی فوجی ٹریننگ شروع کروادی گئی جس میں خودکش حملوں کی تربیت بھی شامل تھی۔ اس طرح ''طالبان'' کے پرچم تلے ایک جماعت وجود میں لائی گئی جس نے افغانستان میں جم کرلڑائی کرکے وہاں سے روسی افواج کوشکست دلوادی جس کے بعد وہاں افغان مجاہدین کی حکومت قائم ہوگئی۔ 9/11کے بعد جب امریکہ نے پاکستانی فوج کو طالبان کو ختم کرنے کا اگلا ہدف دیاتو طالبان پورے پاکستان میں پھیل گئے اور پھرطالبان ،پاکستانی افواج کے حساس اداروں اور دفاعی تنصیبات پر حملوں کے ساتھ ساتھ مساجد، امام بارگاہوں ،بزرگان دین کے مزارات، اسکولوں، بازاروں اور دیگر مقامات پر بھی حملہ آور ہونے لگے ۔ اس کے علاوہ پاکستانی فوج نے اربوں ڈالرز کے عوض امریکہ کو طالبان پرڈرون حملے کرنے کی اجازت بھی دے دی ۔ قبائلی علاقوں میں ایک طرف فوج طالبان کے ٹھکانوں پر حملے کررہی تھی تو دوسری طرف امریکی ڈرون حملوں کی وجہ سے ہزاروں پشتون نہ صرف ہلاک وزخمی ہوئے بلکہ لاکھوں کی تعداد میں پشتون خاندان اپنے گھربار کوچھوڑنے پرمجبورہوکر
Internally Displaced Persons (IDPs) بنے جن میں سے بہت سے خاندان آج تک دربدر ہیں۔اِن دربدر خاندانوں میں سے تقریباً تین لاکھ سے زائد خاندان کراچی کے گردونواح میں رہائش پذیرہیں ۔
صوبہ سندھ:
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بزرگ قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید نے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد کی حمایت کی اورپاکستان کے حق میں اپنا فیصلہ کن ووٹ دیا تھا۔ سائیں جی ایم سید نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان میں صوبہ سندھ کواُس کے جائز حقوق نہیں مل رہے ہیں تو انہوں نے سندھودیش یعنی آزاد سندھ کا نعرہ عوام کو دیا۔ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے دورِ حکومت میں فوج کے ذریعے سائیں جی ایم سید اورجئے سندھ کے دیگر رہنماؤں کو گرفتار کروانا شروع کردیا اورجئے سندھ کے خلاف فوجی آپریشن بھی شروع کردیا جس سے سندھیوں میں مزید نفرتوں نے جنم لینا شروع کردیا۔ جنرل ضیاء کے مارشل لا دورمیںذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے بعد سندھ کے عوام میں فوج کے خلاف پہلے سے موجود نفرت مزید اضافے کے ساتھ پورے سندھ کے چپے چپے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بھٹو کی پارٹی کے تقریباً تمام کے تمام رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کا ساتھ چھوڑ کر اپنی اپنی کئی پارٹیاں بنالیں جنہیں فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
جب 1983ء میںMRD یعنی Movement for Restoration of Democracy (تحریک بحالی جمہوریت)کی تحریک کو کچلنے کیلئے فوج نے سندھ میں پوری قوت سے فوجی آپریشن شروع کیا اور ہتھیاروں کے علاوہ توپوں اوربھاری ہتھیاروں کا استعمال کرکے سندھ کی آبادیوں کو نقصان پہنچانا شروع کیاتو اُس کی وجہ سے ہزاروں لوگ شہید وزخمی ہوئے ۔ فوج کے اِ س عمل سے سندھی عوام کی اکثریت فوج کے خلاف ہوگئی ۔
صوبہ سندھ میں جئے سندھ اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جئے سندھ قومی محاذ کی فوج سے جھڑپیں اُس وقت شروع ہوئیں جب فوج نے ان جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیے تھے جس کی وجہ سے فوج نے سندھیوں کی آواز کو وقتی طورپر تو دبادیا لیکن آج بھی 80 فیصد سندھی عوام، فوج سے شدید نفرت کرتے ہیں اور وہ آج بھی آزاد سندھودیش چاہتے ہیں۔
ایم کیوایم اورمہاجر :
ایم کیوایم سے قبل زندگی کے ہرشعبے میں مہاجروں کے ساتھ تعصب اورناانصافیوں کاسلسلہ جاری تھا اور مہاجروں کی کوئی واحد نمائندہ آوازنہیں تھی۔ جب مہاجروں نے ایم کیوایم کے پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اپنے جائز حقوق کے حصول کی آوازبلند کی توفوج نے مہاجروں کے خلاف بھی فوجی آپریشن شروع کردیااور مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف ریاستی طاقت کابھرپوراستعمال کیا۔
یہ بات ملک بھر کے تمام اخبارات کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ فوج نے 19، جون 1992ء کو مہاجروں کے خلاف جو آپریشن کلین اپ ''آپریشن بلیوفاکس'' کے نام سے شروع کیاتھا وہ آپریشن کسی نہ کسی شکل میں مہاجروں اور مہاجروں کی واحد نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف آج تک جاری ہے ۔ اِس جاری فوجی آپریشن میں اب تک 25ہزار سے زائد مہاجروں خصوصاً مہاجرنوجوانوں کوبیدردی سے ماورائے عدالت قتل کیاگیا، ہزاروں کولاپتہ کیا گیا جن میں بیشتر کی مسخ شدہ لاشیں سڑکوں یا ویرانوں میں پھینک دی گئیں، ہزاروں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتارکیاگیا، جن میں سے آج تک سینکڑوں لاپتہ اور جیلوں میں اسیر ہیں۔
فوج کی جانب سے ایم کیوایم کو کمزور کرنے کیلئے ایم کیوایم میں دھڑے بندیاں کرانا شروع کردی گئیں جس کے تحت ایم کیوایم حقیقی(MQM-H) ، حاجی کیمپ گروپ، BACK گروپ ، پاک سرزمین پارٹی (PSP) ،ایم کیوایم پی آئی بی گروپ، ایم کیوایم بہادرآباد گروپ سمیت کئی گروپس اوربنائے گئے۔ 1992ء کے فوجی آپریشن کے آغاز سے لیکر آج تک تمام تر ریاستی مظالم کے باوجود اصل ایم کیوایم جس کی بنیاد میں نے 1978ء میں رکھی تھی اُسے ختم نہیں کیا جاسکا۔ یہاں یہ امر بتانا ضروری ہے کہ علم وہنرسے آراستہ مہاجرعوام جنگی لڑائی کاکوئی تجربہ نہیں رکھتے تھے اِسی وجہ سے 31 برسوں کے فوجی آپریشن میں ایک بھی فوجی نہیں مارا گیا یعنی مہاجروں نے فوج پر کبھی بھی گولی نہیں چلائی ۔
اپنے حقوق کے حصول کے لئے جمہوری راستہ اختیارکرنے اور تمام ترپرامن جدوجہد کے باوجود آج بھی مہاجروں اوران کی نمائندہ جماعت ایم کیوایم کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے اورانہیں ان کے تمام بنیادی سیاسی ومعاشی حقوق سے محروم کردیا گیا ہے ۔ان زیادتیوں کی وجہ سے مہاجروں میں برسوں سے پایا جانے والا احساسِ محرومی مزید شدت اختیارکرچکا ہے۔
میں (الطاف حسین) پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران میں وہ واحد لیڈر ہوں جس کے گھرنائن زیرو کو 22، اگست2016ء سے seal کیاہوا ہے ، بعد میں اُسے آ گ لگا کر بلڈوز بھی کردیا گیا۔ اِسی طرح 2015ء سے میری تحریر، تقریراور تصویر تک کو پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں دِکھانے پر پابندی عائد ہے ۔
جنرل عاصم منیر صاحب !
صوبہ بلوچستان ، خیبرپختونخوااورسندھ میں کی جانے والی ان تمام فوجی کارروائیوں پر صوبہ پنجاب میں نہ تو کوئی مؤثر آواز اُٹھی اورنہ ہی کوئی احتجاج کیاگیا۔ فوج کی جانب سے کنٹرولڈ میڈیا(پرنٹ والیکٹرانک) کے ذریعے صوبہ پنجاب کے عوام کو یہ تاثردیا گیا کہ بلوچ، پختون اور سندھی سب ملک دشمن اور بھارت کے ایجنٹس ہیں۔اسی طرح ایم کیوایم اورمیرے(الطاف حسین) کے خلاف کیے جانے والے فوجی آپریشن میں بھی تمام ترریاستی مظالم ، نقصانات ، تذلیل وتضحیک آمیز سلوک کے علاوہ وہی منفی پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ایم کیوایم ،الطاف حسین اورمہاجر غدار ، ملک دشمن اور انڈیا کے ایجنٹ ہیں۔ فوج کے مسلسل کیے جانے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے پنجاب کے عوام ، ایم کیوایم،الطاف حسین اورمہاجروں کو بھی غداراورملک دشمن سمجھنے لگے۔
صوبہ پنجاب:
صوبہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں کے سیاسی قائدین سے تمام تر اختلافات کے باوجود فوج نے وہاں آج تک کوئی بھی فوجی آپریشن نہیں کیا جس کی وجہ سے پنجابی عوام ،فوج کی بھرپورحمایت کرتے تھے لیکن 9، مئی 2023ء کے واقعے کے بعد فوج اورآئی ایس آئی نے پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف (PTI ) کے رہنماؤں ، کارکنوں ، خواتین اورعام ہمدردوں کے خلاف جو غیرآئینی وغیرقانونی کارروائیاں کیں اورآج تک کررہے ہیں ، ان کارروائیوں کی وجہ سے اب پنجابی عوام میں بھی فوج کے خلاف شدید نفرت پیدا ہوگئی ہے اوراب وہ بھی فوج کے منفی اقدامات کے باعث فوج سے متنفّرہوچکے ہیں۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
1948ء سے لیکر آج کے دن تک فوج بلوچ، پشتون اور سندھی عوام کو اپنا ہمنوا نہیں بناسکی ہے اور اب وہ اپنے منفی اقدامات کی وجہ سے مہاجرعوام کی اکثریت کی بھی حمایت کھوچکی ہے ۔پنجابی عوام میں بھی فوج کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں آج تک لڑائی جاری ہے ۔ اسی طرح اب صوبہ خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں بھی بغاوت شروع ہوچکی ہے ۔ 18، اگست2023ء کو اسلام آباد کے قریب ترنول کے علاقے میں ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ(PTM) کے جلسے میں عوام کے جذبات کا اندازہ آپ کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے ISPR اور دیگر فوجی ایجنسیوں کو خوب اچھی طرح ہوچکا ہوگا۔ اِسی طرح پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے بڑے بڑے رہنماء بھی فوج کے خلاف جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں اور ان کے جلسوں میں بھی یہ نعرے کہ ''یہ جو دہشت گردی ہے …اِس کے پیچھے وردی ہے''بڑے پُرجوش انداز میں لگتے رہے ہیں ۔ اُن رہنماؤں کی جانب سے فوج کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اور جو نعرے لگتے رہے اُن سے بھی ISPR اور دیگر سیکوریٹی ایجنسیاں خوب اچھی طرح واقف ہیں۔
جنرل عاصم منیر صاحب!
آج پاکستان میں تمام صوبوں، شہرشہر، گلی گلی،ہرطرف ، ہرجگہ ایک ہی نعرہ گونج رہا ہے کہ ''آزادی''…''آزادی''…''آزادی''
جنرل عاصم منیر صاحب!
اب بھی وقت ہے کہ فوج کے جرنیل اپنے غیرآئینی وغیرقانونی اقدامات اورزیادتیوں پر قوم سے سرِعام معافی مانگیں اورایک Truth and Reconciliation Commission (TRC) بناکر ملک کے عوام کو ''ایک'' کرنے کا اقدام کریں اور قوم سے وعدہ کریں کہ اب فوج اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے کبھی بھی نہ صرف سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی بلکہ تاقیامت سیاست میں ذرّہ برابر بھی حصہ نہیں لے گی ، فوج اپنے بنائے جانے والے تمام کاروباری مراکز کو سول حکومت کو منتقل کردے گی اور فوج، پاکستان کے آئین وقانون کے تحت ملک پر عوام کا حق حاکمیت تسلیم کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہے گی ۔اسی طرح ملک کو بچایا جاسکتا ہے اورملک کی بقاء ، سلامتی اوراستحکام کوممکن بنایاجاسکتاہے۔
والسّلام
خیراندیش
احقر
الطاف حسین (لندن)
21، اگست2023ئ