سندھ ہائیکورٹ کے دورکنی بینچ کے روبرو ایم کیوایم کے کارکنوںکی غیرقانونی نظربندی کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت
محکمہ داخلہ نے جس سیکشن کے تحت ایم پی او کاآرڈرجاری کیاوہ ختم ہوچکا
ہے۔آئی جی سندھ کواختیارنہیں ہے۔ جوہرعابد ایڈوکیٹ
نظربندی آئین پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28تک کے تمام آرٹیکل کے
خلاف ہے۔سعدیہ غوری ایڈوکیٹ
آئی جی سندھ کو اختیار ہی نہیں ہے تو پھرانہوں نے کس قانون کے تحت ایم پی او
کا آرڈر جاری کروایا؟ جسٹس عدنان چوہدری
اگرکسی مقدمہ میں کسی کی ضمانت منظورہوجائے تو کیا اسے اسی الزام میں نظربند کیا جاسکتاہے ؟کیاپولیس کوتمام افراد کی شکلیں یادتھیں؟جسٹس عدنان چوہدری
اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل ، سیکریٹری داخلہ کی وکیل اورپولیس افسر عدالت کے کسی سوال کاتسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
عدالت نے آئی جی سندھ کوطلب کرلیا …سماعت بدھ 26جولائی کوہوگی
کراچی … 24 جولائی 2023ئ
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عدنان اقبال چوہدری اورجسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل دورکنی بینچ نے 9جولائی کوکورنگی میں نکالی جانے والی ریلی کے بعدگرفتار کئے جانے والے ایم کیوایم کی ایڈوائزری کونسل کے سابق انچارج آفتاب بقائی اور ایم کیوایم کے دیگر کارکنوں کی غیرقانونی نظربندی کے خلاف درج آئینی درخواستوں کی سماعت کی ۔ آج جب سماعت شروع ہوئی توجسٹس عدنان اقبال چوہدری نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سے سوال کیاکہ ملزمان کوکس قانون کے تحت نظربند کیا گیاہے تو اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل نے جواب دیاکہ ان کے پاس محکمہ داخلہ کا نوٹس ہے جوآئی جی سندھ کی سفارش پر نکالا گیا ہے جس میں یہ کہاگیاکہ ملزمان نے ایک ریلی نکالی تھی اوریہ نقص امن کامعاملہ ہے ۔ اس پر ایم کیوایم کے کارکنوں کے وکیل جوہر عابد ایڈوکیٹ نے یہ مؤقف اختیارکیاکہ ریلی9جولائی کونکالی گئی۔ اسی روز ایک مقدمہ قائم کیاگیااورملزمان کی گرفتاری کی گئی ۔ اگلے روز عدالت نے ان ملزمان کی ضمانتیںمنظورکر تے ہوئے ان کی رہائی کے احکامات جاری کردیے تھے لیکن پولیس نے انہیں نقص امن کے نام پر نظربند کردیا۔جوہرعابد ایڈوکیٹ نے کہا کہ محکمہ داخلہ نے آئی جی سند ھ کی سفارش پر ملزمان کی نظربندی کایہ آرڈر ایم پی او کی سیکشن 2، 3 اور6کے تحت نکالاہے جبکہ یہ سیکشن اب ختم ہوچکے ہیںاوراب آئی جی سندھ کواس کااختیارنہیں ہے اوریہ آرڈر آئین پاکستان کے آرٹیکل 10، 10A اور 14کی بھی خلاف ورذی ہے۔
اس موقع پر بزرگ کارکن آفتاب بقائی کی وکیل محترمہ سعدیہ غوری ایڈوکیٹ نے بھی نظربندی کے آرڈرکے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہاکہ محکمہ داخلہ نے صرف یہ تصورکرکے کہ ان ملزمان سے امن کو خطرہ ہوسکتاہے، انہیں نظربند کردیاہے جوآئین پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28تک کے تمام آرٹیکل کے خلاف ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا قانون جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو وہ آئین کے خلاف ہے۔ سعدیہ غوری ایڈوکیٹ نے جج کے سامنے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ریلی میں شریک افراد نے کسی گاڑی یااملاک کوئی نقصان نہیں پہنچایا مگرپولیس نے ان ملزمان کی ضمانتیں منظورہونے کے باوجود انہیں نقص امن کے نام پر غیرقانونی طورپر نظربند کردیا۔ اس پر جسٹس عدنان چوہدری نے کمرہ عدالت میں موجود ایس ایچ او زمان ٹاؤن راؤرفیق سے سوال کیاکہ کیاآپ نے تمام 40افراد کی اسی وقت شناخت کرلی تھی اور آپ کوان کی شکلیں یادرہیں کہ آپ نے ان سب کوگرفتارکرلیا؟ جج کے اس سوال کا پولیس افسر کوئی جواب نہیں دے سکا۔ جسٹس عدنان چوہدری نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سے سوال کیاکہ اگرکسی مقدمہ میں کسی ملزم کی ضمانت منظورہوجائے تو کیا اسی الزام میں اس فرد کونظربندکیاجاسکتاہے ؟ اس پر اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل لاجواب ہوگئے اور کہاکہ یہ ملزمان اپنی نظربندی کے خلاف سیکریٹری داخلہ کے پاس درخواست دے سکتے ہیں ۔ اس پر جسٹس عدنان چوہدری نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ نظربندی کایہ آرڈر آئی جی سندھ کی سفارش پر جاری کیا گیاہے توپھر آپ یہ کام کیجئے کہ پہلے آئی جی سندھ کونظربند کردیجئے اورپھر آپ ان سے کہیے کہ وہ سیکریٹری داخلہ کے پاس جاکر اپنی نظربندی کے خلاف درخواست دیں۔ یہ کس طرح کامعاملہ ہے۔ جج نے اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل سے یہ سوال بھی کیاکہ جب آئی جی سندھ کوایم پی او کا آرڈرجاری کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے توپھرانہوں نے کس قانون کے تحت آرڈر جاری کروایا ۔ اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل کاکوئی جواب نہیں دے سکے۔ اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل نے جواب داخل کرنے کے لئے مزید وقت مانگا تو عدالت نے کہا کہ ملزمان کی نظربندی کوپہلے ہی14روز ہوچکے ہیں اور آپ مزید وقت مانگ رہے ہیں جومناسب نہیں ہے۔ سیکریٹری داخلہ کی جانب سے پیش ہونے والی سرکاری وکیل بھی عدالت کو مطمئن نہ کرسکیں۔ سماعت کے بعد عدالت نے آئی جی سندھ کوبدھ 26جولائی کوپیش ہونے کے احکامات جاری کردیے۔ نظربندی کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت اب بدھ کو ہوگی۔