Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بی بی سی کے پروگرام ’’ سیربین ‘‘ میں سینئرصحافی شفیع نقی جامعی سے گفتگو


محترمہ عاصمہ جہانگیر کی بی بی سی کے پروگرام ’’ سیربین ‘‘ میں سینئرصحافی شفیع نقی جامعی سے گفتگو
 Posted on: 12/28/2016
ایم کیوایم کے قائدجناب الطاف حسین کی تقاریر،بیانات اورتصاویر کی نشرواشاعت پر عائد پابندی کے بارے میں
سپریم کورٹ بار کی سابق صدرمحترمہ عاصمہ جہانگیر کی بی بی سی کے پروگرام ’’ سیربین ‘‘ میں سینئرصحافی شفیع نقی جامعی سے گفتگو

نوٹ : پاکستان کے ممتازدانشور، سینئرصحافی اوربی بی سی اردو کے ممتازپروگرام ’’ سیربین ‘‘ کے میزبان شفیع نقی جامعی نے کچھ دنوں قبل سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اورانسانی حقوق کی ممتازرہنمامحترمہ عاصمہ جہانگیر سے انٹرویوکیااورمتحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین کی تقاریر،بیانات اورتصاویر کی نشرواشاعت پر عائدکی گئی پابندی کے بارے میں ان سے اہم گفتگو کی ۔ ہم اس انٹرویو کامتن قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔ 

شفیع نقی جامعی۔۔۔الطاف حسین کی آواز ، تقریر، خطاب وتصویر یا فوٹیج پر پابندی عائد کرنے سے کون سے احداف کا حصول مقصود ہے؟ کیا پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی قدغن کی ایسی کوئی نظیر ہے؟ اور اگرپابندی عائد کرنے والوں۔۔۔ یا اسٹیبلشمنٹ کے حقوق ہیں تو کیا ایم کیوایم کے فالوورز کے حقوق نہیں؟وہ کہاں جاتے ہیں ؟ اس سلسلے میں میں نے پاکستان سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق سربراہ اور انسانی حقوق کی سرکردہ شخصیت عاصمہ جہانگیر سے بات کی ۔

عاصمہ جہانگیر۔۔۔ دیکھیں میں نے تو کبھی اس قسم کا آرڈر سنا نہیں کہ عدالتیں دیں کہ کون ٹی وی پہ آئے گا کون ٹی وی پہ نہ آئے ۔ یہ عدالتوں کا کام تونہیں ہے ماسوائے اس کے کہ اگر وہ کسی کو Threaten کررہے ہوں آکے بہت زیادہ۔۔۔ اور imminent ہو جائے کہ ان کے آنے سے کوئی دہشت پھیل جائے گی، ورنہ ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر کو آنے سے روکنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ یہ میرا خیال ہے کہ یہاں پہ سیاست کوختم کرناچاہتے ہیں۔ جویہاں پہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے وہ ایک چیز نہیں سمجھتی ہے کہ اس ملک سے اگر سیاسی پارٹیاں نکال دیں گے تو یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ یہ ملک نہ کبھی فوج اکٹھا رکھ سکتی ہے اور نہ بیوروکریسی اکٹھا رکھ سکتی ہے ۔ یہ سیاسی پارٹیاں ہیں ان کی وجہ سے ملک اکٹھا ہے ۔

شفیع نقی جامعی۔۔۔عاصمہ صاحبہ ! آج تک کسی بھی سیاسی رہنما یا رہنماؤں کے خلاف ایسی پابندیوں کی کوئی نظیر ہے؟ اخبار بند۔۔۔ ٹی وی بند۔۔۔ لائیو بند ۔۔۔ یہ بند۔۔۔ ناطقہ بند ۔۔۔جوجومرضی آئے وہ بند؟

عاصمہ جہانگیر۔۔۔دیکھیں بات یوں ہے کہ ہمارے ہاں یہtradition تو رہی ہے ،پہلے یہ تھا کہ poets ہی بلیک لسٹ ہوتے تھے ۔ میرا خیال ہے جب تک 88ء میں محترمہ بے نظیربھٹو بھی آئی ہیں، ہمارے جیسے لوگوں نے تو کبھی ٹی وی اور ریڈیو میں اپنی آواز سنی نہیں تھی۔ جس ملک میں فیض احمد فیض نہیں سنا گیا ، ان کے مرنے کے بعد سنے گئے۔۔۔ اب دنیا ان کو سنتی رہی تو وہاں آپ آزادی صحافت اور Freedom of speech یا میڈیا کی کیابات کریں گے ۔

شفیع نقی جامعی۔۔۔تو میں قانونی اوراخلاقی ہر دواعتبار سے دیکھنے کی کوشش کررہاہوں عاصمہ صاحبہ! اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کا یا عدالت کا حق مان لیاجائے کہ جی انہوں نے اپنی Jurisdiction میں جو مناسب سمجھا وہ کیا۔۔۔ لیکن جو کسی پارٹی کے فالوورز ہیں ۔۔۔جوماننے والے ہیں۔۔۔ ان کا بھی تو حق ہے۔۔۔ ان کے حق کا کیا بنے گا؟

عاصمہ جہانگیر۔۔۔جی بالکل۔۔۔بالکل۔۔۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں ۔۔۔ ان کا حق ہے ۔۔۔ میں آپ سے agree کروں گی کہ پہلے اسٹیبلشمنٹ یا ڈکٹیٹرز نے لوگوں کی زبان بندی کی مگر عدالتی حکموں سے اتنی زبان بندی نہیں ہوئی تھی اب یہ وہی زبان بول رہے ہیں جوکہ narrative چل رہا ہے۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ یہ زیادتی ہے۔۔۔ مگر بہرحال ابھی تک تو ان کا کیس چل رہا ہے وہ sub judice ہے ۔ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی نظرثانی کی جائے ۔ میں کہہ نہیں سکتی اس سے زیادہ۔ 

شفیع نقی جامعی۔۔۔تو بات یہ ہوتی ہے عاصمہ جہانگیر صاحبہ ، تنگ آمد بجنگ آمد۔۔۔میں ان فالوورز کی بات کررہا ہوں کہ اب ان کے احتجاج کا کیا راستہ ہے؟ اب اگروہ اپنے رہنما کو۔۔۔ لیڈر کوسننا چاہتے ہیں۔۔۔ غورکرنا چاہتے ہیں۔۔۔ تو وہ نہ تصویر میں ہے۔۔۔ نہ آواز میں ہے ۔۔۔ نہ وہ لائیو پریس کانفرنس میں ۔۔۔ تو وہ کیاکریں گے ؟

عاصمہ جہانگیر۔۔۔ہاں میں نے تو آپ سے عرض کی کہ یہ ایک نہایت بیہودہ فیصلہ ہے ۔ اب اس سے زیادہ میں آپ کو کیا کہہ سکتی ہوں ۔ اس کے اندر بنیادی حقوق کی قدریں ہیں ، اس کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں ۔۔۔میں اس سے زیادہ آپ کو کیاکہہ سکتی ہوں ایک فیصلہ کے اوپر۔

شفیع نقی جامعی۔۔۔ٹھیک ٹھیک ۔ یہ جو اس وقت موجودہ روش ہے۔۔۔جوبظاہرفوجی حلقوں کو۔۔۔ اور سیاسی قیادت پر فوقیت ملنے کا تاثر دیا جارہا ہے تو اس کے تحت ہونے والی پیش رفت کا حصہ تونہیں ہے یہ ؟

عاصمہ جہانگیر۔۔۔تاثر تو نہیں ہے فوقیت ہونے کا ۔۔۔میں توبلکہ یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے وزیراعظم (میاں نواز شریف )جو ہیں وہ کبھی کبھی نظرآتے ہیں اور جوپالیسی میٹرز کے اوپربیانات ہوتے ہیں وہ ہماری فوج عسکری قیادت دیتی ہے ۔ آج کل تو وہی پالیسی چلارہے ہیں۔۔۔ وہی میڈیا چلارہے ہیں۔۔۔ وہی کچھ حد تک پارلیمنٹ بھی چلارہے ہیں ۔۔۔کچھ عدالتیں ان سے جو سپریم کورٹ ہے، وہ بالاتر ہے ۔۔۔ شکرہے ۔۔۔مگرآہستہ آہستہ پتہ نہیں کیاہوگا ۔۔۔باقی یہاں پر کون بولتا ہے ۔۔۔ کون کہتا ہے ۔ جو ملک جنگوں کو celebrate کرے اس ملک کا کیاحال ہوگا ۔

*****

7/19/2024 12:41:09 AM