رستہ
یہ کیسا قاعدہ اب کے بنا دیا تم نے
تمام شہر کو مجرم بنا دیا تم نے
ہمی نے خون سے لکھی تھی یہ کتابِ وطن
ہمارا نام ہی اس سے مٹا دیا تم نے
بلند ہم نے ہی اس پرچمِ وطن کو کیا
ہمیں ہی بامِ فلک سے گرا دیا تم نے
ہمی نے خوں سے سجائی تھی انجمن لیکن
ہمیں ہی محفلِ جاں سے اٹھا دیا تم نے
ہمی نے گھر کو بنایا تھا خود فنا ہوکر
ہمیں ہی گھر کے صحن سے بھگا دیا تم نے
ہمی نے یاد کرایا تھا نامِ صحنِ چمن
ہمیں ہی شورِ چمن میں بھلا دیا تم نے
وفا کی قدر نہ قیمت کوئی رہی باقی
تمام اہلِ وفا کو دکھا دیا تم نے
ہیں اپنے حق سے ہی محروم بانیانِ وطن
وفا پرستوں کو کیسا صلہ دیا تم نے
وہ جن کے پاس وفا کے سوا نہ تھا کچھ بھی
انہی کے مال و متاع کو جلا دیا تم نے
ہمیں تو راہوں میں پھولوں کی آرزو تھی مگر
یہاں تو کانٹوں سے رستہ سجا دیا تم نے
ہمارے زخم بھی بھر جائیں گے کبھی نہ کبھی
ہمیں ہمیشہ یہی آسرا دیا تم نے
جو عاشقانِ وطن تھے انہی کو مار دیا
ذرا بتاؤ تو آخر یہ کیا کیا تم نے
یہ گھر ہمارا نہیں تھا، نہ ہوسکے گا کبھی
سمجھ کے غیر ہمیں یہ بتا دیا تم نے
نہ ہوگا گھر تو یونہی در بدر رہیں گے سدا
ہم اہلِ درد کو رستہ دکھا دیا تم نے
مصطفےٰؔ عزیزآبادی
14 اگست 2016ء