تحریروتقریر کی آزادی ہرانسان کا بنیادی حق ہے اور یہ حق اقوام متحدہ کاچارٹر بھی دیتا ہے، الطاف حسین
الطاف حسین سچ بولتا ہے تو اس کی تقریراور تصویر کو نشروشائع کرنے پر پابندی عائد کردی جاتی ہے، الطاف حسین
تقریرسننے ، تقریرکے کسی جملے پر مسکرانے ، رونے یا تالیاں بجانے والوں پر بھی مقدمہ قائم کردیاجاتا ہے، الطاف حسین
پاکستان میں آئین اور قانون کتابی شکل میں تو موجود ہے لیکن عدالتوں میں اس کی عملداری دیکھنے میں نہیں آتی ،الطاف حسین
بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کی کتاب کا سہارا لیکر قومی دولت لوٹنے والوں کو جیلوں اورتھانوں سے رہا کرادیا جاتا ہے اور بے گناہ غریب عوام کو قید کرکے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کردیئے جاتے ہیں، الطاف حسین
ایسی پارلیمنٹ کا کیافائدہ جہاں ایسی قانون سازی کی جائے جس پر عملدرآمد نہ ہوسکے، الطاف حسین
حق پرست صوبائی وزیرتعلیم نے اندرون سندھ میں 400 اسکول قائم کیے جنہیں وڈیروں کی اوطاق میں تبدیل کردیاگیا، الطاف حسین
غریب ہاریوں،کسانوں اورمزدوروں کے بچے آج 69 برس گزرجانے کے باوجودبنیادی تعلیم سے محروم ہیں، الطاف حسین
سندھ میں 1973ء میں کوٹہ سسٹم دس سال کے لئے نافذ ہواتھالیکن آج تک رائج ہے، الطاف حسین
سندھ دھرتی ماں کے اردواورسندھی بولنے والے دوبیٹے ہیں، بیٹوں کے نام الگ الگ ہونے سے ماں تبدیل نہیں ہوتی، الطاف حسین
وقت آگیاہے کہ دونوں بیٹوں کے گھرالگ الگ کردیئے جائیں، الطاف حسین
اللہ تعالیٰ پاکستانی فوج میں ایسامجاہدپیداکردے جو ملک کولوٹنے والوں کاکڑااحتساب کرے،الطاف حسین
نواب شاہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب
لندن۔۔۔4، جون2016ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان میں آئین اور قانون کتابی شکل میں تو موجود ہے لیکن عدالتوں میں اس کی عملداری دیکھنے میں نہیں آتی ، بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کی کتاب کا سہارا لیکر قومی دولت لوٹنے والوں کو جیلوں اورتھانوں سے رہا کرادیا جاتا ہے اور بے گناہ غریب عوام کو قید کرکے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کردیئے جاتے ہیں، انہوں نے کہاکہ ایسی پارلیمنٹ کا کیافائدہ جہاں ایسی قانون سازی کی جائے جس پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نواب شاہ پریس کلب کے سامنے ایم کیوایم کے کارکنان کی غیرقانونی گرفتاریوں اوران کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر رابطہ کمیٹی کے ارکان ، سندھ تنظیمی کمیٹی کے اراکین، حق پرست ارکان سندھ اسمبلی ، نواب شاہ زونل کمیٹی کے ارکان ، سندھی بولنے والے کارکنان اورہمدردبزرگ، خواتین اورنوجوان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔