پاکستان کو بہتر انداز میں چلانا ہے تو نئے صوبے بنانے ہوں گے، ہمیں بھی ہمارا صوبہ دینا ہوگا۔ الطاف حسین
ہمارے صوبے میں جوزبان بولنے والے رہتے ہیں انہیں یہاں سے نکالا نہیں جائے گا، سب کا اس صوبے پر برابر کا حق ہوگا اور میرٹ کے مطابق سب کوان کا حق ملے گا
ہم کسی بھی قومیت یا کسی بھی زبان بولنے والے سے نفرت نہیں کرتے، ہم سب کا احترام کرتے ہیں
مہاجروں کا بھی احترام کیا جائے، انکے وجود کو تسلیم کیا جائے، انہیں نفرتوں کانشانہ نہ بنایا جائے اوران کے ساتھ بھی مساوی سلوک کیاجائے
اگر قیام پاکستان کے بعد مہاجراکابرین ظلم وناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے توہمیں ایم کیوایم بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی
ایم کیوایم کے خلاف گروپ بنانے اوران کی سرپرستی کرنے کے بجائے ایم کیوایم کے وجود کو تسلیم کیا جائے جسے عوامی حمایت حاصل ہے
مہاجر اکابرین خاموشی کا قفل توڑ دیں اور ظلم و ناانصافیوں کے خاتمے اور حقوق کے حصول کے لئے آگے آئیں
گلستان جوہر ریذیڈنٹس کمیٹی کے تحت منعقدہ اجتماع کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب
لندن۔۔۔14،مئی 2016ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان کوبہتراندازمیں چلاناہے تو نئے صوبے بنانے ہوں گے، ہمیں بھی ہمارا صوبہ دینا ہوگا ۔ انہوں نے واضح الفاظ میں ایک بارپھراپنی اس بات کااعادہ کیاکہ ہمارے صوبے میں جوبھی پنجابی، پختون،سندھی،بلوچ، ہزارے وال، سرائیکی، کشمیری دیگر قومیتوں، برادریوں اورمذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں انہیں یہاں سے نکالانہیں جائے گا بلکہ ان کابھی اس صوبے پر برابرکاحق ہوگا اورمیرٹ کے مطابق سب کوان کاحق ملے گا۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار گلستان جوہر ریذیڈنٹس کمیٹی کے تحت منعقدہ اجتماع کے شرکاء سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں ایم کیوایم میں شمولیت اختیارکرنے والے معروف سیاسی کارکن ساتھی اسحاق ، اقوام متحدہ کے ایوارڈ یافتہ معروف ڈائریکٹر وپروڈیوسر حیدرامام رضوی، نیپا کے ڈائریکٹر جنرل جاوید اقبال ، ریٹائرڈ جج صاحبان کرم چند کنگرانی اور عظمت اللہ کے علاوہ مختلف تعلیمی اداروں کے پروفیسرز، لیکچرارز، ڈاکٹرز، انجینئرز ،وکلاء، صحافی ، طلباوطالبات اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آیت کاترجمہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’ اے لوگو!! ہم نے تمہیں ایک مردوعورت سے پیدا کیا، پھر تمیں گروہوں، قبیلوں ، قوموں اور قومیتوں میں تقسیم کیاتاکہ آپس کی شناخت ہولیکن تم میں افضل وہی ہے جو کردار، اطواراور تقویٰ میں اعلیٰ ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے ہم اپنے آپ کومسلمان پاکستانی کہتے رہے لیکن ہم نے قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کی روشنی میں اپنی شناخت جاننے کی کوشش نہیں کی ۔ انہوں نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد پاکستان پر ان مفادپرست عناصر کا تسلط قائم ہوگیا جنہوں نے تحریک پاکستان کی جدوجہد میں کوئی کردارادا نہیں کیاتھااور جوبانیان پاکستان کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے رہے ، اسی لئے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو قتل کردیاگیا، پھر راولپنڈی کے بھرے جلسے میں خان لیاقت علی خان کو شہید کردیا گیااورمحترمہ فاطمہ جناح کو قتل کیاگیا لیکن آج تک ان کے قتل کی تحقیقات سامنے نہیں آئیں۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعدقائداعظم محمد علی جناح نے جن تعلیم یافتہ مہاجر بیوروکریٹس کو پاکستان آکر ملک چلانے کی دعوت دی تھی انہوں نے پاکستان کا انتظام چلانے کیلئے انفراسٹرکچر بنایااور پاکستان کا سنبھالادیا لیکن مطلب نکل جانے کے بعدانہیں تعصب اور نفرت کی بھینٹ چڑھادیا گیا،پہلے فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورمیں ان مہاجربیوروکریٹس کو بیک جنبش قلم ان کی ملازمتوں سے بیدخل کیاگیا پھر جنرل یحییٰ خان کے دور میں مہاجربیوروکریٹس کا معاشی قتل عام کیاگیا، ذوالفقارعلی بھٹو کے دورمیں نیشنلائزیشن کی پالیسی کے تحت مہاجروں کی صنعتوں، فیکٹریوں، ملوں، تعلیمی اداروں، بنکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومیالیاگیا اور جب یہ ادارے ڈی نیشنلائز کیے گئے تو مہاجروں کو ان کے ادارے واپس نہیں کیے گئے ، 1964ء میں جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے درمیان صدارتی انتخابات ہوا تو کراچی کے عوام نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ، اس الیکشن میں جنرل ایوب خان نے دھاندلی سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دینے کی پاداش میں کراچی کے عوام کو انتقام کا نشانہ بنایااور جشن فتح کی آڑ میں جنرل ایوب کے بیٹے گوہر ایوب نے اپنی سربراہی میں صوبہ سرحد سے اپنے حمایتیوں کو کراچی لاکرانہیں بتایا کہ وہ کافروں سے لڑنے جارہے ہیں اورپھر مہاجربستیوں پر مسلح حملے کرائے ، خواتین کی بے حرمتی کی گئی ، مہاجروں کا قتل عام کیاگیا اور مہاجروں کی املاک کولوٹ کر نذرآتش کیا گیا ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ اگر اس وقت مہاجراکابرین اس ظلم وناانصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تو ایم کیوایم بنانے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ آج ایم کیوایم اور الطاف حسین پر الزام عائد کیاجاتا ہے کہ ہم نے لسانیت پھیلائی جبکہ یہ تاریخی حقائق ہیں کہ مہاجروں کو قیام پاکستان کے بعدسے تعصب اور عصبیت کا نشانہ بنایاجاتارہا ہے اور الطاف حسین کا قصور یہ ہے کہ اس نے بکھرے ہوئے مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے انہیں بہادر بنادیا ہے ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ 70کی دہائی میں ذوالفقارعلی بھٹو کی مقبولیت کاآغاز بھی کراچی سے ہوا لیکن ’’روٹی ، کپڑا اورمکان‘‘ اور’’سوشلزم ہماری معیشت‘‘ کا نعرہ دینے والی جماعت جب اقتدارمیں آئی تو معراج محمد خان کو گرفتارکرکے اس قدربہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا کہ وہ آج تک بسترعلالت پر ہیں۔ بھٹو کے کزن اوراس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ممتاز علی بھٹو نے لاڑکانہ ، شکارپور،خیرپور اور اندرون سندھ کے دیگرشہروں میں مہاجروں کوظلم وستم کا نشانہ بناکر انہیں اپنے بھرے پرے گھرچھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبورکردیا، سندھ اسمبلی میں لسانی بل کے خلاف ’’اردوکا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘‘ کا نعرہ لگانے والے مہاجروں کو خاک وخون میں نہلادیاگیا اس وقت نہ تو ایم کیوایم تھی اور نہ ہی الطاف حسین میدان سیاست میں تھا۔اگر اس وقت مہاجراکابرین اس ظلم وستم کے خلاف متحد ہوجاتے اور اپنے آپ کو مہاجرقراردینے میں شرم محسوس نہ کرتے تو الطاف حسین کو مہاجرحقوق کی جدوجہد کیلئے میدان میں نہ آنا پڑتا۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ 1978ء میں جب ہم نے مہاجرطلباء کے حقوق کیلئے اے پی ایم ایس او قائم کی تو اسلامی جمعیت طلباء کے غنڈوں نے ہمیں تشدد کا نشانہ بناکر جامعہ کراچی اوردیگرتعلیمی اداروں سے بیدخل کردیاتو ہم نے کراچی کی گلیوں اورمحلوں میں اپنا پیغام پھیلانا شروع کردیا اور دن رات کام کرتے رہے اور 8، اگست1986ء کو کراچی کے تاریخی نشتر پارک میں پہلا عوامی جلسہ کیا جس کے شرکاء کے نظم وضبط کی آج بھی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جب مہاجروں کو تقسیم درتقسیم کرنے کی سازش کی جارہی تھی ، بریلوی، دیوبندی، وہابی، شیعہ اورسنی کی تفریق پیدا کی جارہی تھی اور شیعہ سنی فسادات معمول بن گئے تو میں واحد تھا جو شیعہ سنی علاقوں میں جاکر فرقہ وارانہ فسادات کی راہ میں رکاوٹ بن جاتاتھا ، گلی گلی جاکر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دیاکرتا تھا جس کے نتیجے میں شیعہ سنی عوام کے درمیان نفرتوں کا خاتمہ ہوا۔ فرقہ واریت کی آڑ میں بہت سے شیعہ علماء ، شیعہ ڈاکٹرز اور سنی علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کسی بھی علاقے میں عوامی سطح پر شیعہ سنی فسادات کرانے کی سازش کامیاب نہ ہوسکی ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ لندن سے کراچی آمد کے موقع پر عائشہ منزل کے مقام پرمجھ پرپہلا خود کش حملہ کیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے میں اس حملے میں محفوظ رہا اورمجھ پر حملہ کرنے والے ہاتھوں میں گرنیڈ پھٹنے سے خود ہلاک ہوگئے جس کے باعث ساتھیوں نے مجھے زبردستی لندن بھیج دیا اور آج میں 25 برسوں سے جلاوطنی کی کربناک زندگی گزاررہا ہوں۔ حق پرستی کی اس جدوجہد کے دوران ایم کیوایم کے ہزاروں کارکنان نے جام شہادت نوش کیا، ہزاروں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں ، سینکڑوں کارکنان گرفتاری کے بعد سے آج کے دن تک لاپتہ ہیں لیکن تمام ترنامساعد حالات اورظلم وستم کے باوجود ہم اپنی جمہوری جدوجہد سے دستبردارنہیں ہوئے اور حق پرستی کی جدوجہد آج بھی جاری ہے ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ نائن الیون کے سانحہ کے بعد پاکستان میں جگہ جگہ مدارس قائم کیے گئے جہاں سوویت یونین اورامریکہ کی سرد جنگ کے دوران سوویت افواج سے لڑنے کیلئے مجاہدین تیارکیے گئے اور آج پوری دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان ، مذہبی انتہاء پسندوں کی تربیت کا مرکز ہے ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں عوام نے پاکستان بنایاتھا لیکن پاکستان کے 98 فیصد غریب ومتوسط طبقہ کے عوام آج بھی حق حکمرانی سے محروم ہیں ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ قیام پاکستان کے وقت فوج برطانیہ کے زیراثرتھی تاہم سلطنت برطانیہ کے زوال کے بعد فوج امریکہ کے تسلط میں آگئی ۔ فوج نے بدقسمتی سے مہاجروں کوتسلیم نہیں کیا ،ان کی حب الوطنی پر شک کیاگیا،ان کوبرابرکاپاکستانی تسلیم نہیں کیاگیا۔انہوں نے کہاکہ ایک طرف تومہاجروں کو کہا جاتاہے کہ وہ سندھ میں رہتے ہیں لہٰذا سندھی ہیں لیکن جب بھی ہم سندھ میں مخلوط حکومتوں کاحصہ بنے ، خواہ وہ جام صادق علی کی ہو، مظفرشاہ کی ہو، لیاقت جتوئی کی ہویا ارباب رحیم کی ہو، ہم اکثریت میں تھے لیکن کبھی مہاجرچیف منسٹرقبول نہیں کیاگیا ، اگرہم سندھی ہیں توسندھی سمجھ کرہمیں وزارت اعلیٰ کیوں نہیں دی گئی؟ انہوں نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کوبہتراندازمیں چلاناہے تو نئے صوبے بنانے ہوں گے، ہمیں بھی ہماراصوبہ دیناہوگا۔انہوں نے واضح الفاظ میں ایک بارپھراپنی اس بات کااعادہ کیاکہ ہمارے صوبے میں جوبھی پنجابی، پختون،سندھی،بلوچ، ہزارے وال، سرائیکی، کشمیری دیگرقومیتوں، برادریوں اورمذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں انہیں یہاں سے نکالانہیں جائے گا بلکہ ان کابھی اس صوبے پر برابرکاحق ہوگا اورمیرٹ کے مطابق سب کو ان کاحق ملے گا۔انہوں نے کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں میں آبادپنجابیوں،پختونوں، سندھیوں،بلوچوں، ہزارے وال، سرائیکیوں اورتمام غیر مہاجروں کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کوبھی مہاجرسمجھتے ہیں کیونکہ آپ بھی اپناگھربارچھوڑکرروزگارکیلئے یہاں آکرآبادہوئے ہیں، آپ بھی ایم کیو ایم کے ساتھ آجائیے اورہمارے ساتھ ملکر صوبے کے قیام کے لئے جدوجہدکریں۔ اس موقع پر حاظرین نے کافی دیرتک یہ نعرے لگائے ’’ جینے کا منصوبہ ہوگا۔۔۔ رہنے کوجب صوبہ ہوگا ‘‘۔