ضمیر کی پکار
( اپنے ضمیرکاسوداکرنے والوں کے نام )
( مصطفےٰؔ عزیزآبادی )
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
جو سارے ہوش چھین لے میں ایسا اک خمار ہوں
ہزیمتِ بلند ہوں ، تماشہء وقار ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
جو مال و زر کے واسطے اصول و ظرف چھوڑدیں
جو مسندوں کی چاہ میں ہر ایک رشتہ توڑدیں
جو منزلوں کے نام پر ہی قافلے کو چھوڑدیں
وفا کو بیچتے ہوں جو میں ان سبھوں کا یار ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
انانیت کی راہ میں جو دُور تک نکل گیا
بدلنے آیا تھا نظام اور خود بدل گیا
جو قوم کو گرا کے کہہ رہا ہے میں سنبھل گیا
جو جاں بچاکے بھاگ لے میں ایسا شہ سوار ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
میں دوستوں کے ساتھ اب ہوں ذلتوں کی راہ میں
خود اپنی چھت کو چھوڑ کر ہوں غیر کی پناہ میں
میں گر گیا ہوں آج اپنی قوم کی نگاہ میں
مہاجروں کی پشت پر میں دشمنوں کا وار ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
بھٹک گیا ہوں عمر سچ کی راہ میں گزار کر
بنارہا ہوں محل اپنی قوم کو اجاڑ کر
میں خوش ہوں اپنے باپ کی ہی عزتیں اتار کر
خدا سے اور نہ قوم سے نہ خود سے شرمسار ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
یہ ملک اور قوم کیا ہے بس مرا ہی نام ہے
عوام بیچتے ہیں کیا فقط مرا مقام ہے
کہیں پہ توڑنا کہیں بنانا میرا کام ہے
جو ہر کسی زبان پر ہے میں وہی ’’ وقار ‘‘ ہوں
ضمیر کی پکار ہوں ، ضمیر کی پکار ہوں
لندن
24 مارچ 2016ء