اب تو مینھ برسادے مولا
(شدیدگرمی سے ہلاکتوں پر فریاد)
اب تو مینھ برسا دے مولا
تھوڑی پیاس مٹا دے مولا
دکھیاروں کو چین عطا کر
غم کی چھاؤں ہٹادے مولا
کب تک ہو دن رات تڑپنا
سکھ کی نیند سلا دے مولا
آتشِ غم میں جو جلتے ہیں
ان کو اور جلاتا کیوں ہے
جن کے بدن ہیں زخمی ان کو
سورج سے جھلساتا کیوں ہے
کب تک یونہی جلتے رہیں گے
کچھ تو ذرا بتلادے مولا
اب تو مینھ برسادے مولا
ایک طرف ہے آگ فلک سے
اور زمیں پر گرم ہوائیں
پانی بجلی گیس نہیں ہے
پیٹ کی آگ بھی کیسے بجھائیں
اس عالم میں کیسے جئیں اب
بندوں کو سمجھادے مولا
اب تو مینھ برسادے مولا
مسند پر جو بیٹھے ہوئے ہیں
ان کے دلوں میں درد جگادے
بھوک افلاس میں روتے سسکتے
انسانوں کے اشک سجھا دے
کیا ہوتا ہے موت کا صدمہ
ان کو بھی دکھلادے مولا
اب تو مینھ برسادے مولا
جبروستم کا حبس ہے گہرا
کیسی زباں بندی ہے ، گٹھن ہے
سچ کہنا اک جرم ہے ٹھہرا
خوف میں سارا صحنِ چمن ہے
کھینچ لے اب اپنی رسی کو
اب تو حشر اٹھادے مولا
اب تو مینھ برسادے مولا
بارالٰہ میرے وطن میں
کب تک یونہی رات رہے گی
کب تک ہم مظلوموں پر یہ
شعلوں کی برسات رہے گی
بہت ہوئے دن اندھیاروں کے
اب تو سحر دکھلادے مولا
اب تو مینھ برسادے مولا
مصطفےٰؔ عزیزآبادی
22جون 2015ء