Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

نظریہ ہے تو تحریک ہے (تحریر :ارشد حسین )

 Posted on: 9/17/2013   Views:2642
قائد تحریک الطاف حسین بھائی کی 60ویں سالگرہ کی مناسبت سے تحریر کیا گیا خصوصی مضمون۔

نظریہ ہے تو تحریک ہے 

Emai [email protected] تحریر :ارشد حسین 

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایم کیوایم پر وقتاً فوقتاً کارروائی محض اس لئے کی جاتی ہے کیونکہ یہ جماعت غریب متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والی جماعت ہے اور ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے مخالفین سے آنکھو ں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ خواہ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو یا مذہبی جماعت سے، اس جماعت کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کوئی سرکاری ایجنسی یا اسٹیبلشمنٹ کا اہلکار شامل نہیں ہے ۔ دراصل وہ قوتیں جو اپنی من مانی کر کے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت میں تبدیلی کر والیتی ہیں یا پھر جب چاہتی ہیں و ہ کسی بھی جگہ یا جماعت میں لیڈر شپ تبدیل کرنے کے لئے بڑے سے بڑے اقدام یا کارروائی کر لیتے ہیں لیکن ان قوتوں کا ایم کیوایم پر بس نہیں چلتا شاہد اس کی وجہ اس جماعت کا ڈسپلن اور نظم وضبط ہے ۔یہ ملک کی واحد جماعت ہے جس میں ا س کے لیڈر یا دیگر ذمہ دار کے علاوہ کسی اور کی مرضی نہیں چلتی اسکی وجہ سچا نظریہ ہی ہوسکتا ہے جس تحریک میں نظریاتی اور فکر ی باتیں ہوں وہ انقلاب کی جانب رواں دواں ہوتی ہے وہ نتائج کی پروا کئے بغیر اپنی حق پرستی کی جدوجہد کو جاری رکھتی ہیں جبکہ ایسی تحریکوں کے کارکنان بھی نیڈر اور بہادر ہوتے ہیں وہ صرف اپنے قائد کے نظریہ اور اس پر عمل پیر ا ہوتے ہیں اور ان کارکنان میں اتنی پختگی ہوتی ہے کہ اپنے قائد کے نظریہ اور قائد کی حفاظت کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا نہ صرف جذبہ بلکہ حوصلہ بھی ہوتا ہے ۔ ماضی کی مثال میں لوگ نیلسن منڈیلا کی مثالیں دیتے ہیں جو برسوں پابند سلاسل ہونے کے باوجود حوصلہ نہ ہارا اور بل�آخر اسے ملک کا ااقتدا رجو طویل عرصے سے جاری ہے ملا یوں وہ اپنی قوم کے مسائل کے حل کیلئے آج بھی کوشاں ہے ۔ لیکن ماضی کی اس سے بڑی مثال بھی موجو دہے کہ ایک نظریاتی تحریک کا لیڈر جیل میں قید تھا اس کا کارکن روتا پیٹتا ،چھپتا چھپاتا اوربچتا ہوا اپنے لیڈر کے پاس آیا اور کہا کہ قائد! اب ہماری تحریک ختم ہوگئی ہے ،اب کوئی زندہ نہیں رہا ، ایک ایک کارکن اورایک ایک ہمدرد کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ حتیٰ کے آپ کے خاندان کے ایک ایک فرد اور تحریک کا نام لینے والے کو بھی ختم کردیا گیا ہے ۔ جس پر اس شخص نے کہا کہ تحریک ابھی زندہ ہے کیونکہ اس کا نظریہ زندہ ہے نظریہ اس کا قائد ہے جو کہ میں ہوں لہٰذا کارکن اور بن جائیں گے ہمدرد بھی اور بن جائیں گے اگر خدانخواستہ نظریہ دینے والے کو نقصان پہنچ جاتا تو نظریہ کہاں سے لاتے لہٰذا جہاں قائد زندہ ہو اس کا مطلب نظریہ زندہ اورجہاں نظریہ زندہ وہا ں تحر یک زندہ ۔ یقیناًایسی مثالیں بھی نظریاتی کارکنان کو حوصلہ بخشتی ہیں ان میں طاقت پید کر تی ہیں ان کو تقویت ملتی ہے اور حوصلے کے ساتھ حق و سچ کی حق پرستی کی جدوجہد میں پختگی کے ساتھ منزل کے حصول کی تگ ودومیں مگن ہوجاتاہے ۔اگرکسی نظریاتی تحریک پر برا یا کڑا وقت آجائے حتیٰ کہ اس تحریک کے ایک ایک کارکن کو چن چن کر قتل کر دیا جائے یہاں تک کہ محض شک کی بنیاد پر کے فلاں شخص اسی تحریک کے کارکن کا رشتہ دار یا عزیز ہے اسے بھی قتل کر دیا جائے ۔مختصر اً یہ کہ نظریاتی اورا نقلابی تحریکوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے حاکم وقت یا پھر ملکی کی اسٹیبلشمنٹ یا پھر وہ قوتیں جو نظریاتی تحریکو ں کو پھلتے پھولتے نہیں دیکھنا چاہتی ہیں وہ ایسی تحریکوں میں در اڑیں ڈالنے ،ان میں پھوٹ ڈالنے او ر ان کے ذمہ داران و کارکنان کو خرید نے تک کی کوششیں کر تی ہیں جب اس سے بھی کچھ حاصل نہ ہوتو قائد کے قریبی ساتھیوں کو قتل کرنے کے ہتھکنڈے استعمال کر تی ہیں یعنی قائد کے حوصلو ں کو پست کرنے اس کے اعصاب کو کمزور اور نظریہ کو پھیلنے سے روکنے کی بھر پور کوشاں رہتی ہیں ۔اس کے خلاف مختلف پر وپیگنڈے کئے جاتے ہیں لیکن ایسی نظریاتی تحریک اسی وقت زندہ رہتی ہے جب ان کا نظریہ زندہ رہے اور نظریہ اس وقت زندہ رہتا ہے جب تک نظریہ دینے والا زندہ و سلامت ہو۔ یعنی کے نظریاتی و انقلابی تحریک کی اصل روح اس کا قائد ہے جو اپنے کارکنان میں شعور انقلاب دیتا ہے وشعور نظریہ اور شعور بیداری دیتا ہے جبکہ یہی قائد کارکنان میں جدوجہد کا حوصلہ بیدار کرتا ہے بلکہ ان کی ڈھارس بھی بناتا ہے ،نظریاتی تحریکیں کیا ہوتیں ہیں ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس بات کا پختہ یقین ہونا چاہیے کہ نظریہ ہے تو تحریک ہے اگر خدانخواستہ نظریہ نہیں تو پھر تحریک کا بھی وجو د نہیں تو اس بات سے ثابت ہوا کے نظریہ کا اصل نام تحریک کا قائد ہے کیونکہ قائد ہی نظریہ دینے والا ہوتا ہے وہی کسی تحریک یا انقلابی جماعت کا نظریہ ہوتا ہے ۔ نظریہ کی حفاظت دراصل قائد کی حفاظت ہے ۔لیکن ان نادان دوستوں کو کون عقل کے ناخن دے جو انقلابی تحریکوں کے کارکنان کو اپنا قائد بدلنے کا مشورہ دیں ۔ اور ایسے لکھاری ،قلم کار، دانشور ، ویگر اہل قلم حضرات جو بے ضمیر ہوں اور قلم کی حرمت کا پاس رکھنے کے بجائے اسکاغلط استعمال کر تے ہوئے بری طرح نہ صرف پامالی کا مظاہرہ کرر ہے ہیں بلکہ عوام کو گمرائی کی طر ف راغب کررہے ہیں ۔ اہل قلم حضرات کی جانب سے غلط پر وپیگنڈے اور انکی تحریریں دراصل انہی قوتوں کے ہاتھ کومضبوط کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے جو نظریہ یا انقلاب کی دشمن ہوں ۔ ایسی صورت میں ایم کیوایم کو ایک اور بڑے نقصان ڈاکٹر عمران فاروق کی شہادت کی شکل میں پہنچایا گیا ہے ۔ یقیناًڈاکٹر عمران فاروق کا قتل اس خطہ کا بڑا سانحہ ہے لیکن غور طلب اور معنیٰ خیز بات یہ ہے کہ ان کا قتل جس ملک میں ہوا اس حکومت کیلئے بھی ایک کھلا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ایسی تاریخ اوردن کا چنا ؤ کیا گیا ہے کہ جب اس تحریک کے قائد کی سالگرہ منائی جاتی ہے گویا وہ دن چنا گیا کہ جب اس تحریک کے نظریہ نے جنم لیا اور یہ دن کسی بھی انقلابی تحریک کے کارکنان کیلئے بڑ ی اہمیت کا دن ہوتا ہے اگریہ کہا جائے کہ عید کے تہوار سے بھی بڑا تہوار ہوتا ہے تو غلط نہ ہوگا اور ایسے دن کو غم میں تبدیل کرنے والی قوتیں کیا چاہتی ہیں وہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے واقعہ سے بخوبی اندازا لگا سکتا ہیں ۔ اس واقعی کی تفتیش کو بھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاسکتا امید یہی ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قاتل منظر عام پر ضرور آئیں گے اگر ایسا ہوگیا تو ایم کیوایم مخالف قوتیں چاہے ان کا تعلق اندرون ملک یا بیرونی ملک سے ہی کیوں نہ ہو کیا وہ اس حقا ئق کا سامنا کر سکیں گی؟۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نظریے کو کچلنے کے بجائے خطہ کی موجودہ صورتحال کا سنگینی سے جائزہ لیا جائے اور ملک کو مستحکم بنانے کیلئے اسکی معاشی و اقتصادی صورتحال کو مستحکم کیا جائے اور دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر فوری اقدامات کئے جائیں تاکہ ملک ترقی کی جانب را غب ہو سکے ۔