پاکستان میں 27 ویں آئینی ترمیم لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ملک کومزید جکڑدیا جائے اورملک کاحلیہ مکمل طورپر تبدیل کردیا جائے۔
ہوسکتا ہےکہ حالات ایسا موڑ لےلیں کہ 27ویں آئینی ترمیم کا معاملہ رک جائے لیکن اگرآئین پاکستان میں27 ترمیم لانےکی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں آتی اور یہ آئینی ترمیم لائی گئی تو 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح 27 آئینی ترمیم پاس بھی ہوجائے گی اوراس کے تحت چند سال عوام پر مزید سخت گزریں گےلیکن اس 27 ویں آئینی ترمیم سے پاکستان کوبہت نقصان پہنچےگا۔
پاکستان میں انصاف کی عدم فراہمی کے حوالے سے تمام سابقہ اورموجودہ حالات وواقعات کے پیش نظر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں لوئرکورٹس سے لیکرہائی کورٹس تک اورہائی کورٹس سے لیکر سپریم کورٹ تک، تمام عدالتیں عوام کوانصاف فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں اور عدالتیں ہی قانون کی مسلسل خلاف ورزی کرتی آرہی ہیں۔ عدالتوں کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کرمیں سوال کرتاہوں کہ عوام اب اپنے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کےخاتمےکے لئےکہاں جائیں؟ کس سے انصاف حاصل کریں؟
مثال کے طورپرایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر پروفیسرڈاکٹرحسن ظفر عارف شہید کوگرفتارکرکے اذیتیں دی گئیں، انہیں قیدمیں رکھا گیا۔ جب وہ ضمانت پر رہا ہوئے توانہیں پھر اغوا کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں، اور پھر 13جنوری 2018ء کوانہیں گھر جاتے ہوئے ڈیفنس کے علاقے سے اغوا کرکے تشدد کا نشانہ بناکرسفاکی سے شہید کردیا گیا اورانکی لاش ریڑھی گوٹھ کے ساحلی علاقے میں پھینک دی گئی ۔ اسی طرح ایم کیوایم کےایک اوربزرگ رہنما آفتاب بقائی مرحوم کوبھی دومرتبہ گرفتارکیا گیا، انہیں ذہنی و جسمانی اذیتیں دی گئیں، اس کے نتیجےمیں ان کی حالت خراب ہوتی گئی اور گزشتہ دنوں ان کا بھی انتقال ہوگیا۔
16ستمبر 2025ء کوایم کیوایم کی کوآرڈی نیشن کمیٹی کےارکان نثارپہنور اورانورخان ترین کوایک تقریب میں جاتے ہوئے اغوا کرلیا گیا،ان کی جبری گمشدگی کے بارے میں پولیس کو اطلاع دی گئی، ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی لیکن ہائیکورٹ نے سماعت کےلئے ایک مہینہ کی طویل تاریخ دی اورایک مہینے بعد پھر دوبارہ ایک مہینے بعد کی تاریخ دے کرمعاملے کوٹال دیا گیا۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ عدالتوں کے ججز بھی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے چلے آرہے ہیں۔
دوسری تازہ مثال خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل خان آفریدی کی ہے جو ایک قبائلی نوجوان ہیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، پہلے ان کے وزیراعلیٰ بننے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں لیکن بالآخر وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔ سہیل آفریدی اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کیلئے باربار اڈیالہ جیل جاتے رہے لیکن ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی، انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی کہ ان کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے ، عدالت نے سپرنٹنڈنٹ جیل کوواضح حکم دیا کہ عمران خان سے سہیل آفریدی اور وکلاء کی ملاقات کرائی جائے لیکن عدالتی حکم کے باوجود ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی، اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا پاکستان میں عدالتوں کا وجود بے معنی ہوگیا ہے؟ ایسی صورت میں کیا پاکستان کو عدالتیں رکھنے والا ملک قراردیا جاسکتا ہے؟
موجودہ عدالتی نظام مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے، اب ججز اس شیر کی مانند ہوچکے ہیں جس کے دانت اورناخن نکال لئے گئے ہوں اوراسے بھوکا پیاسا بھی رکھا جارہاہو، جس میں اتنی ہمت بھی نہ ہو کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے شکار کرسکے۔ اسی طرح آج پاکستان میں ججز کے بھی دانت اورناخن نکال لئے گئے ہیں، ان کا ذہن مفلوج کردیا گیا ہے، قلم چھین لیا گیا ہے اورانصاف کاترازو اُن کے سامنے سے ہٹالیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں ججز کے سامنے انصاف کی دہائیاں دینا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ اب ایسی صورت میں پاکستان کے عوام کیسے انصاف حاصل کریں گے؟
تحریک انصاف کے بانی عمران خان دوسال سے جیل میں قید ہیں لیکن پی ٹی آئی کے رہنما کوئی واضح لائحہ عمل اختیار کرنے کے بجائے عدالت عدالت کھیل رہے ہیں ،آخر یہ کب تک عدالت عدالت کھیلتے رہیں گے؟
جس ملک کے عوام کوانصاف نہیں ملتا اس ملک کی سلامتی وبقاء کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، عوام اگر پاکستان کو قائم ودائم دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اب میدان عمل میں آنا ہوگا اور انصاف کے حصول کیلئے قربانیاں دینی ہوں گیں کیونکہ قربانیوں کے بغیرکبھی منزل نہیں ملاکرتی۔
الطاف حسین
338 ویں فکری نشست سے خطاب
26 اکتوبر 2025