آپریشن عزمِ استحکام سے ملک مزیدغیرمستحکم ہوگا
بیرونی قوتو ں کے مفاد کے لئے آپریشنوں کی پالیسی ترک کی جائے
الطاف حسین
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 1979ء میں امریکہ اورروس کی سردجنگ کاحصہ بنکر عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے ملک بھرمیں جہادی مدرسے قائم کئے، مجاہدین بنائے،انہیں ٹریننگ دیکر افغانستان بھیجا اورافغان جہاد کے نام پر افغانستان کو جنگ کی آگ میں جھونکا، اس کے لئے امریکہ سے بوریوں میں بھر بھر کے ڈالر وصول کئے اور عالمی طاقتوں کی مددسے 1992ء میں افغانستان کی حکومت ختم کرکے وہاں صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں مجاہدین کی حکومت قائم کی ، بعد میں بیرونی قوتوں کے مفادات کے لئے انہی مجاہدین کی حکومت کاخاتمہ کرنے کے لئے طالبان کے نام سے نئے نئے جہادی گروپس بنائے جنہوں نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کومزید تباہ کیا اوروہاں اپنے مفاد کے لئے1996میں ملاّعمرکی سربراہی میں طالبان کی حکومت قائم کی ۔پھر2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے عالمی طاقتوں سے ایک بارپھراربوں کھربوں ڈالر لیکر ملاّ عمر کی طالبان حکومت کے خاتمہ کے لئے سہولت کاری کی ،عالمی طاقتوں کے منصوبے کے تحت افغانستان میں 2001ء میں حامدکرزئی اور2014ء میں اشرف غنی کی حکومتیں قائم کی گئیں ۔ فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف تو حامدکرزئی اوراشرف غنی کی حکومتوں کی حمایت کی تودوسری طرف ا نہی کے خلاف مزید نئے نئے طالبان گروپس قائم کئے جنہوں نے افغانستان اورپاکستان میں خودکش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کا نیاسلسلہ شروع کیا اوریوں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ فوج کے جرنیلوں نے جن طالبان کوبنایا انہی کو مارنے کے لئے بیرونی قوتوں سے مزید ڈالرزوصول کئے اوران حاصل کردہ ڈالروں کے عوض انہیں ڈرون حملوں اوربمباری کی اجازت دی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج نے خود بھی قبائلی علاقوں میں مختلف آپریشنوں کے نام پر بمباری اورگولہ باری کر کے ہزاروں معصوم قبائلیوں کومارا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں معصوم پشتونوں کاجتناخون بہایا گیا ، اتناتاریخ میں کبھی نہیں بہایا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اوردیگرصوبوں میں بھی ہزاروں معصوم پاکستانی خودکش حملوں، بم دھماکوں اوردہشت گردی کی دیگرکارروائیوں کانشانہ بنے۔
فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف توطالبان اور مختلف عسکری تنظیمیں اورخودکش بمبارتیارکرکے افغانستان اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا تودوسری طرف کشمیرمیں جہاد کے نام پر درجنوں جہادی تنظیمیں بنائیں جنکی تفصیل اخبارات میں شائع ہوچکی ہے جن میں سے پاکستان کی ایک جہادی تنظیم کے ارکان 26نومبر2008ء کو ممبئی میں ہونے والے ایک بڑے دہشت گردحملے میں ملوث پائے گئے۔
فوج نے گزشتہ 22برسوں میں عالمی قوتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل اور اپنے مفادات کے تحت پاکستان خصوصاًخیبرپختونخوااوراس کے قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
آپریشن المیزان… 2002
آپریشن راہ ِ حق… 2007
آپریشن صراط ِ مستقیم… 2008
آپریشن زلزلہ… 2008
آپریشن شیر دل… 2008
آپریشن راہ ِراست… 2009
آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم…2009
آپریشن راہ ِنجات… 2009
آپریشن بریکھنا… 2009
آپریشن کوہ ِ سفید… 2011
آپریشن ضرب ِ عضب… 2014
آپریشن ردّالفساد… 2017
مختلف آپریشنوں کے بعد اب ایک بارپھر بیرونی قوتوں کے مفاد کے لئے '' عزمِ استحکام '' کے نام سے پختونخوا اوربلوچستان میں ایک نیافوجی آپریشن شروع کرنے کااعلان کیا گیا ہے۔ ماضی کے آپریشنوں کی طرح اس نئے آپریشن میں کی آڑ میں بھی ایک بارپھر پختونوں کاخون بہایاجائے گا۔ اورساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور18 مارچ 1984ء کوقائم کردہ میری ایم کیوایم کے رہنماؤں، کارکنوں اورہمدردوں کوبھی مزید نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے وابستہ سچے حق پرست صحافیوں، اینکرزاوریوٹیوبرز پر بھی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی ۔
میں سمجھتاہوں کہ اس آپریشن سے ملک میں کسی بھی قسم کااستحکام نہیں آئے گابلکہ اس سے ملک مزید غیرمستحکم ہوگا۔ اس باراس آپریشن کااعلان فارم 47 کے تحت بنائے جانے والے وزیراعظم شہباز شریف سے کرایا گیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں جوکچھ بھی ہواس کاساراملبہ سویلین وزیراعظم اوران کی حکومت کے ڈال دیاجائے ۔ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہتاہوں کہ فوجی آپریشنوں کے نتائج نہ ماضی میں بہترنکلے تھے اورنہ ہی اب نکلیں گے لہٰذا بیرونی قوتوں کے مفاد کیلئے آپریشنوں اوراپنے ہی شہریوں کو مارنے کی پالیسی ترک کی جائے اورآپریشن عزمِ استحکام کافیصلہ فی الفور واپس لیاجائے۔
الطاف حسین
( 23 جون 2024ء کوٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب)
آپریشن عزمِ استحکام سے ملک مزیدغیرمستحکم ہوگا
بیرونی قوتو ں کے مفاد کے لئے آپریشنوں کی پالیسی ترک کی جائے
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 1979ء میں امریکہ اورروس کی سردجنگ کاحصہ بنکر عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے ملک بھرمیں جہادی مدرسے قائم کئے، مجاہدین بنائے،انہیں ٹریننگ دیکر افغانستان بھیجا اورافغان جہاد کے نام پر افغانستان کو جنگ کی آگ میں جھونکا، اس کے لئے امریکہ سے بوریوں میں بھر بھر کے ڈالر وصول کئے اور عالمی طاقتوں کی مددسے 1992ء میں افغانستان کی حکومت ختم کرکے وہاں صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں مجاہدین کی حکومت قائم کی ، بعد میں بیرونی قوتوں کے مفادات کے لئے انہی مجاہدین کی حکومت کاخاتمہ کرنے کے لئے طالبان کے نام سے نئے نئے جہادی گروپس بنائے جنہوں نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کومزید تباہ کیا اوروہاں اپنے مفاد کے لئے1996میں ملاّعمرکی سربراہی میں طالبان کی حکومت قائم کی ۔پھر2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے عالمی طاقتوں سے ایک بارپھراربوں کھربوں ڈالر لیکر ملاّ عمر کی طالبان حکومت کے خاتمہ کے لئے سہولت کاری کی ،عالمی طاقتوں کے منصوبے کے تحت افغانستان میں 2001ء میں حامدکرزئی اور2014ء میں اشرف غنی کی حکومتیں قائم کی گئیں ۔ فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف تو حامدکرزئی اوراشرف غنی کی حکومتوں کی حمایت کی تودوسری طرف ا نہی کے خلاف مزید نئے نئے طالبان گروپس قائم کئے جنہوں نے افغانستان اورپاکستان میں خودکش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کا نیاسلسلہ شروع کیا اوریوں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ فوج کے جرنیلوں نے جن طالبان کوبنایا انہی کو مارنے کے لئے بیرونی قوتوں سے مزید ڈالرزوصول کئے اوران حاصل کردہ ڈالروں کے عوض انہیں ڈرون حملوں اوربمباری کی اجازت دی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج نے خود بھی قبائلی علاقوں میں مختلف آپریشنوں کے نام پر بمباری اورگولہ باری کر کے ہزاروں معصوم قبائلیوں کومارا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں معصوم پشتونوں کاجتناخون بہایا گیا ، اتناتاریخ میں کبھی نہیں بہایا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اوردیگرصوبوں میں بھی ہزاروں معصوم پاکستانی خودکش حملوں، بم دھماکوں اوردہشت گردی کی دیگرکارروائیوں کانشانہ بنے۔
فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف توطالبان اور مختلف عسکری تنظیمیں اورخودکش بمبارتیارکرکے افغانستان اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا تودوسری طرف کشمیرمیں جہاد کے نام پر درجنوں جہادی تنظیمیں بنائیں جنکی تفصیل اخبارات میں شائع ہوچکی ہے جن میں سے پاکستان کی ایک جہادی تنظیم کے ارکان 26نومبر2008ء کو ممبئی میں ہونے والے ایک بڑے دہشت گردحملے میں ملوث پائے گئے۔
فوج نے گزشتہ 22برسوں میں عالمی قوتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل اور اپنے مفادات کے تحت پاکستان خصوصاًخیبرپختونخوااوراس کے قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
آپریشن المیزان… 2002
آپریشن راہ ِ حق… 2007
آپریشن صراط ِ مستقیم… 2008
آپریشن زلزلہ… 2008
آپریشن شیر دل… 2008
آپریشن راہ ِراست… 2009
آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم…2009
آپریشن راہ ِنجات… 2009
آپریشن بریکھنا… 2009
آپریشن کوہ ِ سفید… 2011
آپریشن ضرب ِ عضب… 2014
آپریشن ردّالفساد… 2017
مختلف آپریشنوں کے بعد اب ایک بارپھر بیرونی قوتوں کے مفاد کے لئے '' عزمِ استحکام '' کے نام سے پختونخوا اوربلوچستان میں ایک نیافوجی آپریشن شروع کرنے کااعلان کیا گیا ہے۔ ماضی کے آپریشنوں کی طرح اس نئے آپریشن میں کی آڑ میں بھی ایک بارپھر پختونوں کاخون بہایاجائے گا۔ اورساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور18 مارچ 1984ء کوقائم کردہ میری ایم کیوایم کے رہنماؤں، کارکنوں اورہمدردوں کوبھی مزید نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے وابستہ سچے حق پرست صحافیوں، اینکرزاوریوٹیوبرز پر بھی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی ۔
میں سمجھتاہوں کہ اس آپریشن سے ملک میں کسی بھی قسم کااستحکام نہیں آئے گابلکہ اس سے ملک مزید غیرمستحکم ہوگا۔ اس باراس آپریشن کااعلان فارم 47 کے تحت بنائے جانے والے وزیراعظم شہباز شریف سے کرایا گیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں جوکچھ بھی ہواس کاساراملبہ سویلین وزیراعظم اوران کی حکومت کے ڈال دیاجائے ۔ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہتاہوں کہ فوجی آپریشنوں کے نتائج نہ ماضی میں بہترنکلے تھے اورنہ ہی اب نکلیں گے لہٰذا بیرونی قوتوں کے مفاد کیلئے آپریشنوں اوراپنے ہی شہریوں کو مارنے کی پالیسی ترک کی جائے اورآپریشن عزمِ استحکام کافیصلہ فی الفور واپس لیاجائے۔
الطاف حسین
( 23 جون 2024ء کوٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب)
آپریشن عزمِ استحکام سے ملک مزیدغیرمستحکم ہوگا
بیرونی قوتو ں کے مفاد کے لئے آپریشنوں کی پالیسی ترک کی جائے
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 1979ء میں امریکہ اورروس کی سردجنگ کاحصہ بنکر عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے ملک بھرمیں جہادی مدرسے قائم کئے، مجاہدین بنائے،انہیں ٹریننگ دیکر افغانستان بھیجا اورافغان جہاد کے نام پر افغانستان کو جنگ کی آگ میں جھونکا، اس کے لئے امریکہ سے بوریوں میں بھر بھر کے ڈالر وصول کئے اور عالمی طاقتوں کی مددسے 1992ء میں افغانستان کی حکومت ختم کرکے وہاں صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں مجاہدین کی حکومت قائم کی ، بعد میں بیرونی قوتوں کے مفادات کے لئے انہی مجاہدین کی حکومت کاخاتمہ کرنے کے لئے طالبان کے نام سے نئے نئے جہادی گروپس بنائے جنہوں نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کومزید تباہ کیا اوروہاں اپنے مفاد کے لئے1996میں ملاّعمرکی سربراہی میں طالبان کی حکومت قائم کی ۔پھر2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے عالمی طاقتوں سے ایک بارپھراربوں کھربوں ڈالر لیکر ملاّ عمر کی طالبان حکومت کے خاتمہ کے لئے سہولت کاری کی ،عالمی طاقتوں کے منصوبے کے تحت افغانستان میں 2001ء میں حامدکرزئی اور2014ء میں اشرف غنی کی حکومتیں قائم کی گئیں ۔ فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف تو حامدکرزئی اوراشرف غنی کی حکومتوں کی حمایت کی تودوسری طرف ا نہی کے خلاف مزید نئے نئے طالبان گروپس قائم کئے جنہوں نے افغانستان اورپاکستان میں خودکش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کا نیاسلسلہ شروع کیا اوریوں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ فوج کے جرنیلوں نے جن طالبان کوبنایا انہی کو مارنے کے لئے بیرونی قوتوں سے مزید ڈالرزوصول کئے اوران حاصل کردہ ڈالروں کے عوض انہیں ڈرون حملوں اوربمباری کی اجازت دی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج نے خود بھی قبائلی علاقوں میں مختلف آپریشنوں کے نام پر بمباری اورگولہ باری کر کے ہزاروں معصوم قبائلیوں کومارا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں معصوم پشتونوں کاجتناخون بہایا گیا ، اتناتاریخ میں کبھی نہیں بہایا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اوردیگرصوبوں میں بھی ہزاروں معصوم پاکستانی خودکش حملوں، بم دھماکوں اوردہشت گردی کی دیگرکارروائیوں کانشانہ بنے۔
فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف توطالبان اور مختلف عسکری تنظیمیں اورخودکش بمبارتیارکرکے افغانستان اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا تودوسری طرف کشمیرمیں جہاد کے نام پر درجنوں جہادی تنظیمیں بنائیں جنکی تفصیل اخبارات میں شائع ہوچکی ہے جن میں سے پاکستان کی ایک جہادی تنظیم کے ارکان 26نومبر2008ء کو ممبئی میں ہونے والے ایک بڑے دہشت گردحملے میں ملوث پائے گئے۔
فوج نے گزشتہ 22برسوں میں عالمی قوتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل اور اپنے مفادات کے تحت پاکستان خصوصاًخیبرپختونخوااوراس کے قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
آپریشن المیزان… 2002
آپریشن راہ ِ حق… 2007
آپریشن صراط ِ مستقیم… 2008
آپریشن زلزلہ… 2008
آپریشن شیر دل… 2008
آپریشن راہ ِراست… 2009
آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم…2009
آپریشن راہ ِنجات… 2009
آپریشن بریکھنا… 2009
آپریشن کوہ ِ سفید… 2011
آپریشن ضرب ِ عضب… 2014
آپریشن ردّالفساد… 2017
مختلف آپریشنوں کے بعد اب ایک بارپھر بیرونی قوتوں کے مفاد کے لئے '' عزمِ استحکام '' کے نام سے پختونخوا اوربلوچستان میں ایک نیافوجی آپریشن شروع کرنے کااعلان کیا گیا ہے۔ ماضی کے آپریشنوں کی طرح اس نئے آپریشن میں کی آڑ میں بھی ایک بارپھر پختونوں کاخون بہایاجائے گا۔ اورساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور18 مارچ 1984ء کوقائم کردہ میری ایم کیوایم کے رہنماؤں، کارکنوں اورہمدردوں کوبھی مزید نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے وابستہ سچے حق پرست صحافیوں، اینکرزاوریوٹیوبرز پر بھی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی ۔
میں سمجھتاہوں کہ اس آپریشن سے ملک میں کسی بھی قسم کااستحکام نہیں آئے گابلکہ اس سے ملک مزید غیرمستحکم ہوگا۔ اس باراس آپریشن کااعلان فارم 47 کے تحت بنائے جانے والے وزیراعظم شہباز شریف سے کرایا گیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں جوکچھ بھی ہواس کاساراملبہ سویلین وزیراعظم اوران کی حکومت کے ڈال دیاجائے ۔ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہتاہوں کہ فوجی آپریشنوں کے نتائج نہ ماضی میں بہترنکلے تھے اورنہ ہی اب نکلیں گے لہٰذا بیرونی قوتوں کے مفاد کیلئے آپریشنوں اوراپنے ہی شہریوں کو مارنے کی پالیسی ترک کی جائے اورآپریشن عزمِ استحکام کافیصلہ فی الفور واپس لیاجائے۔
الطاف حسین
( 23 جون 2024ء کوٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب)
آپریشن عزمِ استحکام سے ملک مزیدغیرمستحکم ہوگا
بیرونی قوتو ں کے مفاد کے لئے آپریشنوں کی پالیسی ترک کی جائے
پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے 1979ء میں امریکہ اورروس کی سردجنگ کاحصہ بنکر عالمی قوتوں کے مفادات کے لئے ملک بھرمیں جہادی مدرسے قائم کئے، مجاہدین بنائے،انہیں ٹریننگ دیکر افغانستان بھیجا اورافغان جہاد کے نام پر افغانستان کو جنگ کی آگ میں جھونکا، اس کے لئے امریکہ سے بوریوں میں بھر بھر کے ڈالر وصول کئے اور عالمی طاقتوں کی مددسے 1992ء میں افغانستان کی حکومت ختم کرکے وہاں صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں مجاہدین کی حکومت قائم کی ، بعد میں بیرونی قوتوں کے مفادات کے لئے انہی مجاہدین کی حکومت کاخاتمہ کرنے کے لئے طالبان کے نام سے نئے نئے جہادی گروپس بنائے جنہوں نے جنگ سے تباہ حال افغانستان کومزید تباہ کیا اوروہاں اپنے مفاد کے لئے1996میں ملاّعمرکی سربراہی میں طالبان کی حکومت قائم کی ۔پھر2001ء میں نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی طاقتوں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے فوجی جرنیلوں نے عالمی طاقتوں سے ایک بارپھراربوں کھربوں ڈالر لیکر ملاّ عمر کی طالبان حکومت کے خاتمہ کے لئے سہولت کاری کی ،عالمی طاقتوں کے منصوبے کے تحت افغانستان میں 2001ء میں حامدکرزئی اور2014ء میں اشرف غنی کی حکومتیں قائم کی گئیں ۔ فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف تو حامدکرزئی اوراشرف غنی کی حکومتوں کی حمایت کی تودوسری طرف ا نہی کے خلاف مزید نئے نئے طالبان گروپس قائم کئے جنہوں نے افغانستان اورپاکستان میں خودکش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کی کارروائیوں کا نیاسلسلہ شروع کیا اوریوں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کوبھی دہشت گردی کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ فوج کے جرنیلوں نے جن طالبان کوبنایا انہی کو مارنے کے لئے بیرونی قوتوں سے مزید ڈالرزوصول کئے اوران حاصل کردہ ڈالروں کے عوض انہیں ڈرون حملوں اوربمباری کی اجازت دی ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج نے خود بھی قبائلی علاقوں میں مختلف آپریشنوں کے نام پر بمباری اورگولہ باری کر کے ہزاروں معصوم قبائلیوں کومارا۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں معصوم پشتونوں کاجتناخون بہایا گیا ، اتناتاریخ میں کبھی نہیں بہایا گیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا اوردیگرصوبوں میں بھی ہزاروں معصوم پاکستانی خودکش حملوں، بم دھماکوں اوردہشت گردی کی دیگرکارروائیوں کانشانہ بنے۔
فوج کے جرنیلوں نے ایک طرف توطالبان اور مختلف عسکری تنظیمیں اورخودکش بمبارتیارکرکے افغانستان اور پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا تودوسری طرف کشمیرمیں جہاد کے نام پر درجنوں جہادی تنظیمیں بنائیں جنکی تفصیل اخبارات میں شائع ہوچکی ہے جن میں سے پاکستان کی ایک جہادی تنظیم کے ارکان 26نومبر2008ء کو ممبئی میں ہونے والے ایک بڑے دہشت گردحملے میں ملوث پائے گئے۔
فوج نے گزشتہ 22برسوں میں عالمی قوتوں کے ایجنڈوں کی تکمیل اور اپنے مفادات کے تحت پاکستان خصوصاًخیبرپختونخوااوراس کے قبائلی علاقوں میں کئی آپریشن کئے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
آپریشن المیزان… 2002
آپریشن راہ ِ حق… 2007
آپریشن صراط ِ مستقیم… 2008
آپریشن زلزلہ… 2008
آپریشن شیر دل… 2008
آپریشن راہ ِراست… 2009
آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم…2009
آپریشن راہ ِنجات… 2009
آپریشن بریکھنا… 2009
آپریشن کوہ ِ سفید… 2011
آپریشن ضرب ِ عضب… 2014
آپریشن ردّالفساد… 2017
مختلف آپریشنوں کے بعد اب ایک بارپھر بیرونی قوتوں کے مفاد کے لئے '' عزمِ استحکام '' کے نام سے پختونخوا اوربلوچستان میں ایک نیافوجی آپریشن شروع کرنے کااعلان کیا گیا ہے۔ ماضی کے آپریشنوں کی طرح اس نئے آپریشن میں کی آڑ میں بھی ایک بارپھر پختونوں کاخون بہایاجائے گا۔ اورساتھ ساتھ پی ٹی آئی اور18 مارچ 1984ء کوقائم کردہ میری ایم کیوایم کے رہنماؤں، کارکنوں اورہمدردوں کوبھی مزید نشانہ بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا سے وابستہ سچے حق پرست صحافیوں، اینکرزاوریوٹیوبرز پر بھی مزید پابندیاں لگائی جائیں گی ۔
میں سمجھتاہوں کہ اس آپریشن سے ملک میں کسی بھی قسم کااستحکام نہیں آئے گابلکہ اس سے ملک مزید غیرمستحکم ہوگا۔ اس باراس آپریشن کااعلان فارم 47 کے تحت بنائے جانے والے وزیراعظم شہباز شریف سے کرایا گیا ہے تاکہ اس کی آڑ میں جوکچھ بھی ہواس کاساراملبہ سویلین وزیراعظم اوران کی حکومت کے ڈال دیاجائے ۔ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ سے کہتاہوں کہ فوجی آپریشنوں کے نتائج نہ ماضی میں بہترنکلے تھے اورنہ ہی اب نکلیں گے لہٰذا بیرونی قوتوں کے مفاد کیلئے آپریشنوں اوراپنے ہی شہریوں کو مارنے کی پالیسی ترک کی جائے اورآپریشن عزمِ استحکام کافیصلہ فی الفور واپس لیاجائے۔
الطاف حسین
( 23 جون 2024ء کوٹک ٹاک پر فکری نشست سے خطاب)