جو چیز انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تقسیم پیدا کرے وہ درست نہیں ہوسکتی۔ الطاف حسین
زبان کے فرق سے عصبیت جنم لیتی ہے اور عصبیت کسی بھی ملک کے جغرافیہ کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے
اگر ملک میں یکساں بنیاد پر حقوق کی تقسیم کی جائے، سب کو برابری کی بنیاد پر انصاف میسر ہو تو نہ صرف زبان بلکہ ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا فرق بھی مٹ جاتا ہے
قائد تحریک الطاف حسین کا کتاب ’’فلسفۂ محبت‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب
لندن۔۔۔30، نومبر2013ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطا ف حسین نے کہا ہے کہ ہروہ چیز جو انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تقسیم پیدا کرے وہ درست نہیں ہوسکتی۔ زبان کے فرق سے عصبیت جنم لیتی ہے اور عصبیت کسی بھی ملک کے جغرافیہ کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر ملک میں یکساں بنیاد پر حقوق کی تقسیم کی جائے ، سب کوبرابری کی بنیاد پر انصاف میسر ہو تو نہ صرف زبان بلکہ ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا فرق بھی مٹ جاتا ہے۔ہمارے پاس کھانے کو نہیں ہے ، ہم غیرملکی خیرات اور امداد پر پل رہے ہیں اورپھر بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ ہم نیٹو سپلائی بند کر کے امریکہ کو سبق سکھادیں گے۔ ہم اس سے قبل بھی چھ ماہ تک نیٹو سپلائی بند کرکے امریکہ کو سبق نہیں سکھا سکے، ہم یہ نہیں سوچتے کہ اگر امریکہ نے ایک ماہ کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے پاکستان کو امداد کی سپلائی روک دی تو پاکستان کی سلامتی قائم رکھنے کیلئے اپنی چیزیں نیلام کرنا پڑیں گی۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے خدارا پاکستان کے معصوم عوام کا استحصال بند کردیں اور وطن سے بے لوث محبت کرنے والوں کی محبت کا ناجائز استعمال کرنا بند کردیں۔ اگر انہیں ڈرون حملے رکوانے ہیں تو وہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کا رخ کیوں نہیں کرتے؟
ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں اپنی کتاب ’’فلسفہ ء محبت ‘‘ کی تقریب رونمائی کے شرکاء سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب کی صدار ت معروف وبزرگ صحافی اور روزنامہ امن کے مدیر جناب اجمل دہلوی نے کی ، معروف دانشور، شاعر اور مصنف جناب محمود شام تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تقریب رونمائی سے ویلکم بک پبلشرکے اصغرزیدی، معروف اینکرپرسن آغا مسعود حسین، معروف شاعرودانشور خواجہ رفیق انجم، ماہر تعلیم ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، کراچی آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ ، قومی اسمبلی میں ایم کیوایم کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستارکے علاوہ صدر محفل اور مہمان خصوصی نے بھی جناب الطاف حسین کی کتاب پر اظہار خیال کیا۔ تقریب رونمائی میں مختلف سیاسی ، مذہبی ، سماجی،ادبی اورکاروباری شخصیات کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین ، زعماء اور اکابرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
اپنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے کہاکہ علم کی کوئی حد نہیں ہوتی ، انسان آخری سانس تک علم حاصل کرتا ہے تاہم روح قبض ہونے کا اپنا آخری علم اور تجربہ کسی کو بیان نہیں کرسکتا۔محبت ایک لامتناہی علم ہے ،کاش یہ محبت عام ہوجائے تو دنیا کے اندرونی وبیرونی90 فیصد جھگڑے فسادات ختم ہوجائیں۔ انہوں نے کہاکہ دنیا کے مختلف ممالک کے شہریوں کی جسمانی ساخت ، شکل وصورت اور رنگت مختلف ہوتی ہے تاہم مختلف جغرافیوں میں رہنے والوں کے خون کی رنگت ایک جیسی ہی ہوتی ہے لہٰذا ہمیں دیگر امتیازات کوبالائے طاق رکھ کر اس قدرمشترک کو سامنے رکھنا چاہیے اور ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ اصل اور سچی محبت بے لوث ہوتی ہے اور ہرقسم کی غرض اور لالچ سے پاک ہوتی ہے ۔ دنیا کے ہرمذہب کے ماننے والے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں اور تقریباً تمام مذاہب میں جنت اور دوزخ کاتصور موجود ہے ۔بدقسمتی سے دین اسلام کے ماننے والے بھی جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے عبادت کرتے ہیں، اگر عبادت میں لالچ کاعنصر شامل کردیا جائے تو یہ عمل خوراک اور دوا میں ملاوٹ کرنے کے مانند ہوگاجبکہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا عمل بھی ہرقسم کے لالچ سے پاک اور پرخلوص ہونا چاہیے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیا ہم اپنے وطن سے اس لئے محبت کریں کہ ہمیں وطن سے کیا ملے گا؟ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم اپنے وطن کو کیا دیتے ہیں؟جناب الطاف حسین نے حضرت رابعہ بصری قلندرؒ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ آپ ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں آگ لیے دوڑتی ہوئی جارہی تھیں ، لوگوں کے دریافت کرنے پر آپ نے کہاکہ میں اس آگ سے جنت کو جلانے اور پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں تاکہ لوگ جنت کی لالچ اور دوزخ کے خوف سے بے نیاز ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ جہاں جوان مرد اور عورت ہوں گے وہاں اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی لازمی ہوگی اگر حضرت آدم اور حضرت حوا کی جانب سے گندم نہ کھانے کے احکام خداوندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی تو نسل انسانی کا سلسلہ شروع نہ ہوتا۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ میری سوچ وفکر کے مطابق ہروہ شے بری ہے جو انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تقسیم پیدا کرے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی طرح دیگرممالک میں بھی مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں تاہم مختلف ممالک میں ان زبانوں کے فرق کے باوجود وہ ایک قوم کی حیثیت سے رہ رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ہم چاہیں تو زبان کا فرق مٹ بھی سکتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ زبان کے فرق سے عصبیت جنم لیتی ہے اور عصبیت کسی بھی ملک کے جغرافیہ کی تقسیم کا سبب بن سکتی ہے ۔ اگر ملک میںیکساں بنیاد پر حقوق کی تقسیم کی جائے ، سب کوبرابری کی بنیاد پر انصاف میسر ہو تو نہ صرف زبان بلکہ ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا فرق بھی مٹ جاتا ہے اور مختلف ریاستیں مل کر یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ بن جایا کرتا ہے ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ یہ امر افسوسناک ہے کہ پاکستان میں مختلف قومیتیں ایک دوسرے کوبرداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، نفرت اور تعصب کے اس عمل سے پاکستان دولخت ہوگیا اور پاکستان کا ایک بازو علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ ماضی کے عاقبت نااندیش حکمرانوں نے بنگالیوں کو تحقیرآمیز القابات سے نوازا، ان کے حقوق غصب کیے اور انکے ساتھ ناانصافیاں کی گئیں لیکن آج بنگلہ دیش کی کرنسی پاکستان سے زیادہ مضبوط ہے اور بنگلہ دیش کی معیشت ،پاکستان کی معیشت سے زیادہ بہتر ہے۔ جناب الطا ف حسین نے کہاکہ آج ہم سے 18 کروڑ عوام سنبھالے نہیں جاتے جبکہ بھارت کی آبادی ایک ارب سے زائد ہے اس کے باوجود وہ ترقی کیے جارہا ہے اور دنیا میں معاشی مرکز بننے جارہا ہے جبکہ پاکستان میں لوگوں کوصبح شام جہاد کا درس دیکر دہلی کے لال قلعہ پر پاکستانی جھنڈا لہرانے کے درس دیے جارہے ہیں۔ہمارے پاس کھانے کو نہیں ہے ، ہم غیرملکی خیرات اور امداد پر پل رہے ہیں اورپھر بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ ہم نیٹو سپلائی بند کردیں گے اور امریکہ کو سبق سکھادیں گے ۔ ہم چھ ماہ نیٹو سپلائی بند کرکے امریکہ کوسبق نہیں سکھاسکے اگر امریکہ نے ایک ماہ کیلئے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے پاکستان کو امداد کی سپلائی روک دی تو پاکستان کی سلامتی قائم رکھنے کیلئے اپنی چیزیں نیلام کرنا پڑیں گی۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ جو بھی چیز انسانوں کی تقسیم کا سبب بنتی ہے وہ کسی بھی طرح درست اوراچھی قرارنہیں دی جاسکتی ۔جو چیز دوسرے انسانوں کو حقیر اور اپنے سے کمتر سمجھنے کا سبب بنے وہ بھی اچھی قرارنہیں دی جاسکتی ۔ انہوں نے کہاکہ اسلام کا تو نام ہی ’’امن ، سلامتی اور آشتی‘‘ ہے ۔ جو لوگ اسلام کا نام استعمال کرکے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو قتل کرتے ہیں ، مساجد ، امام بارگاہوں ، بزرگان دین کے مزارات ،دیگرمذاہب کی عبادت گاہوں اور اسکولوں کو بموں سے اڑاتے ہیں ، بے گناہوں کو گرفتارکرکے ان کو بے رحمانہ سزائیں دیتے ہیں ، پاکستانی فوجیوں ، پولیس اہلکاروں اورمخالفین کے گلے کاٹتے ہیں وہ اسلام کے دوست نہیں بلکہ کھلے دشمن ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ دین اسلام میں کوئی جبرنہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجیدمیں خود فرماتا ہے کہ ’’لکم دینکم ولی الدین‘‘ یعنی تمہارا دین تمہارے ساتھ اور میرادین میرے ساتھ اور ’’لااکراہ فی الدین‘‘یعنی دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ جب اللہ تعالیٰ، جبرکا درس نہیں دیتا تو وہ کون لوگ ہیں جو اسلام کا نام استعمال کرکے نفرتوں کا درس دیتے اور اسلام کو بدنام کرتے ہیں۔ جناب الطاف حسین نے واضح الفاظ میں کہاکہ ملک میں دیگر پروگریسیو جماعتیں بھی ہیں لیکن ایم کیوایم ، واحد سیاسی جماعت ہے جو ڈنکے کی چوٹ پر حق اور سچ بات کرتی ہے اور مذہب کے نام پر نفرت اور قتل وغارتگری کی سیاست کرنے والوں کی مخالفت کرتی ہے ۔ ہم نے ڈنڈا بردار اور کلاشنکوف بردار شریعت کو نہ تو ماضی میں قبول کیا ہے اور نہ ہی آئندہ کریں گے۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ پاکستان وجود میں آچکا ہے ، جس طرح پاکستان ایک حقیقت ہے اسی طرح اس کے جغرافیہ میں رہنے والے عیسائی، یہودی، ہندو، پارسی ، سکھ، بدھ مت کے پیروکار، زرتشت اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ایک حقیقت ہیں ۔ اگر دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستانی شہریت رکھتے ہیں تو انہیں بھی پاکستان میں اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کا اسی طرح حق ہے جس طرح مسلمانوں کو حاصل ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں میں دیگر مسالک کے افراد خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ، دیوبندی ہوں یا بریلوی، اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور کسی کو ان سے یہ حق چھیننے کی اجازت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ میں اس فلسفہ کاپیروکار ہوں اور اسی کا درس دیتا ہوں کہ ’’اپنے عقیدے کوچھوڑو نہیں اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑونہیں ‘‘ ۔الطاف حسین کا فلسفہء محبت یہ ہے کہ ہم سب انسان ہیں ،اگرچہ ہم مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں لیکن ہم سب انسان ہیں اورہمارے خون کا رنگ ایک ہی ہے ۔ میں سب سے یہی کہتا ہوں کہ نفرتوں کو ختم کرو، محبت کو عام کرو ، سب سے محبت کرو خواہ ان کی زبان، مذہب اور عقیدہ ہم سے کتنا ہی مختلف کیوں نہ ہوں۔
جناب الطاف حسین نے کہاکہ جو جماعتیں ڈرون حملوں کے نام پر اپنی سیاسی دکانیں چمکارہی ہیں ، دہشت گردوں کو شہید قراردے رہی ہیں اور نیٹو سپلائی بند کروانے کے نام پر دھرنے دے رہی ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ پاکستان کے غریب اور محب وطن عوام کو گمراہ کرنے کا سلسلہ اب خدارابند کردیں۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں نے محب وطن پاکستانی عوام کی وطن سے محبت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں تو دھرنے دینے پر لگایا ہوا ہے جس سے صرف اور صرف غریب محنت کشوں ،کنٹینر ڈرائیوروں اورکلینرزاورگڈزٹرانسپورٹرز کا معاشی استحصال ہورہا ہے جبکہ احتجاج کی کال دینے والے خود اپنے ائیرکنڈیشنڈ گھروں میں عیاشی کررہے ہیں۔ مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے ہمیشہ عوام ہی کو نقصان پہنچایا ہے ۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے موقع پر انہوں نے ہی امریکہ کا ساتھ دیا تھا اور امریکہ کو اہل کتاب قراردیکر ہزاروں مسلم نوجوانوں کو روس اور امریکہ کی جنگ میں جھونک کر افغانستان بھجوادیا تھا۔ آج یہ امریکہ کی مخالفت کے نام پر لوگوں کو مروارہے ہیں ۔ یہ لوگ وہ بات کہتے ہیں کہ جو خود نہیں کرتے اور معصوم عوام کے جذبات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ خداراپاکستان کے معصوم عوام کا استحصال بند کردو اور وطن سے بے لوث محبت کرنے والوں کی محبت کا ناجائز استعمال کرنا بند کردو۔ اگر انہیں ڈرون حملے رکوانے ہیں تو وہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف کا رخ کیوں نہیں کرتے ؟جناب الطاف حسین نے مزیدکہاکہ میں تمام سیاسی ومذہبی قائدین اور پاکستانی عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ خداراعقل سے کام لیں اور جذباتیت سے گریز کریں ۔ جذباتیت نے ہمیں ماضی میں بھی بے پناہ نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی ہمیں جذباتیت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر ہم اپنے عمل سے محبت میں اضافہ نہیں کرسکتے تو کم ازکم اس میں کوئی کمی تو نہ کریں ۔ اسی میں ہماری ، پاکستان ، دین اسلام اور مسلمانوں کی بقاء اور فلاح ہے ۔ اگر ہم کسی کی عبادت گاہ پر بم اور پتھر ماریں گے تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جہاں جہاں مسلمان اقلیت ہیں ،کل خدانخواستہ انہیں بھی وہاں نشانہ بنایا جاسکتا ہے ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ، ہمیں ان علمائے سو سے بچائے جو نفرتوں کا درس دیتے ہیں اور مسلمانوں کو دوسرے مسلمانوں اور دیگر عقائد کے لوگوں سے لڑنے کا درس دیتے ہیں۔
جناب الطاف حسین نے کہا کہ جماعت اسلامی کے امیرمنورحسن نے تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کو شہید قراردیا جس نے فوجیوں کے گلے کاٹے، پاک فوج کے جنرل نیازی اوردیگرکئی افسروں اورجوانوں کوشہیدکیاجبکہ انہوں نے وطن کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے مسلح افواج کے افسروں اورجوانو ں کوشہیدقراردینے سے انکارکردیا۔ انہوں نے سوال کیاکہ کیامنورحسن نے اس طرح آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی نہیں کی ؟ کیامسلح افواج کی تذلیل کرنے پر منورحسن کوگرفتارکرکے ان پر مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے؟ ۔انہوں نے ایک اورمذہبی رہنما کی جانب سے دیے جانے والے اس بیان پر بھی شدید افسوس کا اظہار کیا جس میں انہوں نے کہاتھا کہ اگرکوئی کتابھی امریکی ڈرون حملے میں ماراجائے تومیں اسے شہید سمجھوں گا۔ جناب الطا ف حسین نے کہاکہ روز محشر کا مالک اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا کسی بندے کویہ حق نہیں کہ وہ جنت اوردوزخ کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرے۔ انہوں نے عوام کومخاطب کرتے ہوئے کہا،نفرتوں سے دور رہیے،سب سے پیارکیجئے،اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے اورخدابھی اس سے خوش ہوتاہے ۔جناب الطاف حسین نے تقریب رونمائی میں شرکت کرنے پر عمائدین شہر، دانشوروں ، ماہرین تعلیم ،فنکاروں کاروباری شخصیات اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت پر ان کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔اپنے خطاب کااختتام انہوں نے اس شعرپرکیا،
ان کاجوکام ہے وہ اہل سیاست جانیں
میراپیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے