متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی لندن اور پاکستان کے ارکان کا مشترکہ اجلاس۔ سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے نام کے تقررکے حوالہ سے جنم لینے والی صورتحال پر غوروخوض
سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر ہرقسم کے تعصب اور دباؤ سے بالاتر ہوکرکیا جائے۔رابطہ کمیٹی
نگراں وزیراعلیٰ کے منصب کیلئے مہاجروں کو بھی اتنا ہی اہل اورحقدار سمجھاجائے جتنا قدیم سندھیوں کو سمجھا جاتا ہے
کہاجارہا ہے کہ صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کیلئے کسی بھی مہاجر کا نام قبول نہیں کیا جائے گا
مہاجر خود کو سندھ دھرتی کا بیٹااوراردوبولنے والا سندھی سمجھتے ہیں۔اگرمہاجروں کوسندھ دھرتی کا بیٹا اور فرزند زمین تسلیم نہ کیا گیا تو پھر ہماری جدوجہد بھی مہاجروں کے حقوق اور خودمختاری کیلئے ہوگی
ہم نے فریادیں لکھنے والا قلم توڑ دیا ہے ۔ اگردوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں جیسے سلوک سے تنگ آکر مہاجروں نے بھی کوئی فیصلہ کیا تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوگی بلکہ متعصبانہ طرز عمل اختیار کرکے حقوق غصب کرنے والوں پرعائد ہوگی
کراچی ۔۔۔14، مارچ2013ء
متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی لندن اور پاکستان کے ارکان کا ایک مشترکہ اجلاس جمعرات کی شام منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کے نام کے تقررکے حوالہ سے جنم لینے والی صورتحال پر غوروخوض کیا گیا ۔اجلاس میں رابطہ کمیٹی نے اس بات پر مکمل اتفاق کیا کہ سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کا تقرر ہرقسم کے تعصب اور دباؤ سے بالاتر ہوکرکیا جائے اور نگراں وزیراعلیٰ سندھ کے منصب کیلئے مہاجروں کو بھی اتنا ہی اہل اورحقدار سمجھاجائے جتناصوبے کے قدیم اورمقامی سندھیوں کو سمجھا جاتا ہے ۔
اجلاس میں کہا گیا کہ جن مہاجروں کے ماں باپ کی قبریں سندھ میں ہیں ، جن کا جینا مرنا، کھانا پینااوررہنا سہناصوبہ سندھ سے وابستہ ہے ، جوبیرون ملک روزگارکیلئے مقیم ہونے کے باوجود اپنی آمدنی صرف صوبہ سندھ ہی بھیجتے ہیں آخر انہیں کب تک سندھ دھرتی کا بیٹا اورسندھ دھرتی کا سپوت نہیں سمجھاجائے گا؟تمام تر اہلیت اورقابلیت رکھنے کے باوجود اورتمام تر معیارات پر پورا اترنے کے باوجود انہیں آخر کب تک سندھ کی وزارت اعلیٰ کیلئے نااہل سمجھا جاتا رہے گا؟ملک میں متعدد ریٹائرڈ مہاجر ججز موجود ہیں ، سابق بیوروکریٹس اور دیگر نامور شخصیات بھی موجود ہیں ، آخر سندھ کی وزارت اعلیٰ کیلئے ان کے ناموں پر غور کیوں نہیں کیاجاتا؟کیا سندھ میں نگراں سیٹ اپ کیلئے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا حق بھی صرف قدیم سندھیوں کو ہی حاصل ہے ؟
اجلاس میں کہا گیا کہ ایم کیوایم چاہتی ہے کہ سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کا تقررہرقسم کے تعصب سے بالاتر ہوکر صرف میرٹ کی بنیاد پرکیا جائے تاہم اب تک تمام تمام طبقات اور جماعتوں کی جانب سے اب تک جتنے نام سامنے لائے گئے ہیں ان میں کسی بھی مہاجر کا نام شامل نہیں ہے اور یہ کہاجارہا ہے کہ صوبہ سندھ کی وزارت اعلیٰ کیلئے کسی بھی مہاجر کا نام قابل قبول نہیں ہوگا خواہ وہ کتنا ہی اہل اورباصلاحیت کیوں نہ ہو ۔اجلاس میں کہاگیا کہ یہ کیسا مذاق ہے کہ صوبہ پنجاب ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والوں کوتو سندھ میں آئی جی، ڈی آئی جی،کمشنر، ہوم سیکریٹری،چیف سیکریٹری اور دیگر سرکاری عہدیدوں پرفائز کیا جاسکتا ہے لیکن سندھ میں پیدا ہونے والے ، پرورش پانے والے اور روزگارکمانے والے مہاجر کو سندھ کی وزارت اعلیٰ کا حقدار نہیں سمجھاجاتا۔
اجلاس میں کہاگیاکہ مہاجروں کے بزرگوں نے پاکستان کے قیام کیلئے طویل جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ لاکھوں جانوں کا نذرانہ اس لئے پیش نہیں کیا تھا کہ ملک کے قیام کو 65 سال گزرجانے کے باوجود انہیں فرزند زمین تسلیم نہ کیا جائے اور انہیں دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جائے۔متحدہ قومی موومنٹ ،پاکستان کے تمام مظلوم عوام کی نمائندہ جماعت ہے جس میں تمام زبانیں بولنے والے بشمول اردوبولنے والے سندھی عوام بھی شامل ہیں۔ لہٰذارابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ ایم کیوایم ،سندھ کے نگراں وزیراعلیٰ کیلئے امیدواروں کے ناموں کاانتخاب ، ان کے کردار، اچھی شہرت اورماضی کے رحجانات واطوار کو دیکھ کرکرے گی خواہ وہ نیا سندھی ہو یا پرانا۔ اگر ارباب اختیار اس فیصلہ کو نہ ماننا چاہیں تو یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے یکطرفہ طورپر جسے چاہیں نگراں وزیراعلیٰ سندھ مقرر کردیں ۔ ایم کیوایم کا یہ اصولی فیصلہ ہے کہ وہ نہ تو کسی سے خوفزدہ ہوگی اورنہ کسی کے دباؤ میں آکر فیصلہ کرے گی ۔
رابطہ کمیٹی کے اراکین نے کہاکہ ہم نے فریادیں لکھنے والا قلم توڑ دیا ہے ۔مہاجر خود کو سندھ دھرتی کا بیٹااوراردوبولنے والا سندھی سمجھتے ہیں لیکن اگر انہیں سندھ دھرتی کا بیٹا اور فرزند زمین تسلیم نہ کیا گیا تو پھر ہماری جدوجہد بھی مہاجروں کے حقوق اور خودمختاری کیلئے ہوگی ۔اجلاس میں واضح الفاظ میں کہا گیاکہ کوئی بھی طبقہ آبادی کسی دوسرے طبقہ آبادی سے الگ ہونا نہیں چاہتی بلکہ کسی ایک طبقہ کے متعصبانہ ، جانبدارانہ ، غیرمنصفانہ اورغلط طرزعمل ہی دوسرے طبقہ آبادی کو انتہاء پسندانہ فیصلوں پر مجبور کرتا ہے ۔ اگردوسرے اور تیسرے درجے کے شہریوں جیسے سلوک سے تنگ آکر مہاجروں نے بھی کوئی فیصلہ کیا تو اس کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوگی بلکہ متعصبانہ طرز عمل اختیار کرکے حقوق غصب کرنے والوں پرعائد ہوگی۔