ابتدایئہ : برطانیہ کے مؤقر جریدے گارجئن میں شائع ہونے والے ایک اہم مضمون کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ یہ مضمون گارجئن کی 14 ستمبر کی اشاعت میں شائع ہوا اور اسکی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ مضمون کی اہمیت کے پیش نظر اور اہل وطن کو عالمی ذرائع ابلاغ پر پاکستانی منظر نامے سے باخبر رکھنے کی نیت سےاسے اردو جاننے والے قاریئن کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ مضمون کے مصنف جان بون ہیں جو اسلام آباد میں گارجئن کے نما یئندے ہیں۔ ترجمہ کرتے ہوئے نیک نیتی اور ہر ممکن احتیاط سے کا م لیا گیا ہے اس کے باوجود کسی بھی غلطی کو محض انسانی غلطی ہی پر محمول کیا جائے۔
پاکستان میں آزادئی صحافت آرمی کے دباؤ میں
حامد میرجانتے تھے کہ انکے اس رات کے ٹی وی پروگرام میں موجود ایک مہمان اس لمحے غلطی کر بیٹھے ہیں جب انہوں نے ملک کے آرمی چیف کا نام بڑی بے ادبی کے ساتھ لیا۔
کیپیٹل ٹاک حامد میر کا تاثرانگیزپروگرام ہے۔ اس کے ایک حالیہ پروگرام میں بات کرتے ہوئے حامد میرکہتے ہیں کہ اس مہمان نے جنرل راحیل شریف کے بجائے راحیل شریف راحیل شریف کہا۔ حامد میرکہتے ہیں کہ وہ اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ یہ الفاظ حذف کردیئے جایئں گے۔
ایک ایسے وقت جب ذرائع ابلاغ پر شدید دباؤ ہے کہ وہ آرمی کے پبلک ریلیشن مہم میں تعاون کرے جو اس وقت جنرل شریف کے امیج کو چمکانے میں مصروف ہے توتمام چینلز کا معمول بن چکا ہے کہ وہ آرمی پر کی جانے والی انتہائی معمولی تنقید کو بھی یا تو ایڈٹ کردیں یا اسکی آواز کو ہی دبا دیں۔
حتی کہ ملک کی واحد نوبل انعام یافتہ اسکول کی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بھی اس وقت خاموش کرادیا گیا جب وہ آج ٹیلے وژن پر ایک انٹرویو میں کہہ رہی تھی کہ وزیر اعظم نے اسے بتایا تھا کہ وہ تعلیم پرزیادہ خرچ کرنے کے قابل نہیں ہیں کیونکہ ان پرشدید دباؤ ہے کہ وہ فنڈز آرمی آپریشن پرخرچ کریں۔
حامد میر کو ڈر ہے کہ غیر جمہوری قوتیں میڈیا پر عائد کردہ سیلف سینسر شپ کے اس دباؤ کے ذریعے آرمی کوزیادہ سے زیادہ اہمیت دے کرسیاسی اداروں کوجانتے بوجھتےکمزور کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
کئی معروف صحافیوں کا دعوی ہے کہ انہیں آرمی آفیشئلز کی جانب سے بالواسطہ دھمکیاں ملی ہیں جن میں انہیں تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں، یا یہ کہ انکی کوریج سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھارتی انٹیلی جینس ایجنسیز کے ساتھ سمجھوتہ کر چکے ہیں۔
اس بارے میں تھوڑا سا شبہ ہے کہ آرمی اپنی عوامی مقبولیت کے اس نقصان کو بحال کرسکی ہے جو اسے پرویز مشرف کی حکمرانی کے آخری برسوں میں پہنچا تھا۔ پرویز مشرف فوجی انقلاب لانے والے جنرل تھے جنہیں دوہزار سات میں طاقت سے محروم ہونا پڑا تھا۔
ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ آرمی کیلئے حالیہ بے لگام حمایت اس ضرورت کے تحت آرہی ہے جب فوج کے سپاہی اسلامی شدت پسندوں کے خلاف جنگ میں جانیں دے رہے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ہی یہ ان ڈریکولائی قانونی ضروریات کی بھی عکاسی کرتی ہے جو نشریاتی اداروں پرعائد کردی گئی ہیں۔ گذشتہ ماہ وزارت اطلاعات نے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا جس کے تحت نشریاتی لایئسنس کے اجراء کیلئے شرط رکھی گئی ہے کہ وہ کوئی ایسا مواد نشر نہیں کریں گے جس میں عدلیہ یا مسلح افواج کی نیک نامی پربہتان طرازی کی گئی ہو۔
ساتھ ہی ٹیلے وژن اسٹیشنزکو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ تاخیری میکینزم کو اپنے لایئو پروگراموں میں پابندیوں کا اطلاق کرنے کیلئے استعمال کریں۔
گذشتہ ہفتے ملک کے میڈیا ریگولیٹرادارے پیمرا نے لاھور ہائی کوٹ کے احکامات پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر، بیانات حتی کہ ان کی تصاویر تک کے ذرائع ابلاغ پر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔ متحدہ قومی موومنٹ ملک کی چوتھی بڑی سیاسی پارٹی ہے جو اس وقت آرمی کی زیر قیادت ایک کریک ڈاؤن کا شکار ہے۔
الطاف حسین لندن میں جلاوطن ہیں اور وہیں سے ایم کیو ایم کی قیادت کرتے ہیں۔ ان پراشتعال انگیز تقریر کرنے پرعدالت میں غداری کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ان تقاریر میں انہوں نےآرمی پر شدید تنقید کی تھی اور اس جانب اشارہ کیا تھا کہ فوج کے بڑے جنرل بدعنوانیوں میں ملوث ہیں۔
بیشترمیڈیا کمپنیوں کوآرمی کے ساتھ کھڑے رہنے کیلئے تھوڑی سی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے جنہیں اپریل 2014 میں جیو ٹی وی کے ساتھ بھرپورطاقت سےلڑی جانے والی جنگ کی یاددلائی جاتی ہے۔ یہ مقبول ٹی وی چینل ملٹری کے غیض وغضب کا اس وقت نشانہ بنا جب اس نے اپنی نشریات میں الزام لگا یا کہ اس کے اسٹار صحافی حامد میر پرانتہائی مہلک قاتلانہ حملے کے پیچھےآرمی کے انٹیلی جنس ونگ کا ہاتھ تھا۔ (اس وقت)
کیبل ٹیلے وژن آپریٹرزکی حوصلہ افزائی کی گئی کہ جیو ٹی وی کی نشریات کو بند کریں جبکہ مشتہرین نے بھی اسے اشتہاروں سے محروم کردیا۔
حامد میر کہتے ہیں کہ مالکان نے انہیں کہا کہ وہ متنازعہ کہانیاں بند کردیں کیونکہ یہ انکے ساتھیوں کیلئے پریشانی کا باعث بنیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پراسرارلوگوں نے اشتہاردینے والوں کو کال کی ہے اورانہیں کہا گیا ہے کہ وہ جیو کو اشتہارات دینا بند کردیں اوراسکے بعد صورتحال یہ ہوئی کہ ہم بروقت تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہوچکےتھے۔
حامد میر کا کہنا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ آرمی کو جسکی اقتدار پر قبضے اور بلاواسطہ حکومت کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے یہ تجویز دینا کہ وہ سیاست سے دور رہے مکمل طور پرامکان سے باہرہوچکا ہے
حالیہ ہفتوں ميں ذرائع ابلاغ پر سپریم کورٹ کی ایک حالیہ تحقیقات پر جوآرمی میں ایک پراپرٹی ایمپائرکے حوالے سے الزامات سے متعلق ہیں بہت معمولی توجہ دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں وزیرستان میں طالبان کے خلاف آرمی آپریشن سے ہونے والے ایک بہت بڑی نقل مکانی میں انتہائی سست رفتاری کے موضوع پر تو شائد ہی ذرائع ابلاغ پر کوئی بحث ہوئی ہو ۔
ایسے وقت میں جب میڈیا سیاستدانوں کی بدعنوانیوں اور نا اہلی پربڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کررہا ہے تو جنرل راحیل شریف کیلئے چاپلوسی سے بھر پور کوریج کی جا رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے ملک کے ایک بہت مشہور صحافی کامران خان نے دنیا ٹی وی پراپنے رات کے شوکابیشتروقت اس تاثر پر بات کرنے کیلئے وقف کیا جس کے مطابق جنرل راحیل شریف کے عوامی گلیمرمیں روز افزوں اضافے کا مطلب انہیں آیئندہ برس نومبر میں ریٹائرہونے کی بجائے انہیں عہدے کی ایک اور مدت دیا جانا ہے۔
پاکستانی صحافی جنرل راحیل شریف کے ایک متحرک جنرل کے طور پر امیج بنانے کا سہرا آرمی کے تعلقات عامہ کے محکمے کے سربراہ عاصم باجوہ کے سرباندھتے ہیں جنہوں نے جرنل راحیل شریف کو ایک ایسے متحرک جنرل کے طور پر پیش کیا ہے جو پاکستانی طالبان سے نمٹنے میں ہرگزکوئی خوف محسوس نہیں کرتا ۔
ملک کے سیاسی رہنما جنرل شریف کے ایسے ٹی وی فوٹیج کی وجہ سے خبروں سے باہر ہوگئے ہیں جن میں وہ اگلے محاذوں کا دورہ کررہے ہیں یا غیر ملکی رہنماؤں سے اپنے دفتر میں ملاقات کررہے ہیں ۔ جنرل باجوہ کا کہنا ہے کہ ان کا کام صرف درست معلومات کوعوام تک پنہچانا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم میڈیا سے نہیں کہتے کہ یہ کرو یا وہ کرو۔ انکے مطابق عوام آرمی کے کام کی تحسین کرتے ہیں کیونکہ زمین حقیقت یہی ہے کہ بہتری آ رہی ہے
انگریزی روزنامہ ڈان کے ایک سابق ایڈیٹر عباس ناصر کا کہنا ہے کہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جنرل راحیل شریف ایک اور مدت کیلئے (ملازمت میں توسیع) چاہیں گے۔ ایسا اسلئے کہ فوج میں اس پر ناراضگی پھیل سکتی ہے۔ تاہم حد سے تجاوز کرنے والی خود اعتمادی بہرحال ایسے مقام تک لے جا سکتی ہے جہاں ماضی کی تباہ کن غلطیوں کا اعادہ ہوسکتا ہے۔
عباس ناصر کا مزید کہنا ہے کہ انکی پریشانی کا سبب یہ یکطرفہ تعریف وتوصیف ہے اوراگر کچھ جنرلوں کے سر میں یہ سودا سما گیا تو یہ ہمیں ایک بار پھرواپس غلط مہم جوئی کی طرف لے جا سکتی ہے، یہ غلط مہم جوئی اسلام آباد کی جانب مارچ یا بھارت پرحملے کی کوئی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔ عباس ناصر کہتے ہیں کہ اگر آپ کو بار بار یہ کہا جائے کہ آپ تو بڑے عظیم ہیں تو جلد یا بدیر آپ اس پر یقین کرنے ہی لگیں گے۔