Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

خراب صورتحال کا بیج (تحریر : روحان صدیقی)

 Posted on: 9/17/2013   Views:2473
خراب صورتحال کا بیج

تحریر : روحان صدیقی

1959ئتک ملک کا پہلا دارالخلافہ رہنے والا شہر کراچی جوکہ رقبے اور معیشت کے حوالے سے ملک کا سب سے بڑا شہر جانا جاتا ہے آج ایک مرتبہ پھر سازشوں اور مفروضات کے گھیرے میں ہے ۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلم اکثریتی صوبوں اور علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے وہ مسلمان کہ جنھوں نے علمِ بغاوت بلند کرکے مسلمانوں کے لیے ایک ایسی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا جہاں وہ اپنے معاشرتی بالخصوص مذہبی رسوم و رواج اور طور طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں،ایسی ریاست کا مطالبہ کہ جہاں تمام مسلمانوں کو ایک نگاہ سے دیکھا جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں بھائی چارے اور ہم آہنگی کا عملی مظاہرہ نظر آئے۔ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں خاندانوں نے ملک کے مختلف حصوں میں سکونت اختیار کی لیکن کراچی ان مہاجرین کی سکونت کا سب سے بڑا مرکز بنا ،شہر قائد اپنے محلے وقوع کے لہاظ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل شہر ہے جو کہ سمندر کنارے آباد ہے اور تجارتی لحاظ سے موزو ں بھی ہے۔ لیکن تاریخ نقطۂ نظر سے اس کی اہمیت کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب نومولود ریاست کو سہارا دینے کا مرحلہ آیا تو شہر میں آباد مہاجرین نے بلا رنگ و نسل ،زبان مذہب اپنی قابلیت اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن عزیز کو شہر شعبہ ہائے زندگی میں سہا را دیا ۔ایک اندازے کے مطابق 2کروڑسے زائد انسانوں کی آبادی والا یہ کثیر الاقوامی شہر بلکل اسی طرح سازشوں میں گھرا ہواا ہے جیسے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف سازش کے دور میں رہا۔یقیناًاس شہر کے مستقل باشندوں نے پاکستان کی فلاح اور اس کو بنانے و بچانے کے لیے جو قربانیاں دیں اور جو محنت کی سب پاکستانی اس پر فخر کرتے ہیں ۔لیکن ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مہاجرین نے اپنی جائیدادیں ، کاروبار، رہن سہن ، قدیم روایات اور اقدار جن مقا صد کے لیے ترک کئے شائد ان کی ارواح آج بھی اس خواب کی تعبیر کی منتظر ہیں جہاں صرف پاکستانی ہی رہتے ہوں ۔آج ملک کا ہر حصہ اندرونی اور بیرونی انتشار کا باعث ہے ،چند مٹھی بھر گروہ خود کو ملک کا کرتا دھرتا سمجھ بیٹھے ہیں ،جہاں دیکھوں لسانی و مذہبی اختلافا ت نظر آتے ہیں لیکن کراچی میں ان اختلافات کی انتہا اور زور خاصہ واضح ہے جس کی وجہ آج یا دس ،پندرہ سال نہیں بلکہ وہ پہلی سازش ہی اس کی بنیاد بنی کہ جب محض ذاتی اختلافات کی بنا ء پر وطن کے دارالحکومت کو شہر کراچی سے منتقل کردیا گیا تھا ،اسکے بعد محترمہ فاطمہ جناح کو ووٹ ڈالنے کی سزا کے طور پر جو کیا گیا اور پھر پختون مہاجر یا کبھی سندھی مہاجر فسادات ،یا پھر ایک خاص طبقے کے مخصوص علاقوں میں جو امتیازی سلوک شروع کیا گیا یا پھر کوٹا سسٹم کے نفاذ سے جو شہری اور دیہی پاکستانیوں میں تفریق کردی گئی وہ ،ان جیسے سینکڑوں واقعات وہ غذا تھے جو آج موجود اختلافات اور اندرونی انتشار کی پرورش کرتے رہے اور آج نفرت کے اس بیج کو تنا و ر درخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ آج بھی حکمران ،ملک اور بالخصوص شہر قائد کی مخدوش صورتحال کو محض چند سالوں کی کارکردگی کا شاخسانہ گردانتے ہیں اور ان عوامل کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھتے ہیں جو پہلے بیج اور پھر غذاکے طور سے اس نفرت کی پرورش کرتے رہے ۔

محض ذاتی انا اور نا پسندیدگی کی بنیا د پر اگر ایک خاندان کے ۴ لو گ کسی ۵ویں شخص سے مستقل امتیازی سلوک برتے رہیں اور ’’جو تم نے کیا غلط کیا ‘‘کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں تو یقیناًوہ خاندان بکھر جاتا ہے اور اسکی اس کمزری کا فائدہ بیرونی عناصر اُٹھاتے ہیں ۔1971ء میں سقوط ڈھاکہ بھی اس مسلم خاندان کے ایک فرد سے امتیازی سلوک کا نتیجہ تھا چاہے ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں یا پھر اپنی روش پر چلتے ہوئے ’’ تیسرے ہاتھ‘‘ پر سب ڈال دیں اور خود بری الزماں ہو جائیں مگر صداقت تو سب کے سامنے ہے ۔ ظاہر ہے کہ جو ہوا وہ غلط ہوا لیکن اس سے زیادہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نے ان سب سے بھی کوئی سبق نہیں لیا ،سقوط ڈھاکہ نے وطن عزیز کے نظریاتی اور حقیقی وجود کا خاتمہ کردیا لیکن ہم آج بھی اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں ۔بنگالی قو م کو ’’ مکتی باہنی‘‘ کے قیام پر مجبور کرنے والا یہ وہی مائنڈ سیٹ تھا جس نے آزادی کے وقت پاکستان کی سخت مخالفت کی تھی اور آج محب الوطن ہونے کا راگ لاپ رہا ہے ۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے خود کو اعلیٰ او ر دوسروں کو ادنیٰ سمجھتے ہو ئے خطب�ۂ حجۃ الوداع کی نفی کی اور اس امتیازی سلوک نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑ،یہ حقیقت ہے کہ عقلمند انسان یا عقلمند اقوام ایک ٹھوکر کے بعد سنبھل جاتے ہیں لیکن ہماری موجودہ روش اور خود کو اعلیٰ دوسرے کو ادنیٰ سمجھنے کی یہ پالیسی کسی طور ہمیں عقلمند ثابت نہیں کر رہی ۔ پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان صاحب کے قتل سے سقوط ڈھاکہ اور اس سے آج تک پاکستان مخالف ذہنیت سازشوں میں مصرو ف ہے اور شاید کسی طور سے کامیاب بھی ۔۔۔ 

کراچی شہر ملک کا 75%زرمبادلہ کی مد میں دیتا ہے جو کہ ملک کی معیشت کا سب سے بڑا حصہ ہے ۔شہر قائد میں ملک کی تمام قومیں آباد ہیں لیکن مہاجر سب سے بڑی تعداد میں آباد ہیں جنھوں نے نومولود ریاست کی پرورش سے آج تک وطن کی خدمت کو عباد ت سمجھا ہے اور بلا امتیاز رنگ و نسل تمام افراد کی خدمت کی ہے ۔ باوجود اسکے کہ 90ء کی دہائی میں صو ب�ۂ سندھ میں 72بڑی مچھلیوں کی گرفتاری کے لیے کیے جانے والے آپریشن’’ بلیو فاکس‘‘ میں سندھ کے شہری علاقوں پر چڑھائی کی گئی اور بے گناہ انسانوں کو 7سال تک بھیڑ بکریوں کی طرح کاٹا جاتا رہا ۔با وجود اس کے کہ شہری علاقو ں پر کوٹہ سسٹم نافذ کرکے شہریوں کی آئندہ نسلوں پر سہولیات محدود کری گئیں اور باوجود اس کے مختلف اوقا ت میں شہری علاقوں میں آباد مہاجروں کو حقارت آمیز ناموں سے پکارا گیا ۔ لیکن کہتے ہیں کہ صبر کا ایک پیمانہ ہوتا ہے جو کہ لبریز ہو جائے تو انسان خود اپنے اختیار سے باہر ہوجاتا ہے ۔ 

کراچی میں امن وامان کی مخدوش صورتحال کے باعث گزشتہ دنوں صوبے کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم نے پاک فوج کو بلانے کا مطالبہ کیا ہے جو کہ مقتدر حلقوں میں سراہا جا رہا ہے اور شہریوں کی جانب سے بھی اس مطالبے کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں پر کے جو بابائے قوم کی رہائش گا ہ کو راکھ کرنے والی ’’نام نہاد آرمی ‘‘تو نہ پکڑ سکے ہاں اپنی استطاعت اور گزشتہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجر قوم کو غدار ٹھرانے چل نکلے ہیں ۔ گزشتہ دنوں کراچی بد امنی کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے چیف جسٹس پاکستان کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی ہے کہ جس میں ’’ مہاجر ریپبلکن آرمی‘‘ نامی کسی علیحدگی پسند مسلح گروہ کی کراچی میں موجودگی اور ورکنگ کا انکشاف ہواہے (جس کے فوراً بعد مخصوص طبقہ کے افراد کی غیر قانونی گرفتاریوں کا عمل بھی شروع ہو گیا )اور حیرت اس بات پر کے یہ نام ان صاحب اور انکے ’’باس‘‘ کے علاوہ سب نے پہلی مرتبہ سنا ہے ،چاہے وہ میڈیا ہو ، سیاستدان ہوں ، کالم نگار ہوں یا پھر شہر قائد کے مستقل باسی ہوں ۔وہ آج تک مختلف کالعدم تنظیموں کے نا م ،شہر قائد میں انکی کار روائیاں ،ٹی وی انٹرویوز اور افطار ڈنر سمیت ان کی دعوتیں تو دیکھتے آرہے تھے لیکن کراچی کی عوام کی جانب سے امن و امان کے لئے پاکستان آرمی کو بلانے کے مطالبے کے بعد اچانک اس تنظیم کے نام نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔عوام ان سوالات کے جواب کو تلاش کر رہے ہیں کہ آیا یہ 90ء کی دہائی کے مقبول ترین ڈرامے ’’ جناح پور نقشہ‘‘ کی مانند تو نہیں ہے؟ جس کے جھوٹے الزا م میں شہر قائد کے ہزاروں افراد کو بے گنا ہ قتل اور سینکڑوں خاندانوں کو بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا اور 20سال بعد اس ڈرامے کہ ایک کردار اور اس وقت کے برگیڈئیر امتیاز نے ایک نجی ٹی وی ٹاک شو میں اس پورے الزام اور اس کے نتیجے میں ہونے والے آپریشن کو صرف ایک مزاق بتایا تھا اور اسکے حقیقت سے میلوں دور ہونے کا انکشاف کیا تھایایہ سوال کہ پھر یہ مہاجروں کو ایک مرتبہ کسی آپریشن میں ڈالنے کی ہیڈ لائن ہے؟۔۔۔یا یہ کہ گزشتہ کئی سال سے سپریم کورٹ میں جاری کراچی بد امنی کیس میں یہ رپورٹ تب ہی کیوں جاری کی گئی جب شہر کراچی والوں نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے پاک فوج سے مدد مانگی ہے؟ اس سے قبل ایسی رپورٹ کہاں تھی یا پھر پاک آرمی کو الجھانے اور ملکی سلامتی اور کراچی میں موجود بھتہ خوروں ، ٹارگٹ کلرز ،ڈرگ مافیاز اور لینڈ مافیا کے سرغناؤں سے دور رکھنے کیلئے اس رپورٹ اور ا س میں موجود نام کو فی الفور تر تیب دیا گیا ہے؟آج کراچی میں آپریشن کی باز گشت نے شہر کی اکثریتی قوم کو اس اندیشے میں مبتلا کردیا ہے کہ کیا یہ آپریشن واقعی جرائم پیشہ افراد و گرہوں کے خلاف کیا جائیگاہمیں ان سب سوالات کے جوابات حاصل کرکے ملک کو انتشار کی جانب لیجانے والے سازشی ٹولے کو سزا دینی ہوگی کیونکہ کوئی مانے نا مانے اس ملک کو بنانے میں جتنا کردار آپکا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بہر کیف!جواب کچھ بھی ہو، ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان میں ایک اور قو م کو غدار ثابت کرنے کے لئے رچایا گیا یہ ڈرامہ جلد اپنے منطقی انجام کوپہنچناچاہئے کیونکہ ملک ایک مرتبہ پھر ایسے کسی مفروضے اور سازش کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔ خدا نہ خواستہ اگر ایسا ہوا تو جو ہوا وہ تو ہوا ،لیکن جو ہوگا وہ بھی ایک مرتبہ ہوچکاہے۔۔۔۔!!!