Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

امریکہ کا کھلا اعتراف ۔۔۔ تحریر : قاسم علی رضا

 Posted on: 12/8/2014   Views:2668
امریکہ کا کھلا اعتراف
تحریر:۔ قاسم علی رضاؔ 
مسلح افواج ، پاکستان کی ’’بائنڈنگ فورس‘‘ ہے ،اسے محض ایک حقیقت پسندانہ مؤقف ، کھلا اعتراف اور سچائی کااظہار ہی نہ سمجھا جائے بلکہ اس بیان کو پاکستان کی ان تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں ، انسانی حقوق کی انجمنوں، این جی اوز، سول سوسائٹی اور وکلاء برادری کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ بھی تسلیم کیاجائے جو دن رات جمہوریت ،جمہوریت کا واویلا مچاتی ہیں ۔ اس کھلی حقیقت کا اعتراف ایک سپرپاورملک امریکہ کی جانب سے کیا گیا جس پر پاکستان کے نام نہاد جمہوریت پسندوں کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔اہل نظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ نے تو آج مسلح افواج کو پاکستان کی بائنڈنگ فورس قراردیا ہے جبکہ پاکستان میں چند ماہ قبل پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے حل کیلئے وزیراعظم میاں نوازشریف نے خود چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان عوامی تحریک ،پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے مابین سیاسی اختلافات کے باعث پیدا ہونے والے سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ، کیا کوئی ذی شعور اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے ؟ کیا یہ درخواست کرنا اس بات کا اعتراف نہیں کہ منتخب جمہوری حکومت عوام کو آپس میں جوڑے رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے؟ پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو وفاق اورصوبہ پنجاب میں اگرچہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)کا ووٹ بنک صرف صوبہ پنجاب تک محدود ہے ، اسی طرح سابقہ حکمراں جماعت پیپلزپارٹی کی عوامی حمایت صرف صوبہ سندھ تک محدودہوکررہ گئی ہے جبکہ پی ٹی آئی صرف صوبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور صوبہ بلوچستان میں بلوچ قوم پرست مسند اقتدار پرفائز ہیں۔ ایسے حالات میں جب کہ پاکستان کو اندرونی وبیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے ، اہم قومی ایشوز پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف پایاجاتا ہواور پاکستان ، مذہبی انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا شکار ہوایسی نازک صورتحال میں ملک کی تمام لسانی و ثقافتی اکائیوں کو متحد رکھنے کیلئے کسی بائنڈنگ فورس کی اشد ضرورت ہے ۔ اس حقیقت کے اعتراف میں کسی کو ہچکچاہٹ نہیں کرنی چاہیے کہ وفاق کی بڑی بڑی جماعتیں ملک بھرکے عوام کو متحد رکھنے میں نہ صرف ناکام دکھائی دے رہی ہیں بلکہ موجودہ وزیراعظم، سیاسی بحران کے حل کیلئے آرمی چیف سے درخواست کرکے اپنی ناکامی کا اعتراف بھی کرلیا ہے لہٰذا ایسی صورت میں سیاسی جماعتوں کو کسی بھی طرح ملک کی بائنڈنگ فورس قرارنہیں دیا جاسکتا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین نے انتظام حکومت میں فوج کے آئینی کردار کی بات کی تو دن رات جمہوریت ، جمہوریت کی مالا جپنے والوں کو پتنگے لگ گئے تھے ،ان کی جانب سے ایم کیوایم پر لعن طعن شروع کردی گئی، ایم کیوایم کو آمریت پسند اور نجانے کیاکچھ کہاگیا لیکن آج امریکہ نے جب ان نام نہاد جمہوریت پسندوں اور سیاستدانوں کے بجائے فوج کو پاکستان کی بائنڈنگ فورس قراردیا تو ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کی زبانوں پر تالے لگ گئے ۔ اگر جاگیردارانہ اور وڈیرانہ طرز کی جمہوریت کے دعویداروں کے نزدیک امریکہ کا یہ بیان غلط ہے تو ملک کی سیاسی ومذہبی جماعتوں ، انسانی حقوق کی انجمنوں ، این جی اوز، سول سوسائٹی اور وکلاء تنظیمیں امریکہ کی اس آمریت پسندی پر کیوں خاموش ہیں ؟ انہوں نے جمہوریت اور سیاسی قوتوں کی کھلی تذلیل پر آسمان سرپر کیوں نہیں اٹھالیا؟پاکستان کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کہاں ہیں وہ وکلاء تنظیمیں جو عدلیہ کی آزادی کے نام پر اپنے کام کاج چھوڑ کر کئی ماہ تک سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کیلئے جلسے جلوس، ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کررہی تھیں اور آج جب امریکہ نے نام نہاد جمہوریت پسندوں اور عوام دشمن سیاسی بھیڑیوں کو انکا بھیانک چہرہ دکھایا تو یہ سب کے سب اپنے بلوں میں گھس گئے ۔سوال یہ ہے کہ جب جمہوری دور حکومت میں عوام کی جان ومال اور عزت وآبرو غیرمحفوظ ہوجائے ،عوام اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم ہوں اور ملک کی سلامتی وبقاء کوخطرہ لاحق 
ہوجائے توعوام کی جان ومال اورعزت وآبرو کا تحفظ کون کرے گا؟ کیا جمہوری ادوار حکومت میں بھی مسلح افواج کی عوامی خدمات کسی سے پوشیدہ ہیں؟ سیلاب ہو یا زلزلہ ،متاثرین کی جانیں بچانے کا معاملہ ہویاوبائی امراض میں مبتلا غریب مریضوں کو علاج ومعالجہ کی سہولیات کی فراہمی یا تھر میں غریب ہاریوں کو غذائی اجناس کی فراہمی ہو یا ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانے کامعاملہ ہو پاک فوج کے افسران اور جوان ہرمحاذ پر عوام کی جی جان سے خدمت کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر مسلح افواج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے تو نام نہاد جمہوری اورمنتخب حکومتیں بھوک ، افلاس ، سیلاب اور زلزلہ سے متاثرہ عوام کی مددکیوں نہیں کرتیں اوریہ فریضہ مسلح افواج کو کیوں ادا کرنا پڑرہا ہے؟کوئی مانے یا نہ مانے عالمی طاقت جان چکی ہے کہ پاکستان کے سیاستدانوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، وہ جمہوریت کے نام پراپنے کاروبار کو وسعت دینے اور عوام کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے کیلئے اقتدارحاصل کرتے ہیں،یہ سیاستداں اپنے ذاتی وخاندانی مفادات میں اس قدر الجھ چکے ہیں کہ ان کی توجہ عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی جانب ہی نہیں جاتی ، 98 فیصد غریب ومتوسط طبقہ کے عوام پانی ، بجلی ، گیس ، تعلیم اور روزگارسے محروم ہیں تو ان کی بلا سے بس ان کا کاروبار زندگی چلتا رہنا چاہیے۔ذاتی وخاندانی مفادات کے حصول میں تمام تر توانائیاں استعمال کرنے والے سیاستداں ،غریب عوام کے بنیادی مسائل کیوں اور کیسے حل کرسکتے ہیں، یہ نام نہاد سیاستداں ،لسانیت کو فروغ دیتے رہے ہیں اور لسانیت کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتے رہے ہیں،انہیں جمہوریت کی نرسری یعنی مقامی حکومتوں کا نظام نافذکرنے سے اس لئے دلچسپی نہیں کہ مقامی حکومتوں کے نظام سے اختیارات براہ راست عوام تک منتقل ہوجائیں گے اور قومی لٹیروں کو ملک وقوم کی دولت لوٹنے کا موقع نہیں ملے گا۔ اقتدار کے حصول کیلئے یہ نام نہاد جمہوریت پسندرہنما،چھپ چھپ کر فوجی افسران سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور اس کے باوجود خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار قراردیتے ہیں لہٰذا ان سے یہ امید رکھنا بے کار ہے کہ وہ ملک عوام کو آپس میں جوڑے رکھ سکتے ہیں اگریہ حقیقت نہ ہوتی تو امریکہ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ صرف مسلح افواج ایسی قوت ہے جسے پاکستان کی بائنڈنگ فورس قراردیاجاسکتا ہے ۔ کیا امریکہ کی جانب سے یہ اعتراف کہ سیاستداں اور پارلیمنٹ نہیں بلکہ مسلح افواج ،پاکستان کی بائنڈنگ فورس ہے ، سیاستدانوں اورنام نہاد جمہوریت پسندوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ نہیں ہے؟
پاکستان کے باشعور اور انسانیت پسند عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب پاک فوج کے چند متعصب جرنیلوں نے تمام فوجی اصول وضوابط ، روایات ، اخلاقی اقدار اور آئین وقانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایم کیوایم کو کچلنے اور مہاجروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے19، جون 1992ء کو فوجی آپریشن کیا ، ایم کیوایم کے منتخب نمائندوں ، رہنماؤں ،ذمہ داروں اورکارکنوں کو اغواء کرکے ان کی سیاسی وفاداری تبدیل کرائی گئی ، مہاجر آبادیوں پر لشکرکشی کی گئی اور ہزاروں مہاجر نوجوانوں کا ماورائے عدالت قتل کیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو ان کے والدین کے سامنے گرفتارکرنے کے بعد یا تو لاپتہ کردیا گیا یا انہیں قتل کرکے لاشیں سڑکوں پر پھینک دی گئیں ۔ آج بھی نام نہاد جمہوری دورحکومت میں بھی ایم کیوایم کے گرفتارشدگان کی لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری ہے اور مہاجروں کے بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں۔ایم کیوایم کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران مہاجروں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور فوج کے غیرقانونی، غیرآئینی اور غیرانسانی عمل پر سیاسی ومذہبی جماعتیں ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں ،کسی نے بھی فوج کے غیرآئینی اور آمرانہ اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرہ توکجا ان مظالم پر مذمت کا ایک لفظ کہنا بھی گوارا نہ کیا۔ اس کے برعکس وہ فوجی ایکشن کی حمایت کرتے ہوئے کراچی کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے مطالبے کرتی رہی ہیں۔جمہوریت پسندی اور انسانیت دوستی کے دعوے کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں کراچی میں گھرگھر صف ماتم بچھانے کا عمل دیکھتی رہیں ، انہیں نہ سہاگنوں کے بین سنائی دیئے ، نہ ہی یتیم بچوں کی آہ وبکا، نہ بوڑھے والدین کی دردناک فریادں پر ان کا دل پسیجا اور نہ بے سہار بہنوں کی آنکھوں سے رواں آنسو ؤں ان پتھر دلوں کو موم کرسکے ۔تعصب اور نفرت کی انتہاء یہ ہے کہ سندھ کا ایک سابق وزیرتعلیم اعلانیہ کہتا ہے کہ وہ حیدرآباد میں یونیورسٹی نہیں بننے دے گا لیکن کسی جمہوریت اور انسانیت پسند کو اس متعصبانہ اور تعلیم دشمن بیان کی مذمت کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ مہاجروں کے سیاسی ،معاشی ، تعلیمی اور جسمانی قتل عام کا سلسلہ جمہوری حکومتوں میں جاری رہا لیکن اس ظلم وبربریت پرملک کی سیاسی ومذہبی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں ، این جی اوز اور وکلاء تنظیمیں خاموش رہیں۔کیا ان جماعتوں اور تنظیموں کو صحیح معنوں میں جمہوریت پسند قراردیا جاسکتا ہے ؟
*****