Altaf Hussain  English News  Urdu News  Sindhi News  Photo Gallery
International Media Inquiries
+44 20 3371 1290
+1 909 273 6068
[email protected]
 
 Events  Blogs  Fikri Nishist  Study Circle  Songs  Videos Gallery
 Manifesto 2013  Philosophy  Poetry  Online Units  Media Corner  RAIDS/ARRESTS
 About MQM  Social Media  Pakistan Maps  Education  Links  Poll
 Web TV  Feedback  KKF  Contact Us        

سیاسی دور اندیشی...تحریر فرحین رضوی

 Posted on: 10/10/2014   Views:2594
 بدقسمتی سے آج ہمارا ملک جس جگہ کھڑا ہے۔ وہ ہماری کوئی ایک یا 5،دس سال نہیں بلکہ روز اول سے بنائی گئی کمزور پالیسیو ں کا نتیجہ ہے۔
 نہ جانے کیا سوچ کر ہماری اندرونی اور بیرونی پالیساں مرتب کی جاتی ہیں کہ جس سے ملک یا ملکی عوام کو نہیں بلکہ حکمرانوں کا ہی فائدہ ہوتا نظر آتاہے.

  آج اس تقسیم شدہ عوام کا کو ن میسحا ہے۔؟یہ وہ سوال ہے جو عوام کو خود سمجھنا ہوگا۔آج پاکستان کے طول عرض پہ نظر ڈالیں تو وہ کونسا لیڈر ہے
کہ جس نے اپنی ساری زندگی اس قوم کے بہترین مستقبل کے لئے نہ صرف سرف کی ہو بلکہ ہر گھڑی قوم کے بہتر مستقبل کے سوچ بچار میں لگی رہتا
 ہو۔ وہ آج بھی قوم کے لئے ہی سوچ رہا ہے اور اسکے ہر بیان اور تقریر  "میں "سے نہیں بلکہ "پاکستانی عوام "سے شروع ہوتی ہے۔
 اگر تاریخ کے زیادہ نہیں بلکہ 25سال پرانے باب کا جائزہ لیا جائے اور ایم کیو ایم کے بانی و قائد  الطاف حسین کے بیانات
  کو سمجھا جائے تو انہوں نے افغان جہاد کو سرے سے مسترد کر کے اسکو 2سُپر پاور کی جنگ قرار دیا تھا۔انکے مطابق یہ ہمارے وسیع تر قومی مفا د میں 
  ہے کہ اس جنگ میں شامل نا ہوا جائے کیونکہ یہ 2سپر پاور ملکوں کی جنگ ہے۔جو سرا سر اقتدار پر مبنی ہے۔مگر انکے اس بیان کو نظر اندازکرتے ہوئے
  ہماری قوم کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ جسکے اثرات ہماری 2نسلوں نے محسوس کئے اور اسکے صلے میں ہم کو نشہ اور اسلحے جیسے کلچر کا تحفہ ملا۔ 
  دس سال کی جنگ لڑ کر واپس آنے والے جنگجو (جن کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر جنگ پر بھیجا تھا)کے پاس علاوہ 
  جنگی ٹرنینگ کے کوئی ایسا ہنر باقی نہیں تھا جس کو استعمال کرتے ہوئے وہ واپس پاکستانی دھارے میں شامل ہوجائیں۔اُس افغان جہاد کے نتیجے
  میں جہادی تنظیموں اور فرقہ وارانہ شدت پسندی نے پاکستان میں اپنی جڑیں مضبوط کر لی۔
 سوویت یونین روس میں تبدیل ہوگیا اور امریکہ اپنا ہدف حاصل کر کے افغانستا ن کو خانہ جنگی جیسی صورتحال میں چھوڑ کر خطے سے نکل گیا۔
  جسکا نتیجہ امریکہ کو 9/11کی صورت میں بھگتنا پڑا۔
 9/11کی صورت میں  الطاف حسین کا بیان کہ "جہادی تنظیموں کا وجود پاکستانی سلامتی کے لئے خطر ہ ہے "صیح ہوتا نظر آیا۔انکی
  دور اندیش وسیع النظر سوچ کو نظر اندا ز کر دیا گیا۔ جسکے باعث مذہبی جنونیت پسند جو  سرحد کے اُس پار تھے وہ سرحد پار کر کے پاکستانی قبائلی،شمالی و شہری علاقوں میں جڑ پکڑنے لگے۔
 2009میں  عوام کی امنگوں کی مخالفت کرتے ہوئے پارلیمنٹ نے صوفی محمد کے ساتھ سوات امن معاہدہ کر لیا تھا۔اُس 
  وقت ایم کیو ایم ہی واحد جماعت تھی جس نے الطاف حسین کی رہنمائی میں نہ صرف اسمبلی میں اس معاہدے کے خلاف آواز بلند کی بلکہ عوامی رائے
  کو بھی ا س معاہدے کے خلاف ہموار کیا۔یہ  الطاف حسین کی دور اندیشی ہی تھی۔ اس معاہد ے کو محض Time Gainکرنے کے طور 
  پر لیا گیا۔ جس سے سوات اور قبائلی علاقوں میں طالبان کی پوزیشن قدرے مستحکم ہوگئی اور عملاً طالبان نے اُس خطے پر قبضہ کر لیا۔ یہ اس معاہدے کا 
  ہی نتیجہ تھا۔ اگر  الطاف حسین کی بات کو سمجھ لیا جاتاتو ہماری تاریخ میں " خونی چوک "کا اضافہ نہیں ہوتا۔
 جنوبی وزیرستا ن اور سوات کے آپریشن کے دوران  الطاف حسین مسلسل خطرات کی طرف اشارے کر رہے تھے۔اُن میں ایک بڑا
  خطرہ دہشت گردوں کا شہری علاقوں خصوصا کراچی میں پھیل جا نا تھا۔ الطاف حسین نے اُس وقت کی حکومت وقت سے جو مطالبہ کیا تھا۔
  اُ ن میں شہروں کی جانب آنے والوں کی باقاعدہ جانچ پڑتا ل تھی۔ان مطالبات کو اُس وقت کی حکومت خاص طور پر سندھ حکومت نے لسانی رنگ 
  دینے کی کوشش کی اور اسکو ایک خاص قومیت کے خلاف قرار دیا۔یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی میڈیا بھی  الطاف حسین کی دور
  اندیشی اور دانشمندی کو سمجھنے سے قاصر رہا اور انکے مطالبات کا تماشہ بنایا گیا۔لیکن وقت نے یہ بات بھی ثابت کر دیا کہ جس خطرے کی طرف 
  جناب الطاف حسین نے 2007میں اشارہ کیا تھا۔ وہی آج انٹر نیشنل میڈیا اور تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے بول رہے ہیں۔یعنی کراچی کا ایک  تہائی حصہ طالبا ن کے زیر اثر ہے اور کراچی جو کہ اس ملک کی معاشی شہہ رگ ہے کو مہران بیس اور جنا ح انٹرنیشنل ائیرپورٹ جیسے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
  الطاف حسین وہ واحد سیاستدان ہیں جو پہلے ہی دن سے اس نظام کے خلاف حکمران طبقے کو متنبہ کر رہے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ 
  نظام فرسودہ ہے جو کہ عوام نہیں بلکہ دو فیصد مرعات  یافتہ طبقے کو فائدہ پہچا رہا ہے۔انکے مطابق مقامی حکومت ہی عوام کی صیح نمائندہ ثابت ہوسکتی ہے 
  جسکے ذریعے عوام کی حکمرانوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔مگر نہ صرف انکے مطالبات کو رد کیا گیا بلکہ اس 2فیصد طبقے نے اپنی من مانی کرتے ہوئے 
  ایسے اقدامات کئے کہ جن کی وجہ سے ماڈل ٹاؤن لاہور جیسے سانحات و واقعات رونماء ہوئے۔
 الطاف حسین کی سیاسی بصیرت تھی جس نے ماڈل ٹاؤن کے واقعے کے بعد ہونے والی سیاسی تبدیلی اور اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران
  مخالفین میں ایک پُل کا کردار ادا کیا۔ایک طرف انہوں نے حکومت وقت کو طاقت کے استعمال سے روکا تو دوسری طرف دھرنا دینے والی جماعتوں 
  سے بھی پرامن رہنے کی تلقین کرتے رہے اور نہ صرف یہ بلکہ ہنگامی بنیادوں پر وہاں بیٹھے لوگوں کے لئے کھانے اور پانی کے انتظامات کئے۔ 
 الطاف حسین نے  حالیہ بیانات میں پاکستان میں مزید انتظامی یونٹ بنانے ٰ پر زور دیا ہے۔  ان بیانات کے تناظر میں پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا رد عمل ماضی سے مختلف  نہ تھا۔ بڑھتی ہو ئی  ٓا بادی  اور گورنینس کے  انگنت مسائل  الطا ف  حسین  کی سیاسی بصیرت کو  ایک بار پھر ثابت کریں گے کہ نئے انتظا می یونٹس اب ناگزیر  ہیں۔ 
الطاف حسین کے آج تک آنے والے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُنکی سیاسی بصیرت نے ملک کو بڑے خو ن خرابے سے بچا لیا۔
 چاہے چند لوگوں کو الطاف حسین کی شکل، وجود یا طرز بیان پسند ہو یا نہیں۔مگر آج کے تمام حکمران طبقے بشمول  اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات 
  مان لینی چاہیے کہ الطاف حسین کی سیاسی بصیرت نے ہی ہمیشہ ملک کو سیاسی انتشار سے باہر نکالا ہے۔
 کل جو لوگ لند ن میں بیٹھ کر ایک آل پارٹیز کانفرنس میں الطاف حسین اور انکی جماعت کو دہشت گرد قرار دے رہے تھے وہی لوگ اُن کو 
  ٹیلی فون کر کے ملک کو سیاسی انتشار سے باہر نکلنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور مد د کے بھی طلب گار رہتے ہیں۔