ہم، فوج یا رینجرز کے دشمن نہیں ہیں، ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہتے۔ الطاف حسین
خدا کیلئے ہم سے دشمنی ختم کردو، اگر کوئی ناراضگی ہے تو ہمیں بتاؤ، تم ہمارے لئے غیر نہیں ہو بلکہ ہمارے اپنے ہو
اگر ہم نے کوئی غلطی کی ہے تو ہمیں تم سے معافی مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوگی
میری تقریروں اور بیانات نشر کرنے پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے؟
حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید، ان کے ظلم کو ظلم، جبر کو جبر اور ناانصافی کو ناانصافی کہیں تو اس کو نفرت انگیز تقریر کیسے کہا جاسکتا ہے؟
62ویں سالگرہ کے موقع پر جناح گراؤنڈ عزیزآباد میں منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب
قائد تحریک الطاف حسین کا خطاب کراچی سمیت پاکستان کے 39 شہروں میں بیک وقت سنا گیا
اجتماع میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں، خواتین اور بچوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجود تھی
اجتماع میں تمام قومیتوں، تمام مسالک اور مذاہب کے ماننے والے شریک تھے
لندن ۔۔۔ 17 ستمبر 2015ء
متحدہ قومی موومنٹ کے قائدجناب الطاف حسین نے کہاہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ، فوج یا رینجرز کے دشمن نہیں ہیں، ہم کسی سے لڑنا نہیں چاہتے ۔ خداکیلئے ہم سے دشمنی ختم کردو، اگر کوئی ناراضگی ہے توہمیں بتاؤ، تم ہمارے لئے غیرنہیں ہوبلکہ ہمارے اپنے ہو، اگر ہم نے کوئی غلطی کی ہے تو ہمیں تم سے معافی مانگنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوگی ۔ میں نے ہر موقع پر فوج اور رینجرز کی حمایت کی ، فوج کے آپریشن ضرب عضب کی حمایت میں ایک ملین کی ریلی نکالی ، خود کھڑے ہوکرفوج اور رینجرز کو سیلوٹ کیا اور لاکھوں افرادسے بھی سیلوٹ کروایا، اس جماعت اوراس کے رہنماپرپابندی لگانا، اس کی زبان پر تالے ڈالنا کیا درست اور جائز ہے؟ انہوں نے ان خیالات اظہار آج اپنی 62ویں سالگرہ کے موقع پر جناح گراؤنڈعزیزآبادمیں منعقدہ ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کایہ خطاب کراچی سمیت پاکستان کے 39شہروں میں بیک وقت سناگیا۔ اجتماع میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بزرگوں، خواتین اور بچوں کی بھی بہت بڑی تعداد موجودتھی۔ اجتماع میں تمام قومیتوں، تمام مسالک اورمذاہب کے ماننے والے شریک تھے۔ اجتماع سے ا پنے خطاب میں جناب الطاف حسین نے کہاکہ موجودہ حالات بہت کٹھن ہیں، ہمارے ہزاروں ساتھی اسیرہیں، ایم کیوایم کے کارکنوں کوگرفتارکر کے میڈیا پر ان کے بارے میں طرح طرح کی جھوٹی خبریں دی جارہی ہیں،انہیں من گھڑت اورجھوٹے مقدمات میں ملوث کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب مجھے دوسری مرتبہ گرفتارکیاگیاتومجھ پردیگرمقدمات کے ساتھ ساتھ پولیس والوں کی ٹوپی اوربیلٹ چوری کرنے کامقدمہ بھی بنایاگیا۔انہوں نے کارکنان وعوام سے کہاکہ جب تک عدالت سے ثابت نہ ہوجائے آپ ان الزامات پر یقین نہ کیجئے۔ حالات بہت سخت ہیں لیکن آپ ان سے قطعی مایوس نہ ہوں،آپ نے اپنے نظریہ اورمشن ومقصدکی سچائی پر یقین کرتے ہوئے اوراللہ کے بھروسے پر اعتمادکرکے ماضی میں بھی کڑی آزمائشوں کامقابلہ کیاہے ، آج بھی کررہے ہیں،اپنے نظریہ پر یقین رکھئے ، مایوس نہ ہوں، ایک نہ ایک دن آپ کامیاب ہوں گے۔ جناب الطاف حسین نے کہاکہ آج میری تقریرمیڈیاپرنشرکرنے پرپابندی عائد ہے، میرابیان نشرکرنے ، ریکارڈڈ انٹرویونشرکرنے حتیٰ کہ میری تصویرتک چھاپنے پربھی پابندی عائد ہے۔حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ الطاف حسین کی تقاریرپرپابندی ہم نے نہیں عدالتوں نے لگائی ہے ۔انہوں نے کہاکہ میراسوال یہ ہے کہ میری تقریروں اوربیانات نشرکرنے پر پابندی کیوں عائد کی گئی ہے ؟ کیامیں نے آپ کے گھرمیں چوری کی ہے ؟ ڈاکہ ڈالاہے ؟کیا میں نے کسی کو قتل کیاہے؟میں نے کسی سے جبرسے پیسہ لیاہے ؟جناب الطاف حسین نے کہاکہ میں عدالتوں کااحترام کرتاہوں لیکن بہت ادب سے میرا یہ سوال ہے کہ آپ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، آپ بتائیے کہ کیا انسانوں پر اعتراض کرنا اوراللہ تعالیٰ پر اعتراض کرناکیابرابرہوتاہے؟انسان غلطیوں ا ورخطاؤں کا پتلہہے، پاک صاف اورخطاؤں سے پاک ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ،اگرآپ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ پرتنقیدکریں، ان کے ظلم کوظلم ، جبرکوجبر اورناانصافی کوناانصافی کہیں تواس کونفرت انگیزتقریرکیسے کہاجاسکتا ہے؟ میری تقریراوربیانات نشراورشائع کرنے پرپابندی کرنے کافیصلہ میرے سرآنکھوں پرہے لیکن بحیثیت پاکستانی شہری میرا سوال یہ ہے کہ کیاپورے ملک میں کسی اورلیڈرکے منہ سے آپ نے ایسے جملے نہیں سنے کہ جنہیں غیراخلاقی اورنفرت انگیزکہاجاسکے؟ کیاعمران خان کی فوج کے جرنیلوں کے بارے میںیہ گفتگوریکارڈپر موجودنہیں ہے کہ ’’ 20ہزارسڑکوں پرلے آؤ، جرنیلوں کاپیشاب نکل آئے گا، یہ اتنے بزدل ہوتے ہیں ‘‘ جناب الطا ف حسین نے کہاکہ کیاکسی گھرمیں بزرگ بچوں کوڈانٹتے ہوئے انہیں برابھلانہیں کہتے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک انسان کاقتل پوری انسانیت کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہوتاہے اوراگرکوئی یہ کہے کہ بے گناہ کوقتل کرنے والاکتے کی موت مرے تویہ گالی نہیں بلکہ بددعاہے۔ اس بددعا کونفرت انگیزقراردینے کے بجائے اس پرہونے والے ظلم کوسمجھنے اوراسے انصاف دینے کی ضرورت ہے۔