پاکستان بھرمیں ہونے والی دہشت گردی اورسانحہ پشاور کے اصل سرپرست مولانافضل الرحمن ہیں،قمرمنصور
مولانا فضل الرحمن منافقت کا سر چشمہ ہیں،ان کی پریس کانفرنس 21ویں ترمیمی بل او ر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف نہیں
بلکہ کراچی اور کراچی کے عوام کے خلاف زہر افشانی تھی
مولانانے سانحہ پشاورکے معصوم بچوں،اساتذا کرام کے خون سے غداری کی ہے اور خود کش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کے واقعات میں ان ہزاروں معصوم وبیگناہ پاکستانیوں اورپاک فوج کے ہزاروں جوانوں کوشہیدکرنے والے درندہ صفت سفاک دہشت گردوں کوبچانے کی کوشش ہے
مولانا فضل الرحمن کو اجمل پہاڑی اور صولت مرزا تو نظر آگئے لیکن GHQپر حملہ کرنے والے ڈاکٹر عثمان جیسے لاتعداد دہشت گردوں کا تذکر ہ کر ناوہ بھول گئے
صولت مرزاپرالزام سیاسی نوعیت کاالزام ہے جس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں جبکہ اجمل پہاڑی پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے
مسجدضرارمیں جوکام مولاناعبدالعزیزنے کیاآج وہی کام مولانافضل الرحمن کررہے ہیں اورلوگوں کوگمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں
رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمرمنصورکی رابطہ کمیٹی کے ارکان اورسینیٹ،قومی وصوبائی اسمبلی کے ہمراہ خورشیدبیگم سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس
کراچی ۔۔۔8جنوری2015ء
متحد ہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی پاکستان کے انچارج قمر منصور نے کہاہے کہ آج اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس منافقت کا سر چشمہ تھی اور یہ پریس کانفرنس 21 ویں ترمیمی بل او ر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف نہیں بلکہ کراچی اور کراچی کے عوام کے خلاف زہر افشانی تھی ملک میں ہونے والی دہشت گردی اورسانحہ پشاور کے اصل سرپرست مولانافضل الرحمن ہیں، مولانانے سانحہ پشاورکے معصوم بچوں،اساتذا کرام کے خون سے غداری کی ہے اور ان درندہ صفت سفاک دہشت گردوں کوبچانے کی کوشش کی ہے جو ہزاروں معصوم وبیگناہ پاکستانیوں اورپاک فوج کے ہزاروں جوانوں کو خود کش حملوں،بم دھماکوں اوردہشت گردی کے واقعات میں شہیدکرتے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو اجمل پہاڑی اور صولت مرزا تو نظر آگئے لیکن GHQپر حملہ کرنے والے ڈاکٹر عثمان جیسے لاتعداد دہشتگردوں کا تذکر ہ کر نااورجوکراچی سے تعلق رکھنے والا دہشت گردجوڈرون حملوں میں مارے گئے انہیں بھول گئے،صولت مرزاپر سیاسی نوعیت کاالزام ہے جس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں جبکہ محمد اجمل پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکاہے۔انہوں نے قرآن پاک کی سورۂ منافقین کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مسجدضرارمیں جوکام مولاناعبدالعزیز نے کیاآج وہی کام مولانافضل الرحمن کررہے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے رابطہ کمیٹی کے ارکان ڈاکٹرنصرت شوکت،عارف خان ایڈووکیٹ،سیدحیدرعباس رضوی ، گلفراز خان خٹک اور سینیٹ قومی وصوبائی اسمبلی میں ایم کیوایم کے نمائندگان ڈاکٹر محمد فاروق ستار ، بابر خان غوری،بیرسٹرفروغ نسیم، بیرسٹر سیف اورخواجہ اظہارالحسن کے ہمراہ خورشیدبیگم سیکرٹریٹ عزیز آبادمیں ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا۔قمر منصور نے کہا کہ ایم کیوایم کے قائد جناب الطاف حسین نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں طالبان دہشت گردوں کی جانب سے معصوم طلبہ اور اساتذہ کے قتل عام پر شہداء کے لواحقین سے اظہاریکجہتی کیلئے 19 دسمبر2014ء کو تبت سینٹر کراچی میں منعقدکی جانیوالی قومی یکجہتی ریلی سے اہم خطا ب کیا تھااوراپنے خطاب میں قرآن مجیدکی درج ذیل آیات بیان کرکے منافقوں کی نشانیوں سے قوم کو آگاہ کیا تھا جنہیں ہم آج یہاں دوبار ہ نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔انہوں نے قرآنی آیات کا ترجمہ سنایا اورانہوں نے ’’قرآن مجید کے 28ویں سپارے کی آیت 63ویں سورۃ المنافقون اورقرآن مجید کے سپارہ نمبر 11 ’’ یعتذرون‘‘میں سورۃ نمبر9 یعنی سورۃء توبہ کی آیت نمبر107سے 110 کا حوالہ دیاجس میں منافقین کی نشانیاں بیان کی گئیں ہیں۔ ان آیات کایہاں ذکر اس لئے ضروری تھا تاکہ ان لوگوں کی دوبارہ نشاندہی کی جاسکے جو ملک کو تباہ وبربادکرناچاہتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس بھی منافقت کا سر چشمہ تھی اور یہ پریس کانفرنس 21ویں ترمیمی بل او ر آرمی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف نہیں بلکہ کراچی اور کراچی کے عوام کے خلاف زہر افشانی تھی ۔انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمن اور انکے حواریوں نے افغان جہادکے وقت پاکستان کے معصوم نوجوانوں کو جہاد اور اسلا م کے نام پر دہشت گردی کا نشانہ بنا یا اور آج جب طالبان دہشت گردوں کے ہمراہ ان کا احتساب ہو رہا ہے تو وہ حواس باختہ ہیں، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور انکی حکومت کو آگا کرتے اور ان سے گلے شکوے کرتے لیکن انہوں نے کراچی کے دولوگوں کانام لیاجس میں ایک صولت مرزا جوگزشتہ15سال سے جیل میں ہیں اورجن کے گھروالوں نے ایک نامورقانون دان کے ذریعے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا ہوا ہے۔آج مولانا کو کراچی میں نصیر اللہ بابر کے خونی آپریشن اور رینجرز کا آپریشن بہت پسندآرہاہے ان آپریشنز میں کراچی کے سینکڑوں نوجوانوں کولاپتہ کردیا گیا ہے ، قائد تحریک جناب الطاف حسین بھائی کے بڑے بھائی ناصر حسین اور جواں سال بھتیجے عارف حسین سمیت ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکنوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا لیکن مولانا کو یہ سب نظرنہیں آیا اور وہ اس ظلم پر ایک لفظ کبھی نہیں بولے اگر انہیں کراچی میں نصیر اللہ بابر کا آپریشن پسند آیا تو وہ کل سے اپنی جماعت کو نصیر اللہ بابر کے نظریے کے مطابق چلائیں، انہو ں نے کراچی کے لوگوں پر ظلم کرنے والے نصیر اللہ بابر کا تذکرہ کرکے کراچی کے عوام کا دل دکھایا ہے ۔قمر منصور نے کہا کہ جب مسجد ضرارکے نمونے لال مسجد سے مولانا عبد العزیز پاک افواج کے جوانوں پر جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کر وارہا تھا اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کروائی جارہی تھی اس وقت بھی فضل الرحمن صاحب خواب خر گوش کے مزے لے رہے تھے اورفضل الرحمن قوم کو بتائیں کہ کیا ملک بھر میں پولیو ٹیموں پر حملے کراچی کے لوگوں نے کروائے ؟اس بات کا جواب دیں کہ جمعیت علما ئے اسلام کے زیر اثر علاقوں میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے کون سی قوت روکتی ہے۔خاتون نہ منظورکانعرہ لگانے والے مولانابے نظیرکی پارلیمنٹ میں کیوں بیٹھے؟ ڈیزل پرمٹ سے صولت مرزا اورمحمد اجمل نہیں مولانا فضل الرحمن شہرت پائی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اکثریت مدارس اور مساجد حق پر ہیں اور دین اسلام کا صحیح پیغام پہنچا رہے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن جیسے چند متعصب ملا قرآن کی آیت اور دین اسلام کی تعلیمات کو بیچ کر ملک میں بھائی کو بھائی سے لڑ ا رہے ہیں اور منبر و مسجد کا غلط استعمال کر رہے ہیں جبکہ کراچی میں شیعہ سنی فسادات کی کوششیں اور دہشت گردی کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اسلام اور جہاد کا نام لیکر اپنی ڈارھیاں کٹوا رہے ہیں اور پولیس ، رینجر ز سمیت دیگرسکیوریٹی اداروں کے اہلکاروں اور عام شہریوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اجمل پہاڑی پر آج تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے بلکہ ان سے ہمیشہ جبری طور پر بیانات قلمبند کرواکر ایم کیوایم کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا ہے، صولت مرزا کے متعلق ایک مایہ ناز وکیل نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے اور وہ پاکستان کے برابر کے شہری ہیں جس کو تمام حقوق حاصل ہیں کیا صولت مرزا کو ایک ہی کیس کے اندر مختلف سزائیں دی جاسکتی ہیں ؟ جبکہ اہل خانہ انصاف کیلئے کوششیں کر رہے ہیں ۔انہوں نے صحافیوں کو مخاطب کر کے کہاکہ مولانا فضل الرحمن کی حقیقت سے کون واقف نہیں ہے؟ اور انکے مختلف وقتوں میں طالبان دہشت گردوں ، انتہاء پسندوں اور ملک دشمنوں کی حمایت میں بیانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں تاہم فضل الرحمن کی4دسمبر2012ء کو ہونیوالی پریس کانفرنس بھی اخبارات کے ریکارڈمیں موجود ہے جس میں فضل الرحمن نے کہا تھا کہ’’ پاکستان کے کسی علاقے میں طالبان تحریک نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے ‘‘ اوراخبارات و ٹیلی ویژن شاہد ہیں کہ کس طرح فضل الرحمن نے طالبان دہشت گردوں کی وکالت کی جبکہ ان درندہ صفت طالبان دہشت گردوں نے حکومت سے مذاکرات کیلئے مولانا فضل الرحمن کی ضمانت مانگ کران پر اپنے بھر پور اعتماد کا اظہار کیا تھا اور ایم کیوا یم کے خلاف دہشت گردی کی مزید کارروائیاں کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا، قمر منصور نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے ہمیشہ حکومتوں کی چمچہ گیری اور دہشت گردوں کی حمایت کی ہے اور اگر آج بھی حکومت مولانا فضل الرحمن کو مزید مراعتیں، ڈیزل پرمٹس اور مختلف کمیٹیوں میں عہدے دیدے اور خیبر پختونخوا میں انکی حکومت بنوادے تو وہ ناصرف طالبان دہشت گردوں کے خلاف ہونیوالی 21ویں آئینی ترمیمی بل کی حمایت میں گن گانے لگیں گے بلکہ اس کی حمایت میں شرعی حوالے سے اور اس کے حق میں دلائل بھی پیش کر دیں گے جو وہ ماضی میں کرتے رہے ہیں۔ عوام کوعلم ہے کہ پہلے ڈیزل پرمٹس، کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بن کر کس نے شہرت حاصل کی تومولاناصاحب پہلے ان تمام عہدوں سے دستبردار ہوں اور اس کے بعد دوسروں پر الزام تراشیاں اور بڑی بڑی باتیں کریں۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت GHQ، کامرہ ائیر بیس، کراچی ائیر پورٹ، مہران بیس ، داتا دربار، حضرت عبد اللہ شاہ غازی سمیت اہم سرکاری تنصیبات، مزارات، مساجد ، مدرسوں ، اسکولوں ، امام بارگاہوں ، بازاروں ، چرچوں اورحالیہ دنوں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد سفاک حملے کر رہے تھے اس وقت بھی مولانا فضل الرحمن کی زبان سے ان کے خلاف ایک لفظ نہیں نکلا بلکہ وہ تواترکے ساتھ طالبان کے گن گاتے رہے تھے۔جبکہ صولت مرزا اور اجمل پہاڑی نے نہیں بلکہ وہ داڑھی اور دین کاغلط استعمال کرنیوالے طالبان دہشت گردوں اور ان جیسے عناصر کی کار روائیاں تھیں۔ قمر منصور نے کہا کہ میڈیا کی آنکھیں پوری دنیا کو دکھا چکی ہیں کہ ملک بھر میں کالعدم جماعتوں کے جلسو ں اور اجتماعات میں مولانا فضل الرحمن کے کارکنان انکے پارٹی پرچم کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ فضل الرحمن حقیقتاً طالبان دہشت گردوں ، انتہاء پسندوں اور فرقہ ورانہ فسادات کرانے والے عناصر کے حمایتی اور ملک میں انتہاء پسندی کی آگ کو پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور عبد اللہ بن ابئی کے پیروکار بنے ہوئے ہیں۔پاکستانی قوم مولانا سے سوال کرتی ہے کہ آپ کے پاس بیرونی فنڈنگ کہاں سے آتی ہے ، مدارس میں بیرون ممالک کے مسلمان کو فرقہ ورانہ فسادات کے لئے بھرتی کیا جارہا ہے وہ کس کے کہنے پر کیا جارہا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں مولانا کہ مدرسے عوام کے چندوں سے چل رہے ہیں اگر کراچی کے عوام نے آپ کے مدرسوں کا چندہ بند کر دیا تو آ پ اور آپکی جماعت کہاں جائے گی ؟ ۔ اب جب قوم دہشت گردوں کے خلاف یکجا ہو گئی ہے تو آپ داڑھی جیسی متبرک سنت، ممبر ، مسجد کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہ کریں آپ کا یہ عمل ملک کو تباہی کی جانب لے جارہاہے۔انہوں نے کہا کہ جناب الطاف حسین تین دہائیوں سے ملک میں بالخصوص کراچی میں طالبان کی موجودگی کی بات کررہے ہیں تب تو ٹی وی ٹاک شوزمیں جماعتوں نے جناب الطاف حسین کا مذاق اُڑایااوراب سب نے انکی بات کا یقین کرلیا ہے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ جو لوگ دہشت گردوں کے خلاف کار روائیوں میں روہڑے اٹکا رہے ہیں اور روکاوٹ بن رہے ہیں ان پربھی خصوصی عدالتوں میں کیس چلایا جائے ۔ انہوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے تمام تر سیاسی مخالفتوں کے باوجو دپاکستان کو بچانے کیلئے21ویں ترمیم کو متفقہ منظورکروایا ۔ایک سوال کے جواب میں بیرسٹر سینٹر فروغ نسیم نے کہا کہ صولت مرزا کے وکیل نے سپریم کرٹ میں پٹیشن دائر کی ہے اور ایسے کیس کی بات کرکے معاملے کو الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ ، بابر خان غوری نے کہا کہ سانحہ پشاور کے شہداء کاچہلم تک نہیں ہوا اور فضل الرحمن قوم کو تقسیم کرنا چاہ رہے ہیں ، فضل الرحمن نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور آرمی چیف کے سامنے میٹنگ میں ہاں کہا اور پھر باہر جاکر انکار کردیا بابر خان غوری نے کہا کہ پشاور سانحہ میں ملوث دہشت گردوں کے حمایتی ہمارے ملک کی سیاسی قیادت میں موجود ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے کہاکہ جناب الطاف حسین نے ہمیشہ دہشت گردوں اور مذہبی انتہاء پسندوں کی کھل کر مخالفت کی ہے اور آج پہلی مرتبہ سیاسی لبادے میں موجود منافقوں کے چہرے سے منافقت کے نقاب الٹ گئے اور 21ویں ترمیم نے واضح لکیر کھنچ دی ، انہوں نے کہا کہ آج اجمل پہاڑی یا صولت مرزا پاکستانی قوم یا سانحہ پشاور کے شہید بچوں کے اہل خانہ کے کٹھرے میں کھڑے نہیں ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن ، مولانا ڈیزل و پلاٹ اپنی منافقت کے ساتھ قوم کے کٹہرے میں کھڑے ہیں اور شہداء کے لواحقین مولانا سے سوال کر رہے ہیں کہ جو خودکش حملے کرنے آئے وہ شرعی عمل تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہاکہ اگر آ ج مفتی محمود زندہ ہوتے تو مدرسوں اور مدرسے کے بچوں کو اپنے نظریے کی بھینٹ چڑھانے کا ڈرامہ ہو رہا ہے اس کا پردہ چاک ہو جاتا۔انہوں نے سوال کیا کہ جو جہاد کے نام پر دہشت گردوں نے قوم ، ملک و آئین کے خلاف جنگ کر رکھی ہے یہ شرعی ہے یا غیر شرعی ہے ،مولانا فضل الرحمن نے اس حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرنے کے بجائے کراچی کے عوام کو اپنے تعصب کا نشانہ بنایا، آپ دراصل مذہب کے نام پر دہشت گردی کے سرپرست اور سانحہ پشاور کے بچوں کے قاتل ہیں اور ملک میں انتہاء پسندی کے سر پرست ہیں ، انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم و آرمی ایکٹ میں کہیں مدرسوں کا تذکرہ نہیں ہے مولانا فضل الرحمن قوم کو گمراہ کرکے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ جب بات دہشت گردوں کے سرپرستوں کی آئے گی تو انکاگریبان پکڑا جائے گا۔
English Viewers
وڈیو